• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جواب آں غزل چوہدری نعیم احمد باجوہ-احمدیوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے کس نے روکا؟۔۔۔۔۔ ممتاز علی بخاری

جواب آں غزل چوہدری نعیم احمد باجوہ-احمدیوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے کس نے روکا؟۔۔۔۔۔ ممتاز علی بخاری

نوٹ :مکالمہ ایک غیر جانبدار پلیٹ فارم ہے،جو ہر قاری کو اپنا موقف مکمل آزادی کے ساتھ پیش کرنے کی  دعوت دیتا ہے، چوہدری نعیم احمد باجوہ کا مضمون بھی اسی آزادیء اظہار رائے کے تحت شائع کیا گیا ،جس  میں موجود اعتراجات کا جواب  ممتاز علی بخاری دے رہے ہیں ،اگر کوئی اور بھی اس بارے میں اپنے دلائل پیش کرنا چاہے تو مکالمہ حاضر ہے!

مکالمہ  کے  فورم پر چوہدری نعیم احمد باجوہ کا کالم بعنوان “احمدیوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے کس نے روکا؟۔۔۔۔ چوہدری نعیم احمد باجوہ ”  پڑھا۔میں کوئی عالم نہیں ہوں ایک عام مسلمان ہوں ۔
میرے مطابق یہ تحریر محض ایک پروپیگنڈا ہے جس کا مقصد کم علم اور عام مسلمان ،جنہیں دین کے حوالے سےزیادہ آگہی حاصل نہیں، کو ورغلانا اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہم ان کے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں پہلی بات جو انہوں نے کی وہ یہ کہ جماعت احمدیہ 1970 ء سے الیکشن کا بائیکاٹ کر رہی ہے اور ربوہ کے عوام الیکشن سےلاتعلق ہیں۔ لاتعلقی کی ذمہ دار بقول موصوف کے، جماعت احمدیہ ہی ہے جو لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے اس نظام سے دور کیے ہوئے ہے۔ اب دیکھتے ہیں وہ وجہ جس کی بناء پر قادیانی اس جمہوری عمل سے دور ہیں۔ بقول موصوف احمدیوں کا یہ مطالبہ ہے کہ قائد اعظم کے اصولوں کی بنیاد پر انتخابات مخلوط طرز پر ہوں ۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا وہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ احمدی / قادیانی ایک اقلیت ہیں۔ تو جناب! اصل مسئلہ بھی یہی ہے۔ قادیانی جہاں چاہیں اس ملک میں رہیں ،جہاں چاہیں اپنی عبادات کریں ،انہیں اس کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ موصوف کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اس وقت رائے دہند گان کی ایک فہرست میں مسلمان ، ہندو، مسیحی ، پارسی ، سکھ ، اور دیگر مذاہب کے افراد کے نام شامل ہیں جبکہ صرف احمدیوں کے لئے الگ ووٹر لسٹ بنائی گئی ہے ۔

تو عرض کچھ یوں ہے کہ نہ ہی کوئی ہندو خود کو مسلمان کہلاتا ہے ، نہ عیسائی نہ پارسی اور نہ ہی سکھ اور کسی اور مذہب کے پیروکار خود کو مسلمان گردانتے ہیں۔ اسی لیے احمدیوں کے لیے الگ فہرست بنائی گئی ہے۔

موصوف کا کہنا ہے کہ حالیہ انتخابات میں ووٹ کے اندراج کے لئے جاری کئے گئے فارم میں مذہب کا خانہ اورحلفیہ بیان شامل کیا گیا ہے ۔ اس فارم کے ذریعہ ووٹ بنانے کے لئے احمدیوں کو حضرت محمد ﷺ سے قطع تعلق کا اعلان کرنا پڑتا ہے جو کہ ایک احمدی سوچ بھی نہیں سکتا اوریہ کہ انتخابی قوانین کے تحت احمدی رائے دہندگان کی الگ فہرست مرتب کی گئی ہے ۔ تو یہ بھی سراسر جھوٹ ہے۔ قادیانیوں کی کتابیں بھری ہوئی ہیں جن میں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا گیا ہے اور سب و شتم کی گئی ہے۔ جب قادیانی غلام احمد قادیانی کو نبی کہتے ہیں تو وہ مسلمان نہیں قادیانی ہو گئے۔ وہ خود کو کس حیثیت سے مسلمان کہلا سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر مسلمانوں کے شعائر استعمال کر کے وہ عام مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔ مرزا قادیانی ایک ایسا شخص تھا جو کبھی مہدی، کبھی ظل نبی، بروری نبی، پھر نبی، پھر مسیح اور کئی جگہوں پر خدا ہونے کا دعویدار ہے۔میں یہاں مرزا قادیانی کی شخصیت کے حوالے سے کسی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا کیونکہ اس طرح میں اصل موضوع سے ہٹ جاؤں گا۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” لانبی بعدی ” میرے بعد کوئی نبی نہیں ، ( یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے صحیح بخاری حدیث نمبر 3455 ، صحیح مسلم حدیث نمبر 1842 میں ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے صحیح مسلم حدیث نمبر 2404 میں اور حضرت ثوبان بن بجداد رضی اللہ عنہ نے سنن ترمذی حدیث نمبر 2219 ، سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4252 اور مستدرک حاکم میں حدیث نمبر 8390 میں صحیح اسناد کے ساتھہ بیان کی )مسلمان تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں ۔ حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ کو بھی اللہ کا نبی مانتے ہیں لیکن حضرت محمد ﷺ کو اللہ کا آخری نبی اور رسول مانتے ہیں اسی لیے مسلمان کہلائے جاتے ہیں ،یہودی یا عیسائی نہیں۔۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخری نبی اور یہودی موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا آخری نبی مانتے ہیں۔ تو جناب اگر مرزا کو آپ نبی کہتے ہو تو مرزائی کہلاتے ہوئے تکلیف کیوں ہوتی ہے۔ کسی عیسائی کو خود کو عیسائی کہتے ہوئے، کسی یہودی کو خود کو یہودی کہلاتے ہوئے یا کسی مسلمان کو خود کو مسلمان کہلاتے ہوئے کبھی ہچکچاتے   کسی نے نہیں دیکھا ،تو پھر قادیانی کیوں مسلمانوں کے لبادے میں خود کو چھپا رہے ہیں اگر وہ درست ہیں۔

شاید چوہدری صاحب یہ سوچ رہے ہوں کہ میں صرف جذبات کا اظہار کر رہا ہوں اس حوالے سے میری کوئی سٹڈی نہیں ہے تو ان کی معلومات کے لیے عرض کرتا چلوں کہ میں نے اس حوالے سے بہت پڑھا ہے۔ مرزا صاحب اپنی کتاب “تجلیات الٰہیہ میں کہتے ہیں” جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے، ایسا ہی اس کلام میں کوئی بھی شک نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوتا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا خدا کی کتاب پر۔۔۔۔” مرزا نے اپنی کتاب “ایک غلطی کا ازالہ”میں بھی کہا کہ میں ہی خدا کا نبی ہوں۔اس سے بڑھ کر دعویٰ  نبوت اور کیا ہو گا۔

میری بس اتنی گزارش ہے کہ احمدی اگر واقعی مسلمان ہیں تو یہ اعلان کر دیں کہ محمد ﷺ اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور مرزا کا دعویٰ  نبوت غلط اور جھوٹ تھا۔ وہ جھوٹ بول رہا تھا تو سب آپ لوگوں کو مسلمان تسلیم بھی کر لیں گے اور کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔ اگر یہ ممکن نہیں  تو پھر منافقت ایک طرف رکھ کر کھلے طور پر خود کو مرزا قادیانی کے پیروکار اور قادیانی مذہب کے پیروکار تسلیم کرتےہوئے خود کو مسلمان نہ کہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان کو قادیانیوں نے پوری دنیا میں بدنام کر رکھا ہے کہ وہاں اقلیتوں کو حقوق نہیں ملتے اور ان پر ظلم و زیادتی ہوتی ہے۔ قادیانی اگر خود اپنی حیثیت کو تسلیم کر لیں مسلمانوں کے لبادے میں خود کو نہ چھپائیں تو جس طرح یہاں دوسری اقلیتیں رہ رہی ہیں اسی طرح یہاں رہ سکتے ہیں اور جمہوری عمل میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ یہ سارے مسئلے ان کی دو عملی اور منافقت کے باعث ہی پیدا ہوئے ہیں۔

 

 

Facebook Comments

ممتاز علی بخاری
موصوف جامعہ کشمیر سے ارضیات میں ایم فل کر چکے ہیں۔ ادب سے خاصا شغف رکھتے ہیں۔ عرصہ دس سال سےطنز و مزاح، افسانہ نگاری اور کالم نگاری کرتےہیں۔ طنز و مزاح پر مشتمل کتاب خیالی پلاؤ جلد ہی شائع ہونے جا رہی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کی سازش کو بے نقاب کرتی ایک تحقیقاتی کتاب" عصمت رسول پر حملے" شائع ہو چکی ہے۔ بچوں کے ادب سے بھی وابستہ رہے ہیں ۔ مختلف اوقات میں بچوں کے دو مجلے سحر اور چراغ بھی ان کے زیر ادارت شائع ہوئےہیں۔ ایک آن لائن میگزین رنگ برنگ کےبھی چیف ایڈیٹر رہے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جواب آں غزل چوہدری نعیم احمد باجوہ-احمدیوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے کس نے روکا؟۔۔۔۔۔ ممتاز علی بخاری

  1. کیا احمدیوں کے بنیادی حقوق کی بات کرنا جرم ہے ۔؟
    چوہدری نعیم احمدباجوہ
    حالیہ انتخابات سے اصولوں کی بنا پر لا تعلق رہنے والی جماعت احمدیہ کے حوالے سے میرا ایک مضمون ’’ احمدیوں کو الیکشن میں حصہ لینے سے کس نے روکا ‘‘۔؟ شائع ہو اتو جناب ممتاز علی بخاری صاحب کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ ایک بنیادی انسانی حقوق سے محروم اقلیت کے حق میں کوئی معمولی سی آواز بھی کیوں اٹھائی گئی ہے ۔ چنانچہ انہوں نے موضوع سے ہٹ کر خواہ مخواہ جذبات میں آکر ایسی بے سرو پا باتیں کی ہیں جن کی ضرورت تھی نہ موضوع سے تعلق ۔الزامات لگانا سب سے آسان کام ہے ۔ تاہم ایک معقول پڑھے لکھے صاحب عقل و دانش کا طرہ امتیاز یہ نہیں ہونا چاہئے۔
    میں نے اپنے مضمون میں احمدیوں کے عقائد کی بات کی ہی نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ احمدیوں کو جنرل الیکشن سے دور رکھنے کے لئے ارادۃً قوانین میں ایسی تبدیلیاں کی گئیں ہیں جن کی وجہ سے وہ ووٹ کاحق استعمال نہیں کر سکتے ۔ اور یہ بات شہریت کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے ، پاکستانی شہریت اور عمر اٹھارہ سال ہونا قرار دی گئی ہے ۔اسی اصل کے تحت مخلوط انتخابات منعقد ہوئے ہیں۔ تمام پاکستانیوں کے لئے ایک ہی انتخابی فہرست بنائی گئی خواہ ان کا مذہب اور عقیدہ کچھ بھی ہو۔ لیکن احمدیوں کو جمہوری عمل سے دور رکھنے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کے لئے ارادی کوشش کے تحت ان کی انتخابی فہرست الگ بنائی گئی ہے۔ ان وجوہات کو سمجھنے کے لئے کوئی ارسطو ہونا ضروری نہیں۔معاملہ صاف ہے کہ احمدیوں کا بعض انتخابی حلقوں میں ووٹ اس قدر ہے کہ امیدوار وہی منتخب ہو گا جس کو وہ چاہیں گے۔
    احمدیوں کا انتخابات سے بائیکاٹ اصولوں کی بناپر ہے۔ مطالبہ صاف ہے کہ قائد اعظم کے اصولوں کی بنیاد پر بحیثیت پاکستانی تما م شہری برابر اور مخلوط طرز انتخابات ہوں ۔ ا س کا ثبوت یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ 1974 میں جماعت احمدیہ کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جا چکا تھا، جسے بلا شبہ اہل علم و دانش بار ہا ایک سیاسی فیصلہ کہ چکے ہیں، 1977 میں مخلوط طرز انتخابات میں پھر پور حصہ لیا تھا ۔یعنی احمدیوں نے صرف اس بنا پر کہ انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ہے کبھی انتخابات سے بائیکاٹ نہیں کیا۔
    جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو بات اظہر من الشمس ہے ۔ اگر کوئی شخص خود کو خدا اور اس کے رسول ﷺ کی طرف منسوب کرتا ہے تو کرہ ارض پر یہ حق بہر حال کسی کو نہیں دیا گیا کہ اسے اللہ اور رسول ﷺ سے کھینچ کر الگ کر سکے ۔ لیکن ارض پاک پریہ حق زبردستی علماء کرام اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ زمانہ نبوی ﷺ میں غلیظ ترین مغلظات بکنے والا منافقین کا سردار عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ لیکن رحمۃ اللعالمین ﷺ فداہ ابی و امی نے اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی اور اس کے کفن کے لئے اپنی ردا مبارک بھی عطا کی ۔ حقیقت تو یہی ہے تاہم ہٹ دھرمی کا کوئی علاج تاحال دریافت نہیں ہوا۔
    جناب بخاری صاحب نے بنا کسی ثبوت کے الزام لگایا ہے کہ بانی جماعت احمدیہ نے سید ولد آدم رسول عربی ﷺ فدا ہ ابی و امی کو برا بھلا کہا ہے۔ گویا اس بنا پر پاکستان کے مسلمانوں کو اجازت مل گئی کہ ان کے بنیادی حقوق سلب کرلیں او ر انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا دیں ۔ لیکن جس رحمۃ اللعالمین ﷺ کی مبارک سنت کے نام پر یہ گھناؤناکھیل جاری ہے وہ تو ہر گز ایسی نہیں ۔ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو کیا حقوق دینے ہیں کے حوالے سے فتح مکہ پر آپ ﷺ کے اخلاق اور کردار رہتی دنیا تک نمونہ ہیں۔آپ ﷺ نے عکرمہ بن ابو جہل اور اسی قبیل کے دوسرے لوگوں کو اسلام قبول کئے بغیر، اپنے مشرکانہ عقائد پر قائم رہتے ہوئے تما م تر حقوق کے ساتھ مکہ میں رہنے کی اجازت عطا فرمائی تھی ۔ انہوں نے اسلام ان اخلاق کریمانہ کو دیکھ کر قبول کیا ۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک وزیر ٹی وی پر آکر اعلان کرتا ہے ۔اورخدا اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے دی گئی امان کوبھی چیلنج کر جاتا ہے۔ ’’۔۔۔میں تو ان( احمدیوں ) کو آئین کے مطابق جو غیر مسلم کے حقوق ہیں وہ تک دینے کو تیار نہیں ہوں ۔‘‘
    ( پروگرام پوائنٹ آف ویو ۲۲ جنوری 2018 )
    ایک طرف نبی رحمت ﷺ کی سنت مبارکہ و مطہرہ ہے اورایک طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اہل حل و عقد او ر ’’علماء کرام ‘‘ کا غیر مسلم اقلیت قرار دئیے گئے احمدیوں سے سلوک۔ صاحبان فہم و فراست کے لئے اس کی وجوہ سمجھنا مشکل نہیں۔اہل علم اس کی حقیقت خوب سمجھتے ہیں۔
    ؓ بخاری صاحب ایک صاحب علم کو عقل و دانش کی ہی بات کرنا چاہئے۔ اور عوام کو گمراہ کرنے کا ذمہ لینے سے قبل کم از کم زمینی حقائق پر ضرور نظر ڈالنی چاہئے۔ آپ نے لکھا ہے کہ ’ ’ قادیانی جہاں چاہیں ا س ملک میں رہیں ، جہاں چاہیں اپنی عبادات کریں ۔انہیں اس کی مکمل آزادی حاصل ہے‘‘۔ کاش حقائق ایسے ہی ہوتے ۔ احمدیوں کی کون سی مسجد یا بقول شما عبادت گاہ محفوظ ہے ۔ انہیں کہاں اپنے پروگرام منعقد کرنے کی اجازت ہے ۔ 1984 سے ان کے اپنے مرکز میں اجتماع منعقد کرنے پر پابندی ہے ۔علمی اور ورزشی سرگرمیاں اپنے ہی مرکز میں کرنے پر قدغن ہے۔ کس میڈیا پر احمدیوں کا موقف آخری بار کب آپ نے سماعت فرمایا سنا تھا۔؟ احمدیوں کو عبادت کی مکمل آزادی کی صرف ایک تازہ مثال پیش ہے جو اسی رمضان المبارک میں سیالکوٹ میں احمدیوں کی سو سالہ پرانی مسجد پر مسلمانوں نے’’ جہاد ‘‘کر کے اسے گرا کر قائم کی ہے ۔ شاید ایک اسلامی مملکت میں ایسے ہی قائم کئے جاتے ہیں غیر مسلموں ذمیوں اور کافروں کے حقوق۔
    میرے مضمون میں بات احمدی عقائد کی نہیں تھی صرف ان کے بنیادی انسانی حقوق کی تھی۔ لیکن آپ نے اصل موضوع سے ہٹ کر احمدیوں پر ایک گھناؤناالزام لگایا ہے ۔ تو کیا واقعی احمدی ختم الرسل ﷺ کے منکر ہیں ۔ اس معاملے کی تحقیق ہندوستان کے مشہور ادیب، فلسفی دانشور اور مورخ جناب علامہ نیاز فتحپوری صاحب 1884-1966) ( ایڈیٹر رسالہ’’ نگار ‘‘ لکھنو نے بھی کی۔ انہیں کی زبانی ملاحظہ فرمالیں۔ موصوف لکھتے ہیں :
    ’’ جب میں نے یہ جاننا چاہا کہ پاکستان کے غازیان احرارکیوں احمدیوں کو کافر کہتے ہیں تو تحقیق و مطالعہ سے معلوم ہوا کہ ان کا سب سے بڑا الزام احمدیوں پر یہ ہے کہ وہ رسول اللہ کو خاتم الرسل تسلیم نہیں کرتے۔ یہ جان کر میری حیرت کی انتہاء نہ رہی ۔۔۔اس سلسلے میں مجھے احمدی جماعت کے لٹریچر دیکھنے کا شوق پیدا ہوا اور میں نے جب میرزا صاحب کی تصانیف کامطالعہ شروع کیا تو میں اور زیادہ حیران ہواکیونکہ مجھے اان کی کوئی ایسی تحریر نہیں ملی جس سے اس الزام کی تصدیق ہو سکتی بلکہ بر خلاف اس کے میں نے ان کو ختم رسالت کا اقرار کرنے والا اور صحیح معنٰے میں عاشق رسول پایا‘‘ رسالہ نگار لکھنو ماہ نومبر1961 ص ۲،۳ بحوالہ رسالہ الفرقان دسمبر 1961 ص 6 )
    اگر ہم علامہ نیاز فتح پوری صاحب کے تتبع میں احمدیہ لٹریچر کا معمولی سا جائزہ بھی لیں تو عشق رسول ﷺ میں سرشار بے شمارتحریرات سامنے آتی جاتی ہیں ۔ صرف بطور نمونہ بانی جماعت احمدیہ اپنی تحریرات میں سے چند ایک پیش ہیں۔آپ لکھتے ہیں :
    ’’ ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں ۔ یعنی وہی نبیوں کا سردار ۔ رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتبی ٰ ﷺہے ۔ جس کے زیرسایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزاروں برس تک نہیں مل سکتی تھی۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ ص ۸۲ سراج منیر ص ۷۲)
    اپنے عقائد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
    ’’ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ۔ ہمارا اعتقاد۔۔۔ یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا ۔‘‘ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ ص ۱۶۹)
    اپنے منظوم کلام میں عشق رسول ﷺ پر لکھتے ہیں ۔
    بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
    خدا تعالیٰ کے بعد میں محمد ﷺ کے عشق میں دیوانہ ہو چکا ہوں اگر اس عشق کی دیوانگی کا نام کوئی کفر رکھتا ہے تو خدا کی قسم میں سب سے بڑا کافر ہوں ۔کیونکہ میں آپ ﷺ سے شدید محبت رکھتا ہوں ۔
    جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچہ آل محمد است
    میری جان اور دل محمد ﷺ کے جمال پر فد اہے اور میری خاک نبی اکرم ﷺ کی آل کے کوچہ پر قربان ہے ۔
    ربط ہے جان محمد سے میری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے
    وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نو ر سارا نام اس کا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے ۔
    بخاری صاحب اگر واقعی آپ صاحب علم و دانش اور محقق کی طرز پرکام کرنا چاہتے ہیں تو از راہ کرم اصل مآخذ تک رسائی حاصل کیجئے ۔ صرف احمدیہ مخالف لٹریچر پڑھ کر ’’ میں نے اس حوالے سے بہت پڑھا ہے ‘‘ کا دعویٰ زیب نہیں دیتا۔ آپ کی سہولت کے لئے ایک لنک یہ بھی ہے۔ https://www.alislam.org/urdu/
    پس تحریر: کسی کے متعلق اپنی مرضی کی رائے رکھنے کا حق ہر ایک کو ہے۔ لیکن اس رائے کے موافق مد مقابل کو مجبور کرنا کہ وہ بھی اپنے آپ کو ویسا سمجھے سوائے ظلم کے اور کچھ نہیں۔ آپ کا حق ہے کہ کسی کو چور سمجھیں لیکن اپنی رائے کے موافق اسے چوری پر مجبور کرنا ظلم اور زیادتی ہے ۔ میرے نزدیک احمدیوں کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ اسی زیادتی کے خلاف جب معاشرے میں اکا دکا کمزور آواز اٹھتی ہے تو ’’ علماء کرام ‘ ‘ اسے جرم گردانتے ہیں ۔ صاحب علم و دانش کو اس سے پرہیز چاہئے۔

Leave a Reply to Ch. Naeem Ahmad Bajwa Cancel reply