اکیسویں صد ی کے دوسرے دَہے کا یہ آٹھواں برس ہے۔
سہانی، شگفتہ اور عمدہ نثر لکھنے والے،تھوڑوں سے بھی تھوڑے رہ گئے ہیں۔فکشنی نثر میں شگفتگی اور انفرادیت کی خوشبوئیں بھرنے والے کم یاب ہیں۔زبان ِاردو، جس نے آزاد، مرزا بیگ،مولوی نذیر، غالب، سرشار،حسن نظامی، راشد الخیری، ملا واحدی، شاہد احمد دہلوی، صدق جائسی،اسلم فرخی اور مختار مسعود جیسوں کے قلموں کے بہشتی ذائقے اپنے اندر اتارے تھے، اب روکھی سوکھی، کڑوی کسیلی کھانے پہ مجبور نظر آتی ہے۔اسباب اس کے کئی ایک، جن میں چند یہ ہیں:
ہمارے زیادہ لکھاری اپنے زرخیز و گہر بار ماضی سے بے خبر،روایت سے علاقہ توڑے ہوئے ہیں۔ان کی اکثریت،متذکرہ بالا نثر کے بادشاہوں کے مستند لہجوں کو اس نئے نکور زمانے میں متروک گرداننے پہ شرمندہ خاطر ہونے کے بجائے ڈھٹائی جھلکاتی ہے۔کچھ تو اس زبان پہ طعن کا نمک چھڑکتے ہیں۔ باقی، مقدس شے سمجھ کر اسے خرید کر بھی پڑا رہنے دیتے ہیں۔ فکشن نگاروں کا احوال یوں ہے کہ وہ ’صرف انگریزی پڑھتے ہیں (اور اس پہ نازاں و فرحاں بھی ہیں) اور اردو لکھتے ہیں۔اور مسلسل لکھتے جاتے ہیں، دم بھر سستائے بنا،ٹھہرکے اک آنکھ پیچھے کو دیکھے بنا۔یوں،اِن جھٹلانے والوں کی نثر کا حال بڑا پتلا ہے۔اپنے اس نظریے کی پیروی میں کہ”خیال اہم ہے زبان سے”__وہ حرفوں کے نامناسب استعمال، لفظوں، جملوں کی الجھی ہوی ساختوں کی تشکیل،اور زبان کے جمالیاتی رکھ رکھاؤ کے غیاب جیسے آزاروں میں مبتلا ہیں۔ان کی لکھت، تازگی اور رچاوٹ سے محروم ہے۔ان کے جملوں کی بنَت میں دلچسپی کا عنصر، با یں ہمہ اسباب، مفقود ہے، معدوم ہے۔ ِاملاکی اغلاط، بیان کی خرابیاں، انشائیہ پردازی کے قواعد کے نقائص، اس سے سوا ہیں۔
جب یہ سب ہے تو حواس میں انگبیں ذائقے لاتی،معصوم بچوں کی مثال قلانچیں بھرتی، نرم گرم نثر پڑھنے والے قاری کی ڈھارس، کون امید بندھائے۔ایسے میں ایک آپشن یہی بچتی ہے کہ اُن قدیمی اساتذہ کو بار بار پڑھا جائے اور ساتھ ساتھ موجودہ دور کے بزرگ ادیب جناب محمد سلیم الرحمان کی عمدہ تر افسانی نثر اور ترجمہ و تبصرہ کی نثر کو پڑھا جائے، سر دھنا جائے۔
تو پیارو! بڑی مشکل آن پڑی ہے۔ اکیسویں صدی میں تازہ کار و پختہ کار، خزاں رسیدہ پیڑ کے پتوں جتنے ہیں۔ایسے میں کوئی نیا، جداگانہ، اور دلچسپ لکھت والا مصنف دکھائی پڑتا ہے تو سر خوشی کا ٹھکانہ کوئی نئیں رہتا۔اس ساری متلازمہ تمہید کے بعد، اب ایک نام اپنے گوش گزاریے”محمد اقبال دیوان”۔

کراچی شہر کے بھیدوں بھرے سمند ر کے قرب میں بسنے والے یہ صاحب، سول سرونٹی سے فارغ ہوچک کر اکیسویں صدی کے پہلے دَہے کے اختتام پہ قلم بدست ہوتے ہیں،لکھنا آغاز ہوتا ہے، کتاب بنتی ہے، چھپتی ہے اور ساری ادبی فضا پہ چھا جاتی ہے۔
یہ کتا ب ہے۔۔ ”جسے رات لے اڑی ہوا__گزرے وقتوں کے نئے قصے“۔
دو ہزار دس کے اوائل میں چھپنے والی جادوئی نثر والی کتاب کا چھے مہینوں میں پہلا ایڈیشن تمام ہوتا ہے، جولائی میں دوجا نکلتا ہے۔ اگلے ڈیڑھ برس میں یہ بھی ختم،تیجا ایڈیشن، تیس اپریل دو ہزار بارہ کی سہانی شام میں چاند کی طرح پھر آچمکتا ہے۔ اس دوران میں، جنابِ دیوانؔ کی دوسری تصنیف بھی فروری دو ہزار گیارہ میں چھپتی ہے، نام جس کا ”وہ ورَق ہے دل کی کتاب کا“رکھا جاتا ہے۔ یہ کتاب بھی کراچی سے خیبر تک پڑھی، سراہی، تنقیدی جاتی ہے۔ ادبی و علمی احباب، کتاب بینی کا جنھیں لپکا ہے، منفرد لکھتیں پڑھنا جن کی کمزوری ہے، انگلیاں منہ میں دباتے ہیں، یہ کون بشر ہے، کیسے کیسے حیران و ششدر کیے جاتا ہے۔ یہ کہاں پایا جاتا ہے۔ ڈھونڈ ابھی نامکمل ہے کہ دو ہزار پندرہ کی ایک جھلملاتی صبح، یہ خبر ملتی ہے کہ محمد اقبال دیوان نے ”پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ“ نامی افسانوی کتاب لکھ ماری ہے۔اللہ اللہ تیرے بندے!چار کہانیاں: طویل، مختصر، طویل تر، طویل ترین_ اس کتاب میں جگہ پاتی ہیں۔ متلاشی کی بے چینی بڑھتی ہے، دیوان ؔ کو الف تایے پڑھا جائے۔ پھرتجسس بھری کوشش دریافت کرتی ہے کہ جناب کے دل ربا افسانے مستند و موقر ادبی مجلوں میں وسیع و عریض رقبے پاتے ہے۔اس کے علاوہ مصنف، آن لائن بھی کالمی تحریروں سے سحرکاری کرتے ہیں۔
چنانچہ اس نئے نکور،الگ اسلوب و بیان والے لکھاری کی جملہ لکھتوں میں دریافت شدہ محاسن و نقائص پر تین باتیں یوں لکھی جاتی ہیں:
پہلی بات:
اقبال دیوان کی لکھت خواندنی ہے، دل چسپ ہے، رچاوٹ والی ہے۔ وجہ اس کی یہ دِکھتی ہے کہ وہ فن پارے کی لسانی جمالیات کو اس کے موضوع یا خیال پر افضل مانتے ہیں، اہم گردانتے ہیں۔ انھیں جو کہنا ہے، پورے اعتماد بھرے دبدبے سے توکہتے ہی ہیں، جس طرح داری و ہنر مندی سے کہنا ہے،جملوں کی کڑھائی جن رنگوں کے حرفوں، لفظوں، فقروں سے جاذبِ نظر و ذہن بنانی ہے، اس باریک عمل سے بھی ہمہ دم با خبر رہتے ہیں۔ وہ خوخے ساراماگوکی مثال طویل جملہ بھی، جو کبھی مختصر پیرے کے جتنا بھی بن جاتا ہے، چابک دستی سے یوں تصویر کرتے ہیں کہ قاری بہ یک جھپک، سانس لیے بنا،سارا پڑھ جاتا ہے، او ر اس کے ختم ہونے پہ شکر کا کلمہ پڑھنے کے بجائے مسکرا دیتا ہے۔سبب؟ یہی کہ طویل جملے میں ایسی روانی تھی، لفظوں کا ایسا باکمال چناؤ تھا، سادگی و پرکاری اس طور تھی کہ طوالت پیچھے رہ گئی، جمالیاتی حظ آگے۔ ’پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ‘ میں سے ننھی سی مثال ملاحظہ ہو:
“اس کے آبائی قصبے عادل آباد بارش بہت ہوتی تھی اور وہاں پھول بھی انواع و اقسام کے ہوتے تھے مگر بارہا پوچھنے پر بھی اس نے اس بیل کا نام اسے نہیں بتایا، سو،ماہم کو شک ہے کہ شاید وہ بھانپ گیا تھا کہ اس ایک بیل کا نام پوچھنے سے کوئی ایسی یاد وابستہ ہے جس سے ماہم اس طرح چمٹ کر رہنا چاہتی ہے جیسے وہ بیل دیوار سے چمٹ کر اوپر چڑھ جاتی ہے، اسے پیار سے گلے لگا کر تھامے رہتی ہے، اسے دھوپ سے بچائے رکھتی ہے۔”
ایسی خوبیء طوالت کے حامل جملے اس کتاب کی ہر کہانی کے کسی کسی صفحے پہ بولتے اور مسکراتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور مختصر جملے؟ ان کی مٹھاس تو انھیں پڑھنے کے دو دو صفحے بعد تک بھی آنکھ،منہ اور ذہن میں گھلی رہتی ہے۔ یہ چھوٹے جملے جوامع الکلام ہیں۔ کئی ایک اقوالِ زریں کے درجوں پہ فائز ہیں، حسنِ معانی سے تو مالا مال ہیں ہی۔
چند مثالیں دیکھیے۔۔۔۔
٭ یادوں اور خوابوں کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہوتا۔(پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ۔ ص۲۵
٭عورت کی دنیا، آسائش،زیبائش اور possession کی دنیا ہے۔(وہ جو مایا تھی۔)
٭اقتدار ہو اور نخرہ نہ ہو، تو طاقت کا کیا مزہ۔ (وہ جو مایا تھی۔ص۸۵۲)
٭کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے ہارنا آپ کو برا نہیں لگتا۔ (رات بھی نیند بھی، کہانی بھی)
٭مردو ں کو لڑکی چھوٹی عمر کی، شراب بڑی عمر کی چاہیے ہوتی ہے(ایضاََ)
٭واصفہ کی زندگی میں وہ چائے میں چینی کی طرح گھل گیا
٭رات واصفہ اس کے لیے ایک لہلاتی کھیتی بنی ہوئی تھی۔

یوں،ہمارے کہانی کار کی حسن کاری کا عمل دو سمتی ہے:جملہ سازی کے دوران میں الفاظ کا موزوں تر چناؤ ، ان کی خوش ترتیبی اور ان دونوں کی معانی کے ساتھ تطبیق کے عمل سے ابلاغ کرنا اور نئی،غیر مانوس تشبیہوں اور مثالوں سے ا َن کہی کو کھولنا کہ قاری بھٹکے نہ چونکے۔پھر ایک تیسری سمت بھی ہے جو راقم کے نزدیک اقبال دیوان کے فن ہی سے خاص ہے کہ کسی اور عصری فکشن نگار کو ایسی توفیق مل سکی۔اور وہ ہے نثر میں تلازمہ کاری۔ جی ہاں، ہم شاعری میں خصوصاََ غزل کے شعر کے دونوں مصرعوں میں تلازمہ کواہم، بلکہ جزو ِ لاینفک مانتے آئے ہیں کہ جہاں شاعر سے تلازمہ میں ڈھیلا پن پیدا ہوا، وہیں وہ شعر پنکچر ہوا۔ مگر نثر میں تلازمہ، وہ بھی فکشنی نثر میں، کسی اچنبھے سے کم نہ ہیں۔
جناب دیوان یوں کرتے ہیں کہ اپنے افسانے میں ایک کلیدی کہانی لاتے ہیں، پھر الف لیلوی قصے چھیڑ لیتے ہیں۔ کہیں نا کہیں کلیدی موجو د ہے، مگر ایک واقعہ، پھر دوجا، پھر تیجا، اور چل سو چل۔پھر چونکاتے ہوئے، اطمینان دلاتے ہوے کلیدی کہانی پہ فوکس باندھ لیتے ہیں۔ الف لیلوی قصوں میں خود کارانہ سا تلازمہ چپکے سے در آتا ہے۔کہانی پوری ہوتی ہے، قاری اپنی بے چینی میں چین پاتا ہے۔
دوسری بات:
جناب کی جملہ لکھتوں میں شگفتگی کا مسلسل وجود میں رہنا اس لیے بھی ممکن ہوا ہے کہ ان کے پاس باتیں بڑی ہیں، کہانیاں چوکھی ہیں،واقعے طرح طرح کے ہیں، قصے اندر و باہر کے ہیں، مسئلے ذاتی نوع سے لے کر علاقائی، صوبائی، ملکی، غیر ملکی، اِس سیارے سے اُن سیاروں تک کے ہیں، جو پہنچ سے عام فکشن نگار کی دور ہیں۔
ان کے دماغ کے سارے خلیے فعال رہتے ہیں، دم بہ دم۔ وہ جب چاہتے ہیں، مٹھی میں قید ایک واقعہ کا جگنو آزاد کرتے ہیں۔ قاری جگنو کے پیچھے بھاگتا جاتا ہے، اور جگنو باغوں، بازاروں، دکانوں، ہوٹل کے نیم تاریک کمروں، ریستورانوں، محلوں، اور ہالوں کے اندر باہر تیرتا،اڑتا، لشکارے مارتا ہے،پر قاری بھاگتے بھاگتے تھک کر ہانپتا نہیں،خوشی میں بھیگتا ہے، تسلی پاتا ہے، تجسس میں گرمی الگ لاتا ہے۔ اس نئے پیدا شدہ تجسس کی سیری کے لیے، لکھاری مٹھی کھول کر ایک اور جگنو آزاد کرتا ہے۔ قاری پھر بھاگ پڑتا ہے۔ یہ عمل کہانی کے ختم ہونے کے بعد زیادہ شدت سے جاری رہتا ہے، یعنی تجسس کی سیری کے لیے بھاگنے کا عمل۔اب جاننا یہ ہے کہ یہ موضوع کیسے کیسے ہیں، کن مشاہدوں سے پھوٹے ہوئے لگتے ہیں، کن دیاروں سے آئے ہوئے ہیں۔تو پیارو!یہاں ضرورت ہے پھر سے وہ پہلی سی بات دہرانے کی۔
اقبال دیوان، بڑا خاص لکھاری ہے۔ دلیل ا س دعوی کی یہ ہے:
کہانی لکھنے سے پہلے بہر صورت کہانی کار کے دماغ میں کہانی کا خیال اور اس سے متعلق کسی نا کسی شکل میں، کچھ نا کچھ خام مواد موجود ہوتا ہے۔ کچھ کہانی کار مگر غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ شہر شہر، قریہ قریہ، گلی گلی گھومتے گھامتے، گردو پیش میں گری پڑی، سجی جمی چلتی پھرتی نو ع بہ نوع اشیاء، آتے جاتے، بیٹھے اٹھے انسانو ں کے ہجوم، جانوروں کے جتھوں،چھوٹی بڑی مخلوقات اور وہ سب،جو غیر ِ فن کا کو سجھائی نہیں دے سکتا، کو دیکھتے ہیں، سونگھتے ہیں، چھوتے ہیں اور انھیں ذہن کے کالڈرون میں پکاتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ کسی منز ل پہ پہنچ جاتے ہیں۔ اور غیر معمولی فن کا ر کی منزل وہی ٹھہرتی ہے جہاں وہ ذہن کی کڑاہی میں پکنے والے کہانی کے خیال کو کسی حد تک پختہ پاکر، حوالہء قرطاس کرنے کا موقع پا لیتا ہے۔
اب جب وہ لکھتا ہے تو کلیدی فوکس تو اس کا وہی مرکزی خیال ہوتا ہے جو بیرون کے مشاہدے سے اس کے پختہ ذہن نے چلتے چلتے اچک لیا تھا، مگر اس کی آنکھوں نے اسے جو رنگ رنگ کے مناظرِ دیگر دکھائے تھے، اس کی حسِ شامہ نے اسے بہت سی خوش بوئیں، اور بد بوئیں سونگھائی تھیں، اس کے ہاتھوں نے راہ گزر پہ کئی چیزوں کو مس کیا تھا، وہ سب کچھ بھلا کس طرح اس کے قلم میں سے پھوٹنے سے رہ سکتا ہے۔ لہذا، اصل واقعہ یا نکتہ پہ ساری توجہ کے ساتھ ساتھ اس کے متعلقات کا بھی کہیں کہیں ذکر مذکور، منظور ہو، اور ہو کسی عکس، سائے ، یا غیر مرئی خوشبو بھری ہوا کی طرح۔ اللہ اللہ!! ایسا ہو توعجب جہانِ کہانی وجود پائے، جاں کو قرار آئے۔ اور اقبال دیوان ایسا کرتے ہیں۔
وہ بیوروکریٹ رہے، انھیں ’ہر جا جہانِ دیگر‘ دیکھنے کے ہزاروں مواقع ملے۔ ان مواقع کے بطون سے انھیں ان گنت قصے ملے۔ انھی قصوں کو انھوں نے اپنے قوتِ تخیل کی برکات سے اپنے فکشن میں لا پرویا۔ ان قصوں کی رینج بڑی وسعت و عرض والی ہے۔ یہاں دل فریب حسیناؤں کے حسنِ بلا خیز کی چھیڑ خانیوں کے آگے ڈ ھیر ہوتے تعلیم یافتہ ہنر مندوں کے احوال ہیں۔اونچے عہدوں پر متمکن نیچے لوگوں کے سوانحی خاکے ہیں۔بظاہر عشقِ بے قابو میں پاگل، بباطن اپنی ذات کے اسیروں کی بپتائیں ہیں۔اوڈیسی کی طرح جا بہ جا پھرنے پھرانے کے رسیا، زندگی کے ان تھک مسافروں کے سفری فسانے ہیں۔چال باز، دغا باز، جنس تلذزکے پجاری، پیشہ وروں کی مجبوریوں کی کتھائیں ہیں۔یہیں پہ بس نہیں، مصنف کی ماتحتی اور قرب و بعد میں بسنے والے ٹھگ باز افسران،لڑاکا دیانتدار، عجیب المزاج روحوں کا بیان بھی فکشن میں موضوع بن بن کر آتا ہے، اور پورے زور و شور، کسی لگی لپٹی کے بنا جگہ پاتا ہے۔ مصنف کو چوں کہ ظاہر کی آنکھ سے دیکھنے کا بھی چسکا ہے اور دیدہ ء دل سے مشاہدے کا بھی لپکا ہے تویہ تمامی موضوعات ظاہر و باطن کے متوازن تماشوں سے نمو پاتے ہیں۔ یوں یہ بات پورے وثوق سے فرمائی جا سکتی ہے کہ یہ موضوعات اَن چھوئے ہیں۔
ملٹن کی زبان میں unattempted yet in prose or rhyme. (شعر و نثر میں تاحال اَن لکھے)۔
ہنری جیمز نے اپنے مشہورِ عالم مضمون ’فکشن کا فن‘ میں یہ لکھا ہے۔۔”ادب کو یا تو تعلیم دِہ ہونا چاہیے یا پھر تفریح بخش“۔ سبحان اللہ، اقبال دیوان بہت خوش بخت ادیب ہیں کہ ان کے فکشن میں یہ دونوں خوبیاں خودکارانہ طور سے درآئی ہیں۔ کیٹس کے ہم عقیدہ، اور آسکر وائلڈ کے ہم عمل ہونے کی ہر دو بناؤں پر، دیوانؔ، ایک طرف جمالیات کو تحریر کی جان گردانتے ہیں تو دوسری جانب، جیفری چاسر اور جوناتھن سوِفٹ والے انسان دوست ادب پر بھی قلب و لسان سے ایمان لاتے ہیں۔ وہ ادب کی تمام تر ”پسندوں“ پہ پورا اترتے ہیں۔ وہ حقیقت پسند بھی ہیں،رومان پسند بھی، روایت پسند بھی ہیں، ترقی پسند بھی۔ادب پسند بھی ہیں، زندگی پسند بھی، فن پسند بھی ہیں، خیال پسند بھی۔ جو نہیں تو وہ شر پسند نہیں ہیں۔ایک جملے میں کہوں تو ان کے فکشن کا فن کسی بھی سابقہ تعریف پہ فٹ نہیں بیٹھتا، میں نے کہا تھا نا کہ وہ اَن لکھا لکھتے ہیں۔
پیارو! اب آتے ہیں تیسر ی اور آخری بات کی جانب۔
اور یہ بات بڑی جاں گسل ہے۔مجھ ایسے شعر پسندوں کا دل دہلا دینے والی بات۔جناب ِ دیوان، یہ بات آپ کو سنانے کی ہے۔ذرا کان ادھر لائیے۔۔ آپ دلچسپ و خواندنی لکھتے ہیں۔ دل کو موہ لیتے ہیں۔ کبھی میٹھے تو کبھی کرارے نثر پارے وجو د میں لاتے ہیں۔مشاہدہ آپ کا با کمال، مطالعہ آپ کا دریا ؤں سا گہرا، جس میں قاری ڈوب ڈوب جائے، سطح پہ آنے کا نام نہ لے لیکن۔۔(ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے، طویل جملوں کے بعد ’لیکن‘ کا آدھمکنا، اکثر دل شکن ہوتا ہے) جب آپ شاعری کے اوزان سے بے خبری کے مبتلا ہیں، جب اشعار آپ سے ناراض ہیں، اور اکثر نافرمانی پہ اتر آتے ہیں اور بار ہا آواز دینے پر بھی یاد کی سطح پہ نہیں آتے۔ شاعر الگ آپ سے نالاں ہیں کہ شعر کسی کا ہے اور اس کے نیچے نام کسی اور کا بیٹھا بین بجاتا ہے۔تو حضورِ ما، سنگ بر دل باندھ کر شعر کو تحریر سے اٹھا دینے کا کلیجہ دکھائیے۔یا قرب و جوا ر میں بھٹکنے والے کسی سیانے عروضیے، یا شعر پسند و شعر فہم سے مشاورت فرمایے۔ کچھ کیجیے، جناب ِ دیوان کہ ہم ایسے سخن پسندوں کا، الف بے جنھیں عروض کی آتی ہے، اور ’رفت،گیا‘ اور ’بو، تھا‘ کے برابر شعر فہمی بھی، اس وقت جی کسیلا ہوجاتا ہے جب شگفتہ نثر کے آغاز، درمیان، یا اخیر میں کوئی نامکمل یا ناساختہ شعر در آتا ہے۔معدہ کلبلا اٹھتا ہے حضور، کچھ کیجیے۔آپ کی والہانہ انداز کی فکشن کی خیر، آپ کے عالم ،عالم سے اخذ کیے گئے تجربوں کی خیر۔آپ کی خوش نوائی کی خیر۔ آپ کی لکھت، لکھت کے قاریوں کی خیر!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں