یا اللہ خیر

گزشتہ شام تک مجھے یقین تھا کہ میاں نواز شریف موجودہ بحران سے اسی “خوش قسمتی” کے باعث بخیر و خوبی نکل آئیں گے جسے ان کے مخالفین چمک اور ڈیل وغیرہ کا نام دیتے ہیں تاہم اس یقین میں ایک ہلکی سی دراڑ اس وقت پڑی جب میاں صاحب نے لندن پہنچ کر صحافیوں کے ساتھ گفتگو کی۔ اس گفتگو کے دوران ان کی باڈی لینگویج اور بے معنی دلائل شکست خوردگی کی واضح علامات تھے۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات ان کے ذاتی بزنس کے گرد گھوم رہی ہیں۔ چہ عجب، انہیں آج پتا چلا ہے کہ گزشتہ برس پاناما پیپرز منظر عام پر آنے کے بعد ہی سے ساری گفتگو ان کے ذاتی و خاندانی بزنس اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہی پر ہو رہی ہے اور سپریم کورٹ میں مہینوں تک چلنے والا کیس بھی اسی کے متعلق تھا جس کے فیصلے پر وکٹری کے نشان بنائے گئے، تصویریں کھنچوائی گئیں تھیں اور مٹھائیاں بھی بانٹی گئیں تھیں۔
دوران گفتگو وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ “میں نے پاناما جے آئی ٹی کو بھی کہا تھا کہ آپ کیا ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں، جے آئی ٹی کے ارکان میرے سوال کا جواب نہیں دے سکے، جے آئی ٹی سے پوچھا کرپشن کا کوئی کیس ہے، اس کا بھی جواب نہیں ملا جبکہ پاناما جے آئی ٹی جس طرح چل رہی ہے مجھے سمجھ نہیں آرہا۔”
شاید وزیر اعظم کو کسی نے بتایا ہی نہیں کہ جے آئی ٹی میں سوال کرنے کا حق تفتیشی ٹیم کو تھا، انہیں نہیں۔ انہیں تو صرف چند سوالوں کے جواب دینے تھے۔ مزید ہمارے سادہ لوح رہنما کو یہ بھی معلوم نہیں کہ غیر قانونی ذرائع سے رقم کی بیرون ملک منتقلی کو بھی قانون کی کتاب میں جرم ہی تحریر کیا گیا ہے اور جسملک کے ائر پورٹ پر وہ صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے، اس کی زبان میں اس جرم کو “منی لانڈرنگ” کا بھلا سا نام بھی دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ “پاکستان آگے بڑھ رہا ہے، جب ترقی ہوتی ہے تو یہ دشمن پاکستان کی ترقی کے خلاف ہوجاتے ہیں، جے آئی ٹی کی تاریخ سب کے سامنے ہے، یہ تاریخ واٹس ایپ یا اس سے پہلے سے شروع ہوتی ہے جو اب تک چل رہی ہے۔”
اس موقع پر وزیر اعظم نے یہ وضاحت نہیں کی کہ دشمن سے ان کی مراد کیا ہے؟ کیا ملکی ترقی کی دشمن عدلیہ ہے یا ان کا روئے سخن فوج کی طرف ہے؟ اگر عدلیہ کا ذکر ہے تو تاریخ کے مطابق جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی انہیں وہ انصاف دیا تھا محترمہ بے نظیر بھٹو کو نہیں مل سکا۔ جسٹس سجاد علی شاہ کے معاملے پر بھی میاں صاحب کو عدلیہ کے اندر ہی سے وہ حمایت مل گئی تھی جو کسی اور کو نہ مل سکی۔ جسٹس افتخار چودھری نے جس طرح میاں صاحب کے ساتھ “نرم سلوک” روا رکھا، وہ بھی ایک حقیقت ہے۔ یہاں تک کہ جسٹس انور ظہیر جمالی نے بھی اس کیس سے اپنی ریٹائرمنٹ کے ذریعے بخیریت گھر جانے ہی میں عافیت جانی۔
اگر ترقی کے دشمن سے مراد فوج ہے تو جنرل راحیل شریف کو آپ نے خود سعودی ملازمت دلوا کر رام کر لیا تھا اور ڈان لیکس کے معاملے پر فوجی قیادت نے قدم پیچھے ہٹا کر سویلین بالا دستی قبول کی ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران اسٹیبلشمنٹ نے پنجاب میں آپ کی جماعت کو وہ ٹف ٹائم نہیں دیا جو سندھ حکومت اور دیگر جماعتوں کو دیا جا رہا ہے۔ البتہ ایک معاملے پر آپ بد قسمت رہے ہیں، سیف الرحمٰن اور میاں شہباز شریف کی جسٹس قیوم کو کی گئی ٹیلی فون کالز کے وقت وٹس ایپ جیسی اینکرپٹڈ سہولت دستیاب نہیں تھی۔
وٹس ایپ کالز سے یاد آیا کہ سپریم کورٹ نے اپنے 20 اپریل 2017 کو سنائے جانے والے فیصلے میں واضح طور پر لکھا تھا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے ادارے صرف نام بھجوا سکتے ہیں، انہیں منظور یا مسترد کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہوگا۔ اب جناب اسحٰق ڈار نے اپنے منظور نظر افراد کے نام بھجوا دئیے تو مسترد ہونے ہی تھے، اسے قسمت اور سپریم کورٹ کا لکھا سمجھ کر قبول کیجیے۔
جناب وزیر اعظم، اگرچہ آپ کا لہجہ اور الفاظ کچھ اور کہانی سنا رہے ہیں لیکن ابھی آپ کی بلند اقبالی پر عوام کالانعام کا یقین ٹوٹا نہیں۔ اس یقین میں پڑنے والی ہلکی سی دراڑ کے باوجود ہمیں اب بھی یقین ہے کہ روایتی خوش بختی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑے گی اور عین موقعے پر آپ کے لیے دیوار میں اسی طرح در بنے گا جیسے اٹک قلعے کی دیواروں میں بنا تھا۔ جاہل عوام اسے ڈیل کہتے ہیں جبکہ ہم اسے آپ کی خوش قسمتی سے تعبیر کرتے ہیں۔ تب تک کے لیے یا اللہ خیر کا ورد جاری رکھیے۔

Facebook Comments

ژاں سارتر
کسی بھی شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا اصل تعارف ہوتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”یا اللہ خیر

  1. شریف برادران کی خوشبختی تو کسی بھی شبہے سے بالاتر ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کوئی بھی شئے دائمی نہیں ہوتی

  2. میاں محمد نواز شریف از دا میسنا آف دا فرسٹ آرڈر۔ یہ صرف عدلیہ کا گند نکالنے ڈرامہ فرما رہے ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔

Leave a Reply