ینٹ پیٹرزبرگ میں اتنے دن؟ کوئی آپکا ہے وہاں؟
کراچی سے یہ آواز میرے ویزہ اور ٹکٹ ایجنٹ کی تھی۔وہ رُوس میں میرے قیام کے دنوں کی بابت پوچھتا تھا۔پیٹرز برگ میں ہفتے بھرکا سُن کر اُسکا حیرت بھرا یہ استفسار میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ میرے گلے میں بھی ایک خفیف سا ہنکارا بھر گیا تھا۔
”ہاں ہے بھئی۔ وہاں میرا گرُو رہتا ہے۔“
یہ جُملہ میرے ہونٹوں نے نہیں میرے دل نے کہا تھا۔
میں جانتی تھی کہ اگر یہ میرے اندر سے اٹھ کر لہروں پر تیرتا ہوا دوسری طرف چلا گیاتو سوال جواب کا لمبا سلسلہ شروع ہو جائیگا۔ ہم لکھنے والوں کے جو بندھن اجنبی سرزمینوں کے کاغذ قلم اور فن سے رشتہ رکھنے والوں سے جڑے ہوتے ہیں وہ عام لوگوں کی سمجھ میں کب آتے ہیں۔دوستو وِسکی سے بڑا کون اپنا ہو سکتا ہے؟
فاروق ہمیں ٹکٹ رات پہنچا گیا تھا۔ ہم نے ساتھ لے جانے والا سامان نکال کر بقیہ اُس کے حوالے کر دیا تھا۔اُس نے تاکید کی تھی کہ چیک آوٹ سے قبل رجسٹریشن لیٹرکا پاس ہونا ضروری ہے۔ناشتے کے بعد رجسڑیشن بلاک کیطرف گئے۔بڑی پکی پیٹھی کاروباری عورتیں مختلف کمروں میں بیٹھی کاغذات کے پلندوں میں اُلجھی ہوئی تھیں۔ ہماری درخواست پر مزے سے بولیں۔
ہفتہ اتوار ماسکو میں چھٹی کے دن ہیں۔رجسٹریشن تو ہو ہی نہیں سکتی۔
”لو میاں کر لوگل۔“
اپنے آپ سے کہتے ہوئے ہم نے اپنے ہلکے سے بیگ کی سٹریپ اپنے کندھوں پر ڈالی ”دفع کرو جی جو ہوگا دیکھا جائے گا۔“ کا سوچا او ر ”چلو چلوکم سومولسکایاچلو“ کانعرہ جی ہی جی میں لگایا۔
کم سو مولسکایا میٹرو کا مرکزی اسٹیشن ہے۔ واہ جی واہ! کیا بات تھی اُن راہداریوں کی جن سے ہمیں گذرنا پڑا۔یو ں لگتا تھاجیسے کِسی عوامی گذرگاہ سے نہیں کِسی خاص الخاص محل کے کِسی برآمدے میں موجو د ہیں۔ لمبے کُشادہ راستے جن کے دونوں اطراف کے گول ستونوں پر محرابی دیواروں اور محرابی چھت نقاشی کے فن اوراُس سے لٹکتے درجنوں شاندار شینڈلیرز سے سجی حیرتوں کے دروازے وا کرتی تھی۔ستونوں کے درمیان دھرے آرام دہ بینچوں پرسکون سے بیٹھنے،لیٹنے اور اگر دل چاہے تو ٹیک لگا کررُوس کے اس عظیم کارنامے کو سراہنے کا بھی انتظام تھا۔ہم بینچوں پر بیٹھ گئیں۔کونسی جلدی تھی؟اطراف میں بنی پٹڑیوں پر گہرے سرخ اور اُودے رنگ کی گاڑیوں کا دُھواں دھار طریقے سے آناجانا رواں دواں تھا۔
دنیا کی کوئی میٹرو اتنی خوبصوت نہیں ہو سکتی جتنی ماسکو کی ہے۔معلوم ہوتا تھاکہ حکمرانوں نے جیسے اپنے لوگوں کو محبت سے لبالب بھرا ہوا یہ خوبصورت تحفہ دیا ہو۔
پھر مزے سے اٹھے دُنیا گول ہے شاید میٹرو سٹیشن کی مرکزی جگہ بھی اِسی کلیّے قاعدے پر بنائی گئی ہے۔ گولائی لئے ہوئے اس کی آمنے سامنے کی دیواروں کی جو پینٹنگ تھی وہ لاجواب ہونے کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے کام اور جذبات کی بھی عکاس تھیں۔یہاں سے مختلف راستے ماسکو کی مختلف جگہوں کے لئے نکلتے ہیں۔ یہاں سے پھر ایک طویل راہداری تھی جس پر چلتے ہوئے ہم بالآخر باہر آگئے۔
جس جانب ہم نے رُخ کیا وہاں چھوٹے چھوٹے خوبصورت کھوکھوں اور دوکانوں کا ایک ہجوم نظر آیا۔کھانے پینے، ویڈیو شاپس، ریڈی میڈ کپڑوں اور موبائیلوں کی دوکانوں پر لوگوں کا جمّ غفیر خریداری میں اُلجھا ہواتھا۔وہاں سے ہم نے برگرز لئے۔سٹیشن کی عمارت کے اندر جانے کی بجائے کم سومولسکایا سکوائر میں آگئیں۔لمبے چوڑے سنگی بینچوں کے ساتھ ساتھ کھِلے پھُولوں کی کیاریاں تھیں۔آہنی جنگلوں میں مقیدسرسبزگھاس کے قطعے،ٹیکسیاں،گاڑیاں، رنگ برنگے پیرھنوں میں لوگوں کے پرُے، ماحول کو کتنی خوبصورتی دیتے تھے۔
گرینائٹ کے چبوترے پر رُوس کا نقشہ سٹیٹ ایگل کے ساتھ دائیں بائیں پھیلا ہوا تھا۔ مجھے نقشوں سے بہُت دلچسپی ہے۔ بہُت اچھی اٹلسوں کا ذخیرہ ہے میرے پاس۔ ملکوں کی ظاہری شکل وصورتوں کا موازنہ کرنا بڑا دلچسپ شغل ہے۔
رُوس اپنی ظاہری صورت میں اپنے دائیں طرف کے بالائی اور زیریں خموں کے ساتھ کسی آرام کرتے ہوئے گھوڑے کی مانند نظر آیا تھا۔
سوویت کے زمانوں والا پھیلاؤ اب سکڑ گیا ہے۔ ساری ر یپبلکیں آزادوخودمختار ہوگئی ہیں۔ پر وہ کہتے ہیں۔ چنے کی دال سڑ بھی جائے تو گوشت سے نپٹ نہیں ہوتی والی بات ہے۔ ہاتھی مر کر بھی لا کھ کا ہے۔بحر الکاہل اور بحیرہ جاپان کے ہمسائے ولادی وستوک میں جب رات ہوتی ہے، ماسکو میں اُس وقت صُبح طلوع ہوتی ہے۔ آبنائے بیرنگ انتہائے مشرق کا سرا اور ولادی وستوک جنوب مشرقی سرا۔شمال تو بحر منجمند شمالی سے گھرا ہوا ہے۔ اِن برفیلے سمندروں میں جتنے جزیرے ہیں اُن میں زندگی کی سختیوں کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔
14 ریپبلکیں استھونیا، لتویا، مولداویا بیلا رس (Byelorussia) یوکرائن، جارجیا، ازبکستان، تاجکستان، آذربائیجان، ترکمانستان، آرمینیا، قازقستان، کرغستان وغیرہ اور پندرھویں رُوس خود۔ جو کچھ جنوب اور کچھ مغرب میں ہیں آزاد ہو گئی ہیں۔ انہیں نکالنے کے باوجودرقبہ دُنیا میں سب سے زیادہ ہے۔۷۱ ملین مربع کلومیٹرجس کا صرف ابھی تیر ہ (13)فی صد آباد اور بقیہ ویسے ہی غیر آباد۔ مشرق ومغرب، شمال اور جنوب کے درمیان حائل ہزاروں میلوں کے اِن فاصلوں میں موسموں، فصلوں، نسلوں اور تمدنوں کی انفرادیت اور رنگا رنگی ہے۔
اور جب ہم سُرخ سفید اور کاسنی پھولوں کی کیاریوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے برگرز کی چھوٹی چھوٹی بائٹ لیتے بڑے مسرور سے انداز میں بیٹھی دھوپ سے لطف اٹھاتی تھیں ہم نے مان سنگھ کو دیکھا تھا۔بھارتی پنجاب کے ضلع ہریانہ کا مان سنگھ جو ہمیں حیرت سے دیکھتا ہوا آگے بڑھاتھا پر تھوڑا آگے جاکر واپس پلٹا تھا۔
آنکھوں میں حیرت تھی پر ساتھ باچھیں کھِلی ہوئی تھیں۔پنجابی زبان میں بے تکلفی سے بولا تھا۔
”تُسی کِتھوں او جی۔“
اور شہرلاہور کاسُن کر تو نہ صرف باچھوں کاپھیلاؤ بڑھا بلکہ آنکھوں میں خوشی بھی ناچ اٹھی تھی۔لاہور کا مضافاتی شہر کا مونکی اُسکے والدین کی جنم بھومی تھی۔اجنبی سرزمین پر ماں بولی نے ہمیں بھی سرشاری دی تھی۔
مان سنگھ کوئی پینتالیس اڑتالیس کے ہیر پھیر میں ہوگا۔پچیس سال سے ماسکو میں تھا ہیوی مکینیکل انجینئرنگ میں تعلیم ماسکو یونیورسٹی سے حاصل کی۔کچھ عرصہ سائیبریا کے برف زاروں میں کام کر نے کے بعد اُس نے مشین ٹولز کی تجارت شروع کر دی۔اسوقت اُسکا ہوزری کا کاروبارعروج پر تھا۔شادی اُس نے رُوسی لڑکی سے کی۔دوبچوں کا باپ تھا اور رُوسی معاشرے میں پوری طرح رَچابسا تھا۔
میرے ذہن میں بند پھڑپھڑاتے سوالات اُن کبوتروں کی طرح ہی تھے جوکابک کی بند کنڈی کھُلتے ہی اُڈاریاں مارنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اپنا ہم زبان کیا ملا۔ ایک کے بعد ایک کی یلغار ہونے لگی۔
رُوس کیوں ٹوٹا؟ آپ نے پوچھا ہے؟
”ارے بھئی اسے تو ٹوٹنا ہی تھا۔ ہماری پنجابی زبان میں کہاوت ہے۔ رنڈی یعنی بیوہ تو اپنی بیوگی کاٹ ہی لے پر گاؤں کے اُچکّے اُسے کاٹنے نہیں دیتے۔ یہاں بھی یہی حال تھا۔ انقلاب کے ساتھ ہی رُوسی معیشت کی تباہی وبربادی کے لئے دنیا کے چاچے مامے امریکہ اور برطانیہ نے اینٹی کمیونسٹ عناصر، وائٹ گارڈز (زاروں کی حامی فوج)، جاگیردارو ں اور نوابوں کو ہتھیاروں اور پیسوں کی فراہمی کی صورت در پردہ شازشوں کا آغاز کر دیا تھا۔
سٹالن کے ہاتھوں بہترین جرنیلوں کی موت اور جنگ سے متعلق اُس کے ابتدائی غلط اندازوں کے باوجود جنگِ عظیم دوم میں سوویت کی سُرخ فوج کے کارناموں پر مغرب بمعہ ہٹلر سَکتے میں آگیا۔ چرچل اور روز ویلٹ تو انتظار میں گھڑیاں گنتے تھے کہ دیکھو کب کون کِس کی گردن مروڑتا ہے اورپھر وہ آگے بڑھ کر مروڑنے والے کا مکّو ٹھونپیں۔پر وائے حسرت سُرخوں نے مہلت ہی نہ دی اور جھنڈے لہرا دئیے۔
اب سچی بات ہے دھاک تو بیٹھ گئی تھی۔ پوری دنیا میں واہ واہ اور بلّے بلّے بھی ہو گئی تھی۔ سکون سے بیٹھ جاتے پر نہیں۔ جی فوج کو عظیم تر بنانے کے لئے قومی دولت کا گیارہ بارہ فی صد اُ س پر خرچ ہونا شروع ہوگیا۔ فیکٹریوں نے صرف عام اسلحہ ہی نہیں نیو کلیئرہتھیاروں کے ڈھیر لگا کر امریکہ اور نیٹو NATO کوپیغام دیا کہ ہم کوئی تم سے کم ہیں۔اُوپر سے ماشاء اللہ خلائی تسخیر میں بھی سبقت کا جنون۔ بلا سے اسلحہ کوالٹی کے اعتبار سے امریکہ کے پلّے کا نہ ہو اور فورسز کا تعلیمی اور تربیتی معیار بھی کم تر ہو۔
بیچارے عام رُوسیوں کا تو وہ حال کہ کہا جائے آسمان سے گرے اور کجھُور میں جا اَٹکے۔ زاروں کم بختوں کے چُنگل سے نکلے تو اِن کمیونسٹ باگڑ بلّوں کے ہتھے چڑھ گئے۔
مارکسزم کا پرچاؤ اور کمیونسٹ بلاکوں کو زیراثر کرنے کے لئے اُنہیں اسلحے کی فراہمی کبھی مُفت اور کبھی بُہت کم قیمت پر ہونے لگی۔ مشرقی یورپ کوتیل20%کم ریٹ پر۔کیوبا کو سوویت ٹوٹنے تک ایک ملین ڈالر روزانہ کی چھوٹ تھی۔ اب بوجھ قومی معیشت پر تو پڑنا تھا۔ وہ پڑا۔
پرائیوٹ سیکٹر کا ریاستی سیکٹر کے ساتھ بھلا کیا مقابلہ۔ انسانی فطرت کے تقاضوں کے آگے ڈندے کے زور پر بُہت دیر تک بند نہیں باندھا جا سکتا۔ ذاتی دلچسپی نہیں تو کون جان مارتا ہے؟میں چار کی بجائے کارخانے سے دو بجے ہی کیوں نہ بھاگ جاؤں۔ تنخواہ تو مجھے ملنی ہی ملنی ہے۔ یہی ہوتا تھااشیاء کی کوالٹی کا معیار نا قص، زراعتی فارموں پر پیدا ہونے والی اشیاء اپنے ا ہداف سے کم، اُوپر سے غریب کسانوں پر ظلم وستم کی انتہا۔اجتماعی پیداوار پر زور۔ایسے میں کولاک (ا میر ترین) کسانوں کا رویہ پنجابی زبان کی اُس کہاوت کا غمّاز کہ تینوں نہیں دینی کھنگے نال پھڑوا لینی اں۔ اُنہوں نے فصلیں اُجاڑ دیں۔ کھلیانوں اور گوداموں کو آگ لگا دیں۔ جانور ذبح کر دئیے۔ لوگوں کے پاس گھروں کی قلّت تھی۔ معیارِ زندگی مشرقی یورپ سے بھی پست۔ خوراک کی کمی، بلیک مارکیٹوں کا رُحجان، اُوپر سے دنیا کے سکڑنے کا عمل، نئی نسل کے امریکہ کے ساتھ تقابلی جائزے، ٹیکسوں اور صنعتوں کی سبسیڈی کے حوالے سے بھی رُوس کی صنعتوں کا دنیا کی تجاری قیمتوں سے کوئی ربط وتعلق نہیں تھا۔ بیوروکریسی فوج کے اعلیٰ افسروں اور بڑے کمیونسٹ لیڈروں کے اللّے تللّے۔ سچ تو ہے ایسے میں امریکہ بہاد رکی اپنے کڑچھے چمچے گوربا چوف کے ہاتھوں گلاس ناسٹ Glasnost، پراسیٹرائیکا Perestroika اور ڈیموکریٹائزیشن جیسی اصلاحات کے ساتھ سوویت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی شازشیں۔ کیا گوربا چوف واقعی ریفارمر تھا؟میں ناقد نہیں۔ ان سبھوں پر طرّہ رُوسی فوجوں کی افغانستان میں شرمناک شکست اور واپسی۔ سوویت ر یپبلکوں کا اِن مواقع سے فائدہ اُٹھا کر علیحدگی کے اعلانات۔
اور مان سنگھ کھِلکھلا کر ہنسا۔ ”بیچارہ ٹوٹتا نہ تو اور کیا کرتا۔“
”سیاسی پارٹیوں کی کیا صورت حال ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن ہے۔ سٹالنسٹ عناصر ہیں۔ کِسان تنظیمیں بھی موجو د ہیں۔ ملازمت پیشہ سِول ملازمین اور دیگر اہل کاروں کی کیفیت لائی لگوں جیسی ہے۔جونہی کسی مزدور تحریک نے ملک اور سوسائٹی میں درپیش سُلگتے مسائل کو اپنی مہم کا حصّہ بنایا۔ ان کی بھاری تعداد اُن کی ہاں میں ہاں ملاتی اپنی آواز کواُن میں شامل کرتی ان کے پیچھے چلنے لگ پڑتی ہے۔ لیکن اگر انہیں کوئی راہنمائی نہ ملے تو حکمران طبقہ انہیں خوف اور رشوت کے ذریعے اپنے ساتھ ملالیتا ہے۔“
مان سنگھ باتیں کرتے کرتے دفعتاً رُک کر بڑی محبت بھری آواز میں بولا۔
”لو میں بھی کیسا بُھلکڑ ہوں، آپ لوگوں کو چائے پانی کا تو پُوچھا ہی نہیں۔ چلیں اُٹھیں۔ آپ کو دیسی کھانا کھلاؤں۔“
”ارے مان سنگھ جیتے رہو۔ میرے لہجے میں خود بخود ممتا کا رَس گھُل سا گیا تھا۔ ابھی برگر کھائے ہیں ذرا گنجائش نہیں۔ تم بات کرو۔اِن باتوں کی زیادہ ضرورت ہے۔“
دراصل طبقات میں بہت کشمکش ہے۔ ملک کی ایک کلاس وہ ہے جن کے آباء و اجداد کا تعلق ماضی کی شاہی ایلیٹ کلاس سے ہے۔اُنکے خوبصورت بڑے بڑے گھر، انکی اولادیں مہنگے ترین پرائیویٹ اداروں میں زیر تعلیم،اُنکے لئے بہترین ہسپتال، قیمتی گاڑیاں اور عیاشانہ طرززندگی سبھی کچھ ہے۔عام رُوسی اور اَپر کلاس رُوسی میں بُہت فرق ہے۔
رُوس کے نوجوان طبقے کو اِن دنوں میں میَں نے جس انداز میں دیکھا تھا اُسکے بارے میں بھی پوچھنا ضروری ہوگیا تھا۔
اکتوبر انقلاب غریب طبقے کی اُمید تھی۔یہ انقلاب جس سرعت سے کامیاب ہوا اسکی نظیر نہیں۔عام لوگوں کے جوش وخروش نے اپنی ساری توانائیاں اسمیں جھونک دیں تھیں۔سٹالن کے دور میں حیرت انگیز ترقی ہوئی۔ اب نوجوان نسل آذادی چاہتی ہے پر ساتھ ہی کاہل اور آرام طلب بھی ہے۔ جوُا، شراب نوشی، چوریاں اور غنڈہ گردی سب اُس کے لئے جائز ہیں۔شراب تو رُوسی ویسے بھی یوں پیتے ہیں جیسے پانی۔
مان سنگھ بُہت دیر تک بیٹھا باتیں کرتا رہا۔ چائے پانی کے لئے پھر مُصر ہوا۔ ہماری معذرت پر اُس نے اپنا کارڈ ہمیں دیا۔ پیٹرز برگ سے واپسی پر اپنے گھر آنے کی تاکید کی۔
”میرے گھرٹکر بھی کھانا ہے تے گلاں وی کرنیاں نیں ۔“
پر جاتے جاتے اُسن ے ہمارے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی تو سرکادی یہ کہتے ہوئے کہ”رجسٹریشن لیٹر کا پاس ہونا بہت ضروری ہے۔یہاں کی پولیس پوری چنڈال ہے۔انّی کانی۔نہ کچھ سنتی ہے نہ سمجھتی ہے۔ اٹھا کر بندی خانے ڈال دیتی ہے۔“
”ربّا نواں سیاپا۔“ (خدایا نئی مصیبت)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں