اختلاف برائے اختلاف /حفیظ نعمانی

کانگریس کا وزیر اعظم مودی سے یہ مطالبہ ہی غلط تھا کہ اگر وہ سیکولر امیدوار کو صدر بنانے کا فیصلہ کریں تو ہم ان کی حمایت کریں گے اور متفقہ انتخاب ہوجائے گا یہ مقابلہ کوئی بری چیز نہیں ہے لیکن مقابلہ ایسا ہو جیسا امریکہ میں ہوا کہ آخر وقت تک قیاس اور پیشن گوئی کچھ تھی اور نتیجہ کچھ نکلا۔ کانگریس مان رہی ہے کہ مودی جس کو بھی اُمیدوار بنائیں گے اس کی جیت یقینی ہے اور اس سے اہم بات یہ ہے کہ کانگریس مقابلہ کی پارٹی نہیں بلکہ مقابلہ کی سابق پارٹی ہے۔ وہ اکیلے تو کسی گنتی میں بھی نہیں ہے ساڑھے پانچ سو کے ہاؤس میں جس کی پچاس سیٹیں بھی نہ ہوں وہ پارٹی کیا؟ رہی اپوزیشن کی طاقت تو وہ کون ہے جو ان کو دل سے چاہتا ہو؟ ہر پارٹی سے ان کی دشمنی رہ چکی ہے اور ہر صوبہ میں جو پارٹی حکومت کررہی ہے اس نے کانگریس سے ہی وہ صوبہ چھینا ہے۔ اب جو اس کے ساتھ کہے جاتے ہیں وہ ایسے دوست ہیں جو اس پر رحم کھاتے ہیں اور اپنی ضرورت کے لئے اسے زندہ رکھنا چاہتے ہیں اس لئے کہ وہ برسو ں ملک کی سب سے بڑی پارٹی رہی ہے اور لوگ اسے جانتے ہیں ۔ جیسے اکھلیش یادو سے اس کا رشتہ یہ ہے کہ اکھلیش نے اسے خیرات دی تھی یہی بہار میں لالو یادو اور نتیش کمار نے کیا۔ اب ان میں سے کون ہے جو اُن کے اشارہ پر اُن کے ساتھ جائے گا؟

کانگریس نے دلت کارڈ کا جواب کسان کارڈ سے دینے کی بات کی ہے۔ کسان تو سب ہیں اور کسان نہ کوئی مذہب ہے نہ برادری۔ اس کے لئے سب سے معقول امیدوار حامد انصاری ہوتے جن کے بارے میں پانچ سال پہلے سونیا گاندھی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ایک نہیں بار بار کہا تھا کہ کانگریس کے دو اُمیدوار ہیں پرناب مکھرجی اور حامد انصاری۔ حامد انصاری صاحب اس وقت نائب صدر تھے اس لئے زیادہ حقدار وہ تھے۔ لیکن سونیا گاندھی اور کانگریس نے نہ صرف ان کو صدر نہیں بنایا بلکہ بے عزت کیا کہ جب پرناب مکھرجی کے نام کا اعلان کیا اور ان کے کاندھے پر شال ڈالی تو دور دور تک حامد انصاری نہیں تھے جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ان کی بھی تائید دکھائی جاتی اور ایک شال وہ بھی ڈال دیتے۔ اور اس کے بعد دوبارہ انہیں نائب صدر بنانا اور انصاری صاحب کا اسے قبول کرلینا دوسری بے عزتی تھی۔

سب سے پہلے نائب صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن تھے انہیں جب یہ خبر ملی کہ ڈاکٹر راجندر پرساد پھر صدر بنائے جارہے ہیں تو انہوں نے پنڈت نہرو سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ میں دوسری بار نائب صدر نہیں رہوں گا۔ یہ بات مولانا آزاد سے اس وقت کہی گئی جب انہوں نے فیصلہ کن لہجے میں کہہ دیا کہ راجن بابو ہی دوبارہ صدر ہوں گے۔ اور جب کہا گیا کہ ڈاکٹر رادھا کرشنن دوبار نائب صدر رہنے پر تیار نہیں ہیں تو مولانا نے کہا کہ اسے میرے اوپر چھوڑ دیجئے اور پھر مولانا نے نائب صدر کو چائے پر بلایا اور کوئی نہیں جانتا کہ مولانا نے چائے کے ساتھ کیا پلایا کہ وہ مان گئے۔ کانگریس کے سامنے ایک عذر تھا کہ وہ کارڈ نہیں کھیل رہی ہے بلکہ ایک قابل نیک نام اور ملک کے محترم اس نائب صدر کو جو دس برس سے دس عہدہ پر ہیں صدر بنا رہی ہے اور یہ شرافت کا انعام ہے۔ ایسی صورت میں کیا مایاوتی یا نتیش کمار کی یہ ہمت تھی کہ وہ مخالفت کرتے؟ اور وہ شیوسینا جسے کانگریس گلے لگانے کے لئے بیتاب ہے اور جو اب مہاراشٹر میں مسلمانوں کو ٹکٹ دے کر ساتھ پرانی تلخ یادوں کو ختم کرنا چاہ رہی ہے اس کا تعاون بھی مل سکتا تھا اور کانگریس کو مسلم ووٹ بینک اور مسلم کارڈ کا طعنہ نہ ملتا۔ اس لئے کہ آج تک بی جے پی کے کسی نے انصاری صاحب کے بارے میں ایسی بات نہیں کہی ہے کہ وہ کانگریس کا ساتھ دیتے یا دوسری پارٹیوں کو کم موقع دیتے ہیں ۔

یہ ضرور ہے کہ کانگریس اب کچھ بھی کرے مسلمان اس پر بھروسہ نہیں کریں گے مسلمان نے جتنا اور جن حالات میں کانگریس کا ساتھ دیا ہے وہ آقا اور غلام کی تاریخ میں تو مل سکتا ہے لیکن رفاقت اور تعاون کے تعلق میں نہیں مل سکتا۔ پاکستا ن بنوانے کی سزا دینے میں کانگریس اندھی ہوگئی۔ اس کے تمام بڑے لیڈر ان محترم مسلمانوں کو خوب جانتے تھے جنہوں نے کانگریسی ہندوؤں سے زیادہ پاکستان کی مخالفت کی۔ پاکستان کی مخالفت میں کانگریسی ہندو کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ اور مسلمان نے صرف سیاست کے اعتبار سے ہی نہیں مذہب کو بھی سامنے لاکر رکھا اور کہا کہ پاکستان میں اسلام کی مخالفت مسلم لیگی ہی کریں گے۔ ان کی دلیل تھی کہ جو پاکستا ن کی تحریک کا قائد اعظم ہے جب وہ دین کے بارے میں الف ب بھی نہیں جانتا تو کون اسلام کی حفاظت کرے گا؟ اور آج دنیا کے مسلمان دیکھ رہے ہیں کہ نام تو اسلام کا ضرور ہے صدر مقام بھی اسلام آباد ہے لیکن جس وزیر اعظم یا سفیر کی بات سنو وہ صرف اور صرف انگریزی ہوتی ہے اور وہ اُردو جو ہندوستان میں اس لئے ختم کی گئی کہ وہ پاکستان کی سرکاری زبان ہے اسے ہندوستان کا ہندو تو بولتا ہے مگر پاکستان کا مسلمان لیڈر نہیں بولتا۔ اور عام زندگی کا یہ حال ہے کہ نہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال اور نہ عصمت۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن کانگریس نے جیسی احسان فراموشی کی اس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے کہ وہ جو بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک میں مسلمان شہید کئے گے ان میں ممبئی کے بھی دو ہزار سے زیادہ مسلمان شہید کئے گئے۔ اور جب اس قتل عام کو روکنے کے لئے لڑکوں نے بم دھماکے کئے جس میں صرف 263 ہندو مرے تو پوری حکومت پاگل ہوگئی۔ اس کے جرم میں پھانسی بھی ہوچکی سزائیں بھی چل رہی ہیں ۔ اور اب ابوسلیم اور اس کے ساتھیو ں پر ان ہی بم دھماکوں کا مقدمہ چلے گا۔ اگر ان کے بعد داؤد ابراہیم بھی ہاتھ آجائے تو اس کے اور اس کے درجنوں ساتھیوں کے خلاف پھر مقدمہ چلے گا پھانسی دی جائے گی لیکن دو ہزار مسلمانوں کے وہ قاتل جن کے بارے میں جسٹس شاہ نے صاف صاف لکھا ہے ان سے یہ بھی معلوم نہیں کیا جاتا کہ کیا واقعی تم نے مسلمانوں کو قتل کیا تھا۔ اور یہ وہ تلوار ہے جو مسلمان اور کانگریس کے درمیان رکھی ہے غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے ہی اس پر چل سکتے ہیں دوسرا کوئی مسلمان کہاں سے ایسی کھال لائے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جیتنے کے لئے تو حامد انصاری کا نام کیا لیا جاتا، ہارنے کے لئے بھی نہیں لیا گیا۔ اور عقل ماری جانے کا حال یہ ہے کہ کسان کارڈ کھیلا جارہا ہے۔ اس سے کہیں اچھا تھا کہ صدر کو بلامقابلہ منتخب ہوجانے دیتے۔ مودی کو جب اتنی اکثریت حاصل ہورہی ہے تو صدر کوئی بھی ہوتا وہی کرتا جو حکومت کہتی اور اب بھی وہی ہوگا لیکن نقصان صرف مسلمان کا ہوگا کانگریس تو کب کی ہندو پارٹی بن چکی ہے وہ خود بغیر اعلان کے ’’ہندوتو‘‘ (fgUnqRo) کے نظریہ کو اپنائے ہوئے ہے۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply