اکیسویں صدی کا طویل ترین چاند گرہن ۔۔۔۔۔محمد شاہ زیب صدیقی

ہم انسانوں کے لئے آسمان ایک ٹی وی سکرین جیسا ہے جہاں پر ہمہ وقت کائناتی کھیل بنا کسی وقفے کے جاری و ساری ہے۔ قدرت کے ان مظاہر کو دیکھ انسان شروع سے ہی حیران و پریشان رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ پہلے وقتوں میں جب سورج گرہن یا چاند گرہن لگتا تھا تو انسان طرح طرح کے توہمات میں پڑ جاتا تھا۔چونکہ ترقی کی داستان زیادہ پرانی نہیں لہٰذا آج بھی جدیدممالک میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جو مختلف قسم کے توہم پرست خیالات میں گرفتار رہتے ہیں ،گرہن کے اوقات میں معذور افراد اور حاملہ خواتین کے متعلق توہم پرستانہ خیالات زبان زدِعام ہیں ،یاد رہے کہ ان توہم پرستانہ خیالات کی نفی سائنس کے ساتھ ساتھ مذہب بھی کرتا ہےلہٰذا گرہن کے موقع پر ایسے خیالات رکھنے والوں کی کھُل کر حوصلہ شکنی کیا کریں۔

27جولائی2018ء کی رات کو21ویں صدی کا طویل ترین چاند گرہن لگنے جارہا ہے، یہ یقیناً ایک یادگار لمحہ ہوگا ایسا گرہن ہماری آنے والی 2 نسلیں بھی شاید دوبارہ اپنی زندگی میں نہ دیکھ پائیں۔ آئیں آج ہم سمجھتے ہیں کہ چاند گرہن لگتا کیوں ہے؟ ہمیں معلوم ہے کہ چاند کی اپنی روشنی نہیں ہوتی سو جب چاند گردش کرتا ہوا عین زمین کے پیچھے پہنچ جاتا ہے تو سورج کی روشنی چاند تک نہیں پہنچ پاتی لہٰذا چاند کو گرہن لگ جاتا ہے۔ اس تناظر میں اکثر یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ چاند تو ہرماہ زمین کے گرد گردش مکمل کرتا ہے تو پھر چاند گرہن ہر ماہ کیوں نہیں لگتا؟ تحقیق کی گئی تو اس کا جواب ہمیں یہ ملا کہ زمین چونکہ 23.5 ڈگری اپنے محور میں جھکی ہوئی ہے جس کی وجہ سے چاند کا مدار بھی تھوڑا tilt (جھکا ہوا)ہے (نیچے تصویر نمبر 1 میں آپ چاند کا مدار دیکھ سکتے ہیں) لہذا جب ہرقمری مہینے کی 14 تاریخ کو چاند چکر کاٹتے ہوئے زمین کے پیچھے پہنچتا ہے تو مدار کے tiltہونے کے باعث چاند زمین سے تھوڑا سا اوپر ہوتا ہے جس کی وجہ سے سورج کی روشنی چاند تک پہنچ جاتی ہے ، چاند کو گرہن لگنے سے بچا لیتی ہے اور یہی چاند ہمیں چودھویں کا چاند نظر آتا ہے،لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ زمین کی کشش ثقل اور سورج کے گرد گھومنے کی وجہ سے چاند کا مدار ڈگمگاتا رہتا ہے جس کی وجہ سے چاند سال بھر اپنا مدار بدلتا رہتا ہے ، اسی وجہ سے چاند چکر کاٹتے ہوئے جب زمین کے پیچھے پہنچتا ہے تو کبھی زمین سے اوپر ہوتا ہے اور کبھی زمین سے نیچے ہوتا ہے (جیسا آپ اوپر تصویر نمبر 2 میں دیکھ سکتےہیں) جب چاند اپنا مدار بدل رہا ہوتا ہے تو اِس دوران سال میں 2 بار چاند عین زمین کے پیچھے اس پوائنٹ پرپہنچ جاتا ہے جہاں پر اس کو سورج کی روشنی میسر نہیں ہوپاتی، لہٰذا زمین کا سایہ چاند پر چھا جاتا ہے اس دوران ہم کہتے ہیں کہ چاند گرہن لگ گیا ہے۔

اس مقام پر پہنچ کر اکثر ایک سوال ذہن کے دریچوں پر دستک دیتا ہے کہ اگر سورج کی روشنی چاند تک نہیں پہنچ رہی تو مکمل چاند گرہن کے دوران چاند کو غائب ہوجانا چاہیے مگر چاند نارنجی یا لال رنگ کا کیوں دِکھتا ہے؟ اس مظہر کا جواب ہمیں یہ ملتا ہے کہ سورج کی روشنی جب زمین کے atmosphere پر پڑتی ہے تو یہ مختلف رنگوں میں بٹ جاتی ہے ، blue رنگ چونکہ کم wavelength کاہوتاہے جس کے باعث یہ زیادہ دُور تک نہیں پھیل پاتاسو جو زمین کا حصہ سورج کے سامنے ہوتا ہےیہ اُدھرتک محدود رہتا ہےجبکہ red رنگ زیادہ wavelength کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ زمین کے کناروں تک پھیل جاتا ہےاور زمین کےپیچھے لال رنگ کا shadow بناتا ہے جسے ہم umbra کہتے ہیں(اوپر تصویر نمبر 3 میں دیکھ سکتے ہیں) لہٰذا جب چاند زمین کے سائے میں چھپتا ہے تو یہی لال رنگ اس چاند پر پڑتا ہے ،جس کی وجہ سے چاند گرہن کے دوران ہمیں چاند لال رنگ کا نظر آتا ہے اسے انگریزی میں خونی چاند (blood moon ) بھی کہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی وجہ ہے کہ سورج کے طلوع و غروب ہوتے وقت آسمان لال یا نارنجی رنگ کا ہوجاتا ہے کیونکہ ہم اس وقت (سورج کی روشنی پڑنے کے لحاظ سے) زمین کے “کناروں” والے حصے میں موجود ہوتے ہیں۔عام حالات میں چونکہ چاند پر سورج کی روشنی پڑ رہی ہوتی ہے جو کہ انتہائی تیز ہے اسی خاطر یہ لال رنگ کی روشنی اس وقت ہمیں چاند پر پڑتی نظر نہیں آتی۔ اگر مندرجہ بالا تمام معلومات کو سمجھا جائے تو ہم باآسانی بتا سکتے ہیں کہ کیوں مکمل چاند گرہن کے دوران چاند غائب نہیں ہوتا ۔
بہرحال مورخہ 27 جولائی کی رات اکیسویں صدی کا طویل ترین مکمل چاند گرہن ہو گا جس کا دورانیہ 6 گھنٹے 14 منٹ ہو گا،یہ گرہن یورپ، ایشیا،آسٹریلیا، افریقا، نارتھ امریکا اور انٹارکٹیکا میں بھی دیکھا جا سکے گا۔پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق چاند گرہن کی ابتدا رات 10 بجکر 14 منٹ پر ہوگی جبکہ 4 بجکر 28 منٹ یعنی سحری کے وقت چاند گرہن ختم ہو جائے گا۔پاکستان میں رات 1 بجکر 21 منٹ پر چاند گرہن کا نقطہ عروج ہو گا ۔یہ گرہن پاکستان کے تمام علاقوں میں دیکھا جا سکے گا۔الیکشن کی گہماگہمی سے نکل کر اس نظارے کو لازمی دیکھیے گاکیونکہ اتنے طویل گرہن کا نظارہ انسانیت کو دوبارہ اگلے سو سال تک دیکھنے کو نہیں ملےگا!

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply