فیس بک اور سیاسی شعور۔۔۔۔۔۔شاد مردانوی

اگر زندگی ایک لائبریری ہے تو فیس بک “طہارت خانے “کی دیوار ہے۔
اگر زندگی ایک بازار ہے تو فیس بک عصمتوں کی منڈی ہے ۔۔۔
اگر زندگی اجلے موتیوں کی مالا ہے تو فیس بک جوتوں کا ہار ہے ۔۔۔

اور اگر زندگی اچھے تجربات اور نظریات سکھاتا ایک درویش ہے تو فیس بک ان اچھے تجربات اور نظریات کا کھلواڑ کرتا ایک بدتمیز بچہ ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرا سیاسی شعور تھا نہیں ،ہے بھی نہیں۔۔۔
میں نے کتاب سے رشتہ جوڑا تو جہاں سیاسی بات آئی اس مصنف کو پڑھنا چھوڑ دیا ،اخباری کالموں میں بس اسی کالم کو پڑھتا جو سیاست پر نہ لکھتا ۔۔۔ ملک میں کس کی حکومت ہے مجھے کوئی غرض کبھی نہ رہی ۔ ایک زمانے تک بجٹ کا مطلب بس یہی سمجھتا رہا کہ بجٹ حکومتی سطح پر روزمرہ کی اشیاء مہنگی  کرنے کے عمل کا نام ہے ۔۔۔
حکومتوں کی باری بدلنے کے عمل کو آج بھی محض ملک لوٹنے کیلئے چند خاندانوں کے اتفاق رائے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا ۔۔۔
بایں مستوائے فکری یہاں فیس بک پر چند احباب جو مسلسل سیاست کو موضوع قلم بناتے رہے ہیں ان کے لکھے اور کچھ اپنے مطالعے سے چند جمہوری اساسی روایات کا شعور نصیب ہوا ۔۔یہی کہ ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں بر سر اقتدار آنے والی پارٹی کے حق قیادت کا احترام ضروری ہے یہ ملک کی سالمیت ، بہتر سے بہترین کی طرف جانے کے عمل اور فلاح مملکت کے لیے بنیادی بات ہے ۔ اگرچہ انتخابی عمل پر  آپ کو تحفظات ہوں اور اگرچہ آپ سمجھتے ہوں کہ انتخابات غیر شفاف تھے ۔
اگر آپ ایسا نہیں کریں گے بلکہ ضدی بچے کی طرح روڈ پر بیٹھ کر ایڑیاں رگڑیں گے تو سوائے اس کے کچھ حاصل نہ ہوگا کہ معیشت ، روزگار اور ملکی ساکھ داؤ پر لگے گی ۔۔۔
یہ بات یہاں کچھ لکھنے والوں سے سیکھی اور آج انہی کی دیواریں یہود کے دیوارِ گریہ اور شیعہ حضرات کے شامِ غریباں کا منظر پیش کررہی ہیں حالانکہ وہ یہودی نہیں ہیں نہ ہی ہم کسی کو یہودی ایجنٹ کہنا گوارا کرتے ہیں اور محرم الحرام میں بھی ابھی پچپن (۵۵) دن رہتے ہیں۔۔
کیا پچھلی حکومت نے دھاندلی نہیں کی تھی اور کیا تب آپ ہمیں یہ نہیں سکھاتے تھے کہ مدت پوری ہونے تک ملکی بقا کی خاطر نظام چلنے دیا جائے۔۔؟
ہمیں تو یہ بھی یاد ہے کہ آپ نے کہا تھا اگر عمران کی حکومت آئی تو ہم جمہوریت کے تسلسل کیلئے دھرنوں ، بائیکاٹ اور احتجاج کا ساتھ نہیں دیں گے ۔۔لیکن آپ کو کیا یاد دلانا ۔۔؟ آپ ٹھہرے سیاسی حیوان جن کے ہاں جھوٹ کو حکمت عملی کہا جاتا ہے۔۔۔
یاد آیا مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے کہیں پڑھا کہ جناب جو فرماتے ہیں کہ منتخب امیدوار بھی حلف نہ اٹھائیں اور احتجاج میں شریک ہوجائیں ،ان کے ایک بھگت نے لکھا یہ مولانا کی سیاسی بصیرت کی ایک بہترین مثال ہے وگرنہ وہ بھی ایسا نہیں چاہتے ۔۔سادہ لفظوں میں اس بات کو یوں پیش کیا جاسکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان ایک جھوٹا اور مکار انسان ہے جو مختلف مکر و فریب کے حیلے کرتا ہے۔۔لیکن جانے دیجیے صاحب کہ یہ تو بہترین سیاسی تدبر ٹھہرا آپ کے ہاں ۔۔۔۔
آپ نے عمران خان کی تقریر کے ہر جملے پر مستقل طنزیہ جملے اچھالنے کو اپنا فرض جانا آپ مذہب کو اپنے سیاسی نظریات کیلئے بہت خوبی سے استعمال کرنا جانتے ہیں جس عمران کو آپ یہودی ایجنٹ کہتے ہیں اسی عمران کی تقریر کو غیر جانب دار ہوکر سنا عمران اپنے بیانات میں ریاست مدینہ (علی صاحبہا الف الف سلام ) کا بکثرت ذکر کرتے ہیں ۔۔
اور اس نے اپنی پہلی تقریر میں وہ کردکھایا جو مدینہ والے (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دنیا کی حکمرانی کی تاریخ میں پہلی بار فرمایا تھا ۔۔
عمران نے وہی کہا جو میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وجوبی حکم نہ تھا ان کی سیرت کا ایک روشن نمونہ تھا جس کی اتباع واجب نہ تھی مستحسن تھی ۔۔۔
میرے سرکار علیہ السلام نے فتح مکہ کے بعد اپنے ہر بد خواہ کے لیے لا تثریب علیکم الیوم کا نعرہ بلند کیا تھا ۔۔۔
اگر تم میں دینی حمیت ہوتی تو عمران کی یہی بات تمہیں ڈبونے کو کافی ہوتی کہ اس نے واشگاف الفاظ میں اپنی نجی زندگی پر حملہ آور اور اپنے ہر مخالف کو معاف کرنے کا اعلان کردیا ۔۔۔
مجھے تمہارے سیاسی اور مذہبی لیڈروں میں یہ ظرف نظر نہیں آتا۔۔۔۔!

Facebook Comments

شاد مردانوی
خیال کے بھرے بھرے وجود پر جامہ لفظ کی چستی سے نالاں، اضطراری شعر گو

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply