• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • احمدیوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے کس نے روکا؟۔۔۔۔ چوہدری نعیم احمد باجوہ

احمدیوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے کس نے روکا؟۔۔۔۔ چوہدری نعیم احمد باجوہ

شہر بھر میں کوئی الیکشن مہم نہیں ہوئی۔ در و دیوار پر کوئی اشتہارات نہیں لگے۔ شہر کی سڑکوں کے کونوں پر جہازی ساز بورڈآویزاں نہیں ہوئے ۔ گلی محلوں میں کوئی کارنر میٹنگ نہیں ہوئی۔ الیکشن کے دن بھی یہاں معمولات زندگی جا ری رہے۔ نہ پولنگ نہ ہنگامہ ۔ الیکشن ڈیوٹی نہ سیکورٹی ڈیوٹی ۔ کیا یہاں کے لوگوں کو انتخابات سے کوئی مطلب نہیں۔ کیا یہ ملکی ترقی کے لئے اپنے شہری فرائض سے بے خبر ہیں ۔کیا یہ پاکستان کا حصہ نہیں۔ انتخابی امیدوار اپنے جھوٹے سچے وعدوں اور امیدوں کے ساتھ یہاں کیوں نہیں پہنچے ۔ کیا یہاں کوئی اپنے خواب بیچنے نہیں آتا۔ کیوں ؟ آئیے ان سوالات کا جواب اوریہاں کے حالات و واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔

یہ پاکستان کے ضلع چینوٹ کا ایک شہر ہے ۔1948 میں جماعت احمدیہ کے دوسرے راہنما نے اس کی بنیاد رکھی اور اس کا نام ربوہ رکھا ۔ یہ شہر تقسیم کے بعد احمدیوں کا ہیڈ کواٹر بنا۔ دسمبر 1998میں پنجاب اسمبلی کی ایک قرار داد کی بنیاد پر اس کا نام ’’نواں قادیان‘‘ رکھ دیا گیا ۔ دو ماہ بعد 1999 میں پنجاب اسمبلی نے ایک بار پھر نام تبدیل کیا اور نیا آفیشل نام ’’ چناب نگر ‘‘ ہو گیا ۔ اس دوران میں ’’چک ڈھگیاں ‘‘ ، ’’ مصطفی آباد ‘‘ اور ’’صادق آباد‘‘ کے ناموں کی باز گشت بھی سنائی دیتی رہی ۔ یہ الگ بات ہے کہ نام تبدیلی کے ان سارے مراحل میں مقامی آبادی کی رائے اور مرضی شامل نہیں تھی ۔ اور یہ بات تو بالکل بھی قابل ذکر نہیں کہ تبدیلی نام کی اس قرار داد کے موقع پر پنجاب اسمبلی کے 275 ارکان میں سے صرف 67 ہی حاضر تھے ۔

ستر ہزار کی آبادی کے اس شہر میں 97 فیصد آبادی احمدیہ جماعت سے تعلق رکھتی ہے ۔ جماعت احمدیہ 1977 کے بعد سے عام انتخابات کا بائیکاٹ کرتی چلی آرہی ہے ۔ ان کا موقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ قائد اعظم کے اصولوں کی بنیاد پر انتخابات مخلوط طرز پر ہوں ۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا وہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔
چناب نگر شہر کے مکین احمدیوں کے مطابق وہ ہمیشہ ملک سے وفادار رہے ہیں اور رہیں گے ۔ حب الوطنی ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لینے سے لے کر اس کی حفاظت کے لئے جانیں قربان کرنے تک ،پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان سے پاکستان کا پہلا نوبل پرائز لینے والے ڈاکٹر عبدالسلام تک ،ملک کی اقتصادی ، طبی ،علمی اور عملی خدمات کے ہر میدان میں ہمیشہ صف اول میں رہے ہیں اور رہیں گے۔ لیکن ا س مملکت خداد میں امتیازی سلوک مسلسل ہم سے جاری ہے ۔ امسال ہونے والے انتخابات میں یہ امتیازی سلوک ایک بار پھر دہرایا گیا ہے ا س لئے ہماری جماعت کی طرف سے یہ اعلان کر دیا گیا  ۔۔

“حالیہ انتخابات میں ووٹ کے اندراج کے لئے جاری کئے گئے فارم میں مذہب کا خانہ اورحلفیہ بیان شامل کیا گیا ہے ۔ اس فارم کے ذریعہ ووٹ بنانے کے لئے احمدیوں کو حضرت محمد ﷺ سے قطع تعلق کا اعلان کرنا پڑتا ہے ۔ جو کہ ایک احمدی سوچ بھی نہیں سکتا اور ایسا اعلان کسی طو ر بھی ممکن نہیں ۔نیز انتخابی قوانین کے تحت احمدی رائے دہندگان کی الگ فہرست مرتب کی گئی ہے ۔
اس وقت رائے دہند گان کی ایک فہرست میں مسلمان ، ہندو، مسیحی ، پارسی ، سکھ ، اور دیگر مذاہب کے افراد کے نام شامل ہیں جبکہ صرف احمدیوں کے لئے الگ ووٹر لسٹ بنائی گئی ہے ۔ اس پر قادیانی مرد / خواتین تحریر کیا گیا ہے ۔ محض مذہب کی تفریق کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے الگ فہرست کا اجراء ، احمدی پاکستانی شہریوں کو انتخابات سے الگ رکھنے اور ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کی ایک ارادی کوشش ہے ۔ یہ تفریق اور امتیاز بنیادی انسانی حقوق، حضرت قائداعظم کے فرمودات اور آئین پاکستان اور مخلوط طرز انتخابات کی روح کے سراسر خلاف ہے ۔ان حالات میں ان انتخابات میں حصہ لینا ہم احمدی اپنے عقیدے اور ایمان کے خلاف سمجھتے ہیں ۔اور اگر ان انتخابات میں بطور احمدی کوئی حصہ لیتا ہے تو وہ کسی صورت میں احمدیوں کا نمائندہ نہیں کہلا سکتا اور نہ ہی احمدی اسے تسلیم کریں گے۔ درج بالا صورت حال کے پیش نظر جماعت احمدیہ اجتجاجاً انتخابات سے لا تعلقی کا اعلان کرتی ہے۔ ‘‘

ہم نے 1977 میں آخری بار انتخابات میں حصہ لیا تھا ۔ حالانکہ اس سے قبل 1974 میں جماعت احمدیہ کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جا چکا تھا ۔ احمدیوں نے صرف اس بنیاد پر کہ انہیں اقلیت قرار دے دیا گیا ہے کبھی انتخابات سے بائیکاٹ نہیں کیا۔لیکن اس کے بعد سے آج تک عام انتخابات میں سوچی سمجھی سکیم کے تحت احمدیوں کی الگ انتخابی فہرست بنانا اور ارادی طور پر انہیں انتخابی عمل سے باہر کرنا قابل مذمت اور بنیادی شہری حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ یہ ہے اس شہر یعنی چناب نگر کی روئیداد۔پورے کا پورا شہر جو انتخابات میں لا تعلق رہا ۔جہاں انتخابی مہمات نہیں ہوئیں ۔ جہاں امیدواروں نے دورے نہیں کئے ۔ جہاں انہیں خواب بیچنے کا موقع نہیں ملا۔

وجاہت مسعود صاحب اپنے کالم ’’ تیشہ ء نظر ‘‘ روزنامہ جنگ 22 جولائی2018 میں لکھتے ہیں :
’’ ہم نے سولہ برس تک شہریوں کے بیچ بلا تفریق مساوات کے لئے مخلوط انتخابات کا مطالبہ زندہ رکھا ‘‘۔
یقیناًمخلوط طرز انتخابات قابل تحسین عمل ہے۔ لیکن یہ کیسے مخلوط انتخابات ہیں جہاں آپ جیتے جاگتے انسانوں کے ایک پورے گروہ کو ایک پوری جماعت کو الگ کر دیتے ہیں۔ ان مخلوط انتخابات میں ایک علیحدہ انتخابی فہرست بنا کر ہم احمدیوں کو قومی دھارے میں شامل ہونے سے روک ر ہے ہیں۔ قانون کی ضرورت کے لئے اقلیت قرار دئیے گئے احمدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرکے ان کے بنیادی شہری حقوق انہیں دینے سے قاصر ہیں ۔

میں نے تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان صاحب کی وکٹری تقریر سنی ۔ ا س میں انہوں نے اقلیتوں کے آئینی حقوق انہیں دینے کی بات کی ۔ وہ اس سے قبل بھی اپنے کئی انٹرویوز میں اس بات کا عزم کر چکے ہیں ۔ اقلیتوں کے بنیادی آئینی حقوق اور ہر ایک کے بنیادی شہری حقوق کے تحفظ کی بات کرچکے ہیں ۔ کیا واقعی نئی حکومت اس بھاری پتھر کو اٹھا سکے گی ۔ کیا تمام تر کمزور طبقات کو اپنے بنیادی شہری حقوق مل سکیں گے ۔کیا کسی کو کافر کہہ کر ، چوہڑا چمار  کہہ  کر ، نعرے لگا کر ، لاؤڈ اسپیکر پر اعلانات کر کے، جم غفیر اکٹھا کر کے مارنے کی سند حاصل کرنے والے موت کے سوداگروں کے ہاتھ رک سکیں گے۔ کیا ذاتی وجوہات کی بنا پر ختم نبوت اور توہین رسالت کا کارڈ کھیلنے والوں کی تمنائیں خاک کی جا سکیں گی ۔
نیک خواہشات تو بقول احمد ندیم قاسمی یہی ہیں:
خدا کرے  کہ  میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ ء زوال نہ ہو
خدا کرے میرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو ، زندگی وبال نہ ہو!

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:مضمون میں لکھاری نے آزادیء  اظہارِ  رائے کے  تحت اپنے خیالات کااظہار کیا ہے،ادارہ ہذا کا اس سے اتفاق ضروری نہیں ،اگر آپ قارئین میں سے کوئی اس بابت کچھ کہنا چاہے تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں !

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”احمدیوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے کس نے روکا؟۔۔۔۔ چوہدری نعیم احمد باجوہ

  1. جواب آں کالم ….ندیم احمد باجوہ

    تحریر :سید ذیشان حیدر بخاری ایڈووکیٹ

    مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالٰیٰ کا آخری نبی اور آخری رسول مانا جائے۔ آپ کی بعثت کے بعد رب العزت نے نبوت و رسالت کے سلسلہ کو ختم کیا اور آپ کو خاتم النبین کے صفاتی نام سے نوازا…جس کا مطلب ہے مہر لگانے والے… قرآن پاک میں بھی بارہا اس جانب اشارات بھی دیئے گئے…آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد تا قیام قیامت کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں کیا جائے گا… حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن کریم کی بے شمار آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ایک جگہ پرارشادِ خداوندی ہے:
    مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاo (الاحزاب، 33 : 40)
    ترجمہ: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
    اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالٰیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی آخری نبی ہیں آپ کے بعد قیامت تک کسی کو منصب نبوت و رسالت پر فائز نہیں کیا جائے گا…
    خطبہ جحۃ الوداع کے موقع پر بذریعہ وحی تمام انسانیت کو یہ واضع پیغام دے دیا گیاکہ..
    “اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا” (المائدہ،:۳)
    ترجمہ:۔” آ ج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کا مل کر دیا ،اور تم پر میں نے اپنا احسان پورا کر دیا، اور پسند کیا میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین”۔
    جی ہاں ایک مکمل ضابطہ حیات ہمیں دے دیا گیا اس کے بعد ہماری رہنمائی تا قیام قیامت اسی کتاب(قرآن پاک) اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی کی جاتی رہے گی..
    اور پھر نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان “لانبی بعدی” کے بعد تو کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی.
    پیغمبر اسلام کو ایک عظیم روحانی اور مذہبی شخصیت ہونے کے ناطے جزیرہ نما عرب میں بہت زیادہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتاتھا چنانچہ جب اہل مدینہ کی طرف سے بارگاہ نبوی صلٰی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قیام امن کے لئے درخواست گزاری کی گئی تو آپ وہاں ایک مبنی بر انصاف معاشرہ قائم کرنے لئے تشریف لے گئے۔ اپنے قیام مدینہ کے دوران آپ نے جو پہلا کام کیا وہ یہ کہ مختلف قبائل اور مذہبی گروہوں کے مابین ایک ایسا معاہد ہ امن ڈرافٹ کیا جسے دنیا میثاق مدینہ کے نام سے جانتی ہے..جس معاہدے کی شقوں کے تحت مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے تمام قبائل اور مذہبی گروہوں کو ان کے عقائد، قبائلی قوانین اور روایات کے مطابق زندگی گذارنے کا حق تسلیم کیا گیا تھا ۔ کسی کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ اپنے عقائد اور روایات کسی دوسرے شخص یاگروہ اور قبیلہ پر بزور طاقت مسلط کرے ۔ قرآن میں واضح طور پر یہ بیان کیاگیا ہے کہ ’’ دین کے معاملات میں کوئی جبر نہیں ہے ‘…
    اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلٰی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے :
    ألا من ظلم معاهداً او انتقصه او کلفه فوق طاقته او اخذ منه شيئا بغير طيب نفس فانا حجيجه يوم القيامة.
    ’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔‘‘
    یہ تو کچھ ایسی تعلیمات ہیں جن کو پڑھنے سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ اسلام نے ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ ریاست اور اس کے ساتھ جڑے ہر شخص کا فرض قرار دیا ہے…اور اسی طرح جو لوگ اس ریاست کے اصولوں جن کو شریعت بھی کہا جاتا ہے کو مانتے اورتسلیم کرتے ہیں ان کو ریاست کے انصرام کی ذمہ داری بھی دی گئی..اور جو دوسرے لوگ جو ان اصولوں کو تسلیم نہیں کرتے یا ان پر مطمئن نہیں “اہلِ ذمہ” کہلاتے ہیں یعنی ان افراد کی حفاظت کی ذمہ داری اصولوں کو تسلیم کرنے والے طبقہ پر ہوگی۔
    ذمیوں کا ذمہ جب مسلمانوں نے لے لیا تو وہ ان تمام سہولتوں کے حقدار ہیں جو شریعت الٰہی ان کو دیتی ہے یعنی مسلمان ان کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں، ان کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں۔ ان کی خون کی قیمت وہی ہوگی جو مسلمان کی ہے۔ ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہوگی۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی۔ ان کو اپنی مذہبی تعلیم کے انتظام کا پورا حق حاصل ہوگا اور اسلامی تعلیم ان پر جبراً مسلط نہیں کی جائے گی۔….یعنی بطور اقلیت وہ اپنے تمام امور کی انجام دہی کے لئے مکمل طور پر آزاد اور خودمختارہیں….اسطرح پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد آئین سازی کے وقت بھی ان تمام باتوں کو مدنظر رکھا گیا اور اس کے مطابق قرار داد پاکستان جس کو آئین پاکستان 1973میں ابتدائیہ کا درجہ حاصل ہے اس کے مطابق …اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیر ے حاکمِ مطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے، وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔..مجلس دستور ساز نے جو جمہور پا کستان کی نما ئندہ ہے ،آزاد و خود مختار پا کستان کے لیے ایک دستور مرتب کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقات کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا….یہ بات تو طے ہے کہ آئین پاکستان میں کوئی ایسی Provision شامل نہیں کی جاسکتی جو کہ قرآن و سنت سے متصادم ہو….اس کے مطابق ہر وہ مذہب جو اقلیت ڈکلئیر ہے وہ یہ تمام حقوق لینے اور ان سے فائدہ حاصل کرنے کا قانونی طور پر مستحق ہے لیکن ہمارے ملک میں احمدی ایک ایسا طبقہ ہے جو اپنے آپ کو مسلمان لکھتے ہیں حالانکہ اسی آئین میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف واضع الفاظ میں کی گئی ہے..جس کے مطابق اللہ کی وحدانیت اور نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان ہے جبکہ احمدی حضرات ختم نبوت پر بالکل بھی ایمان نہیں رکھتے…اور مرزا غلام احمد قادیانی کو بعد از وصال جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی اور رسول مانتے ہیں……اب آتے ہیں نعیم احمد باجوہ کے اعتراضات کی طرف…نعیم باجوہ ,جو کہ مذہب کے لحاظ سے احمدی ہیں,نے اعتراض کیا ہے کہ انہیں ہندو, سکھ وغیرہ کی طرح غیر مسلم گردانا جاتا ہے اور ہماری الگ ووٹر لسٹیں تیار کی جاتی ہیں ہمیں کوئی نمائندگی بھی نہیں دی جاتی تو جناب عرض اسطرح سے ہے کہ پاکستان میں دو طرح کے لوگوں کا بسیرا ہے جن کو نمائندگی بھی دی گئی ہے اور ان کو حقوق بھی دئیے جاتے ہیں اور ان کے حقوق کا تحفظ قرآن و سنت اور آئین کی رو سے ریاست اور حکمران طبقہ کی ذمہ داری چلی آ رہی ہے ان میں ایک مسلم طبقہ جو کہ اللہ کی وحدانیت اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیختم نبوت پر کامل اور غیر مشروط ایمان رکھتے ہیں جبکہ دوسرے وہ جو اس سب کو ان پیرامیٹرز پر قبول نہیں کرتے.. غیرمسلم کہلاتے ہیں…. لیکن نعیم احمد باجوہ آپ تو اپنے آپ نہ تو اسلام کی مانتے ہو اور نہ ہی اپنے آپ کو غیرمسلم تسلیم کرتے ہو بلکہ خلاف قانون و قرآن و سنت آپ اسلام کا ٹیگ استعمال کرتے ہو جو کہ سراسر جرم اور غیر اخلاقی فعل ہے…آپ کا ختم نبوت پر تو ایمان ہی نہیں, آپ تو لعنتی غلام احمد قادیانی کو اپنا آخری نبی ورسول مانتے ہو, آپ کے لئےاللہ کے احکامات سے کہیں زیادہ افضل اور قابل تقلید احکامات اس لعنتی ,کاذب, جھوٹے قادیانی کے ہیں…ایسی صورت میں آپ کو کس قسم کے حقوق چاہئے جب آپ نہ گھر کے ہیں اور نہ ہی گھاٹ کے….سب سے پہلے اپنا سٹیٹس تو کلئیر کریں…اپنے آپ کو غیر مسلم تو تسلیم کریں پھر آپ کسی قسم کی نمائندگی یا حقوق کا مطالبہ کریں….اسلام اور آئین پاکستان مسلم اور غیر مسلم کو حقوق دیتے ہیں اور ان کا تحفظ بھی ہر طرح سے یقینی بناتے ہیں جبکہ احمدی حضرات تو اپنی اصلیت ہی تسلیم نہیں کرتے اپنی شناخت بطور احمدی,مرزائی تسلیم کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور اسلام اور مسلمانیت کا ٹیگ استعمال کرتے ہوئے ایک الگ جرم اور غیر اخلاقی فعل کے مرتکب ہوتے ہیں….کسی بھی حق کو لینے کے لئے اس کے مستحقین کی صف میں کھڑا ہونا پڑتا ہے تو نعیم باجوہ میرا آپ کو یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ جناب اپنا حق کا مطالبہ کرنے سے پہلے یہ تو طے کریں کہ آپ کس صف میں کھڑے ہیں….رہی بات آپ کی نمائندگی کی تو جناب اس ریاست میں آپ کے Civil rights تو ایک مسلمان کے جیسے تو ہو سکتے ہیں لیکن بطور اقلیت آپ کو قطعاً ان کے جیسے Political rightsنہیں مل سکتے کیونکہ آپ یہاں پر “ذمیوں” کی تعریف میں آتے ہیں نہ کہ حاکم طبقہ کی…ختم نبوت پر تو آپ کی حالت یہ ہے کہ جن آیات مقدسہ میں رب کائنات نے خود جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ نبوت و رسالت کے خاتمے کی تصدیق کی, اشارۃ وکنایۃ اس کی طرف اشارات کئے ان کے آپ لوگوں نے بالکل ہی الگ سے ترجمہ اور تشریحات گھڑ لئے ہیں جو کہ میری نظر میں آپ کے مسلمان ہونے کی تعریف میں تو بالکل ہی نہیں آتے…ایک طرف تو آپ یہ کہتے ہیں کہ حالیہ انتخابات میں ووٹ کے اندراج کے لئے جاری کئے گئے فارم میں مذہب کا خانہ اورحلفیہ بیان شامل کیا گیا ہے ۔ اس فارم کے ذریعہ ووٹ بنانے کے لئے احمدیوں کو حضرت محمد ﷺ سے قطع تعلق کا اعلان کرنا پڑتا ہے ۔ جو کہ ایک احمدی سوچ بھی نہیں سکتا اور ایسا اعلان کسی طو ر بھی ممکن نہیں…. تو جناب کے اپنے مرشد اور نام نہاد نبی کے اپنےبیانات اور عقائد جن میں از خود اتنے تضادات پائے جا رہے ہیں کہ ایک عام عقل رکھنے والا شخص بھی اس کو تسلیم نہیں کر سکتا…ایک مسلمان ہونے کے ناطے اللہ تعالیٰ کی ذات کے وحدہٗ لاشریک ہونے اورحق تعالیٰ کی ذات پر اس کی جملہ صفات کے ساتھ غیر متزلزل ایمان لانا اولین شرط ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ادنیٰ توہین کا گمان بھی بدترین کفر ہے جبکہ مرزا قادیانی نے اللہ تعالیٰ کی ذات مقدسہ کے بارے میں وہ خرافات بکیں ہیں جو از خود اس کے بدباطن کی عکاس ہیں۔ چندحوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:۔
    “قیوم العالمین ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے بے شمار ہاتھ پیر اور ہر ایک عضو کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لاانتہا عرض اور طول رکھتاہے اور تیندوے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں”۔(روحانی خزائن ج 3ص 90)

    اس عبارت میں مرزا قادیانی نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو تیندوے سے تشبیہ دی ہے۔ جبکہ قرآن کا اعلان ہے: لیس کمثلہٖ شیءٍ (نہیں ہے اس اللہ کی مثل کوئی شئے)
    ایک اور جگہ وہ کہتا ہے کہ:
    کیا کوئی عقل مند اس بات کو قبول کرسکتاہے کہ اس زمانہ میں خدا سنتاتوہے مگر بولتانہیں، پھر اس کے بعد یہ سوال ہوگا کیوں نہیں بولتاکیا (اللہ کی) زبان پر کوئی مرض لاحق ہوگئی ہے۔ (روحانی خزائن ج 21 ص 312)وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے اس سے انسان کہاں بھاگ سکتاہے وہ فرماتاہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا۔ (روحانی خزائن ج 20ص 396)
    اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جابجا اپنی وحدانیت کے دلائل ذکر کیے ہیں اور ہر طرح کے رشتہ سے نہ صرف برات کا اعلان کیا ہے بلکہ جن لوگوں نے خدا کے سوا خدا کی اولاد وغیرہ کا عقیدہ گھڑا اُن کی سخت تردید کی ہے۔ سورۃ اخلاص تو صرف مضامین توحید پر ہی مشتمل ہے لیکن مرزاقادیانی کے توحیدباری تعالیٰ کے متعلق کیا نظریات ہیں ذرا وہملاحظہ فرمائیں! مرزاقادیانی خدائی کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھتاہے:
    میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور میں نے یقین کرلیا میں وہی ہوں
    (روحانی خزائن ج 5 ص546)
    ایک اور جگہ پر کہتا ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِی اے مرزا تو میرے نزدیک میری اولاد کی طرح ہے (تذکرہ ص 345 طبع چہارم)
    اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِی اے مرزا تو مجھ سے میرے بیٹے کی طرح ہے۔ (تذکرہ طبع چہارم ص422)
    اپنے بیٹے کو خداتعالیٰ سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھتاہے کہ خدا نے مجھے کہا کہ: ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جس کے ساتھ حق کا ظہور ہوگا گو یا آسمان سے خدا اتر ے گا (روحانی خزائن ج22 ص99)
    یہ تو اس کاذب کے توحید باری تعالٰی کے بارے میں ریمارکس اور نظریات ہیں….ان سب کے ارتکاب سے تو آپ کا نام نہاد نبی از خود دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اللہ کی وحدانیت سے تو بالکل ہی انکاری ہوتے ہوئے اپنے آپ کو خدا گردانتا رہا….تو آپ جو اس کے پیروکار ہو آپ مسلمان کیسے ہو سکتے ہو…..ایک وکیل اور قانون کا طالب علم ہونے کے ناطے میری ریسرچ کے مطابق… احمدیوں اورقادیانیوں کو ان کے ان کفریہ عقائد اور نظریات کے باعث اسلامی جمہوریہ پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت نے متفقہ طور پر 7 ستمبر1974ء کو انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیتے ہوئےآئین پاکستان کی شق 106(2)اور260(3) میں اس کا اندراج کردیا۔ جمہوری نظامِ حکومت میں تمام فیصلہ جات بالخوصوص کوئی بھی اہم نوعیت کا فیصلہ ہمیشہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے لیکن یہ دنیا کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے کہ جس میں حکومت وقت نے نے فیصلہ کرنے سے پہلے قادیانی جماعت کے اس وقت کے سربراہ مرزا ناصر کو پارلیمنٹ کے سامنے اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کے لیے بلایا۔ اسمبلی میں اس کے بیان کے بعد حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل وقت یحییٰ بختیار نے قادیانی عقائد کے حوالے سے اُس پر جرح کی، جس کے جواب میں مرزا ناصر نے نہ صرف مذکورہ بالا تمام عقائد و نظریات کا برملا اعتراف کیا بلکہ باطل تاویلات کے ذریعے ان کا دفاع بھی کیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود قادیانی گروپ پارلیمنٹ آف پاکستان کے اس متفقہ فیصلے کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کی کوئی حکومت ،پارلیمنٹ یا کوئی اور ادارہ انہیں ان کے صرف عقائد کی بناء پر غیر مسلم قرار نہیں دے سکتا، بلکہ الٹا وہ مسلمانوں کو کافر اور خود کو مسلمان کہتے ہیں اور آئین میں دی گئی اپنی حیثیت تسلیم نہیں کرتے اور پوری دنیا میں شور مچاتے ہیں کہ پاکستان میں ہم پر ظلم ہو رہا ہے۔ ہمارے حقوق غصب کیے جارہے ہیں۔ ہمیں آزادی اظہار نہیں ہے۔ کبھی تو وہ اقوام متحدہ سے اپیلیں کرتے ہیں، کبھی یہودیوں اورعیسائیوں سے دبائو ڈلواتے ہیں۔ حالانکہ ہم بڑی سادہ سی جائز بات کہتے ہیں کہ تم مرزا قادیانی کو محمد رسول اللہ نہ کہو۔ کلمہ طیبہ مسلمانوں کا ہے، تم اس پر قبضہ نہ کرو یعنی شراب پر زم زم کا لیبل نہ لگائو….شعائر اسلام کے تابع رہو…. لیکن قادیانی اس سے باز نہیں آتے بلکہ الٹا اسلام کے نام پر اپنے خود ساختہ عقائد و نظریات کی تبلیغ و تشہیر کرتے ہیں۔
    قادیانیوں کو شعائر اسلام کے استعمال اور اس کی توہین سے روکنے کے لیے 26 اپریل 1984ء کو حکومت پاکستان نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا، جس کی رو سے قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے اور اپنے مذہب کے لیے اسلامی شعائرو اصطلاحات استعمال نہیں کر سکتے۔ اس سلسلہ میں تعزیراتِ پاکستان میں ایک نئی فوجداری دفعہ298/C کا اضافہ کیا گیا۔ ملاحظہ فرمائیں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/C : ’’قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو بلا واسطہ یا بالواسطہ خود کو مسلمان ظاہر کرے یا اپنے مذہب کو اسلام کے طور پر موسوم کرے یا منسوب کرے یا الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے یا دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دے یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو مجروح کرے، کو کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے اور جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔‘‘
    اسطرح جناب والا…آپ یہ سب کرتے ہوئے ملکی آئین , الٰہی احکامات, قرآن وسنت کی سر عام خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے چلے آرہے رہے ہو اور سٹیٹ سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہو جناب کے علم کے لئے عرض کرتا چلوں کہ حکومت سے حقوق کا مطالبہ آپ صرف اس وقت کر سکتے ہو جب آپ اس کے لئے وفادار ہوں اور وفاداری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کے بنائے گئے تمام قوانین اور اصولوں پر مکمل طور پر کاربند رہا جائے لیکن جناب اور جناب کی جماعت ایک طرف تو اپنے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ سے قطع تعلق کا اعلان کرنے کے بارے میں ایک احمدی سوچ بھی نہیں سکتا اور ایسا اعلان کسی طو ر بھی ممکن نہیں …. لیکن جناب اور جماعت کے عقائد اور نظریات جن میں سے چند ایک کا یہاں پر تذکرہ بھی کیا گیا ہے وہ تو اس کے بالکل برعکس ہیں…….تو ندیم باجوہ وضاحت دیں کہ اس بارے میں آپ درست ہو یا پھر آپ کا نام نہاد نبی غلام احمد قادیانی….میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ اگر آپ کو ہدایت نصیب نہیں ہوئی تو آپ دوسرے معصوم لوگوں کو گمراہ کیوں کررہے ہو…..

  2. سید ذیشان حیدر صاحب
    1 جھوٹ بولنا اور الزامات لگانا آپ کو مبارک ہو۔ سید کہلا کر یہ بھی سیکھ نہ سکے کہ گالی دینا آقا و مولٰی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ۔ ہاں ابو جہل کی ضرور ہے اور آپ کو اس کی پیروی مبارک ہو۔
    2۔ جس کی لیاقت اتنی ہو کہ غصہ میں نام تک درست کاپی نہ کر سکے وہ بانی جماعت احمدیہ کی پر معارف اور عشق خدا اور عشق رسول میں لکھی ہوئی تحریرات کو سمجھ لے گا۔
    3۔ آپ نے فتوی صادر کیا ہے ( جبکہ احمدی حضرات ختم نبوت پر بالکل بھی ایمان نہیں رکھتے)نعوذ باللہ من ذالک۔ آپ کی اوقات کیا ہے کسی کے ایمان کا فیصلہ کرنے کی۔آپ کو چیلنج ہے کہ بانی جماعت احمدیہ کی کسی تحریر سے دکھا دیں کہ احمدی ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے۔
    بانی جماعت احمدیہ کی خاتم النیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں سینکڑوں صفحات پر مشتمل تحریرات ہیں۔ لکھتے ہیں
    ربط ہے جان محمد سے میری جاں کو مدام
    دل کو وہ جام لبا لب ہے پلایا ہم نے
    ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل
    تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھا یا ہم نے
    لکھتے ہیں۔
    ’’ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ۔ ہمارا اعتقاد۔۔۔ یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا ۔‘‘ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ ص ۱۶۹)
    ذیشان صاحب! صاحب علم کو علمی مباحث ، علمی رنگ میں دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ گالی حل ہے اور نہ ایک مومن کو زیب دیتا ہے۔
    آپ کے لئے قرآنی الفاظ میں ّّ قالوا سلاما ٗٗ کا تحفہ پیش ہے۔

Leave a Reply to Ch. Naeem Ahmad Bajwa Cancel reply