باقی سب چھوڑو، بس فوج کو گالی دو۔۔۔۔آصف وڑائچ

میرے کچھ دوست کہتے ہیں کہ جس طرح ہم دن رات سوشل میڈیا پر فوج کو گالیاں اور کوسنے دیتے رہتے ہیں ایسے تم بھی دیا کرو.
میں انہیں کہتا ہوں کہ اچھا چلو آپ کی بات مان لیتا ہوں اور آج سے میں بھی فوج پر اتنے ہی گھٹیا اور گرے ہوئے جملے کستا   ہوں جتنی میری گرنے کی حد ہو گی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح ملک کے معاشی مسائل کا حل نکل آئے گا؟ فوج کو گندا کرنے سے کیا دنیا میں ہم پاک صاف دکھائی دینے لگیں گے. کیا دنیا میں ہمارا  وقار  بلند ہو جائے گا. کیا تمام داخلی اور خارجی معاملات بخیر خوبی انجام پا  جائیں گے؟ اسرائیل، امریکہ اور بھارت ہمارے آگے سر  جھکانے لگیں گے؟کیا واقعی؟
اور  یہ جو تم رنگ برنگی برادریوں، ذاتوں، فرقوں اور بھانت بھانت کے مسلکوں والے پولیٹیکل سائنس سے نا بلد سیاستدان لئے پھرتے ہو  جو  سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ایک دوسرے پر کفر کے فتوے اور غداری کے چارج لگاتے ہیں کیا واقعی اس قابل ہیں کہ حقیقی جمہوریت لے آئیں گے؟ ملک کو صحیح معنوں میں ایک فلاحی ریاست بنا دیں گے؟ مذہبی و لسانی تعصب مٹ جائیں گے اور نفرتیں پلک جھپکتے ختم ہو جائیں گی؟
اور اس کی کیا گارنٹی ہے کہ جب میں سوشل میڈیا پر بیٹھا فوج کو گالی دے رہا ہوں گا  تب جمہوریت کا علمبردار میرا  لیڈر کسی ایجنسی سے خفیہ میٹنگ نہیں کر رہا ہو گا؟
یعنی آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی روڈ سے ملحقہ چوک سے چند گز   دور سخت گرمی میں چیک پوسٹ پر کھڑے فوجی جوان کو جو کہ میری ہی حفاظت کے لئے کھڑا ہے صرف اس لئے گالی دوں کہ میرا جمہوری لیڈر  ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں اپنے مخملی بستر پر لیٹے لیٹے کسی جج کو فون پر خرید سکے؟
سوچنے کی بات ہے کہ   جب ہر شخص دن رات فوج کے خلاف لکھنا شروع کر دے گا تو آہستہ آہستہ اشتعال اور نفرت کا گراف اسقدر بڑھ جائے گا کہ سڑکوں، چوراہوں حتیٰ کہ ہماری سرحدوں کی حفاظت پر کھڑے جوانوں کو بھی لوگ پہلے نفرت کی نظر سے دیکھنا شروع کریں گے اور پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگ اپنی ہی فوج پر مشتعل ہو کر دست درازی شروع کر دیں گے. تب ذرا سوچئے کہ اس ملک کی کیا درگت بنے گی. کیا وہ جوان اخلاص کے ساتھ ہماری حفاظت کر پائیں گے؟ کیا خانہ جنگی کا خدشہ نہیں پیدا ہو جائے گا؟

میرے شامی دوست بتاتے ہیں کہ  اس وقت آدھا شام  راکھ اور مٹی کا ڈھیر بن چکا ہے. وہ کہتے ہیں کہ جب لوکل عوام نے سرکاری فوج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو شروعات  سوشل میڈیا اور پرنٹ نیٹ ورکنگ سے ہوئی پھر دیکھتے ہی دیکھتے لوگ جوق در جوق  ملتے گئے اور سرکاری دفاتر اور بشار الاسد کے محلات کے سامنے حکومت اور سرکاری فوج کو گالیاں دینے لگے پھر نوبت توڑ پھوڑ اور ہاتھا پائی تک پہنچ گئی. پھر پتا نہیں کہاں سے اسلحہ بردار جتھے بھی وارد ہو گئے اور باقاعدہ سرکاری افواج اور املاک پر مسلح حملے شروع ہو گئے. ہم بھی کسی نہ کسی بہانے باغیوں کا بھرپور ساتھ دے رہے تھے کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ بشار الاسد کو سرکاری فوج سمیت سبق سکھانا چاہئیے لیکن جب حالات خراب ہوئے تو کچھ بھی قابو میں نہ رہا، افراتفری اسقدر بڑھی کہ ہمارے اپنے گھر اور رشتے دار بھی خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گئے. بیرونی طاقتوں نے بھی ہمارے ملک میں دھاوا بول دیا پھر کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کون کہاں سے آ رہا ہے اور کسے مار رہا ہے. ہمارے دیکھتے دیکھتے سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا. ہم نے سوچا کچھ اور تھا لیکن بن کچھ اور گیا.
حتیٰ کہ ہم نے یو ٹرن لیا اور دوبارہ اپنی سرکاری فوج کی ہی سپورٹ شروع کر دی.آج ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنی سرکاری فوج کے خلاف سوچے سمجھے بغیر اندھی بغاوت نہیں کرنی چاہیے تھی آج ہم اپنی اس سنگین غلطی پر پچھتا تے ہیں اسی لیے ہم نے واپس بشار الاسد کی حمایت شروع کی ہے جس کے نتیجے میں اب حالات واپس معمول پر آ رہے ہیں.

دوستو!   مجھے آپکی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے. لیکن اس میں بھونڈے انداز اپنانے کی بجائے کیا ہم کوئی ایسا طریقہ نہیں ڈھونڈ سکتے جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے؟
میں سمجھتا ہوں کہ اگر سیاستدان ہوش کے ناخن لیں اور ملک و قوم کے ساتھ واقعی مخلص ہوں تو یہ اتنا مشکل بھی نہیں، لیکن رونا تو یہی ہے کہ ہمارے سیاستدان خود کسی گھڑے کا ڈھکن نہیں.
میں یہ نہیں کہتا کہ سبھی سیاستدان برے ہیں یقیناً ان میں چند اچھے بھی ہونگے لیکن کیا مجھے کوئی قائل کر سکتا ہے کہ موجودہ سیاسی چمچے، کڑچھے سیاسی گرگے نہیں بلکہ جمہوریت اور شرافت کے پرتو ہیں؟
مجھے ان دوستوں پر حد درجے حیرت ہے جنہیں اچانک راتوں رات نواز شریف کے اندر جمہوریت کا مسیحا دکھائی دینے لگا ہے. کیا ن لیگ کی فتح واقعی جمہوریت کی فتح ہو گی؟
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ن لیگ نے تیس سالوں کی حکومت میں جمہوریت کے لئے کتنی زمین ہموار کی ہے ؟
اگر  ن لیگ واقعی ایک نظریاتی جماعت ہوتی ہر الیکشن میں بار بار انہیں خود کو نظریاتی کہہ کہہ کر عوام کو باور نہ کروانا پڑتا.

Advertisements
julia rana solicitors london

جو  دوست یہ مفروضہ پیش کرتے ہیں کہ صاحب جمہوریت کو چلنے تو دیجیئے آہستہ آہستہ سب پرزے اپنی اپنی جگہ ٹھیک بیٹھ جائیں گے. ان سے درخواست ہے کہ ذرا خوابوں کی دنیا سے باہر نکل کر زمینی حقائق بھی ملاحظہ فرمائیں. فوج کہیں پاتال میں جا کر نہیں بیٹھنے والی، وہ ہمارے ہی بیچ سے بنی ہے اور ادھر ہی رہے گی جبکہ فیوڈل اور سرمایہ دار گماشتوں پر مشتمل سیاسی مافیاز بھی غریب آدمی کے لئے اپنا قیمتی وقت اور انرجی برباد نہیں کرنے والے، کیونکہ جب تک یہ مافیاز ہیں یہ کسی بھی مخلص اور عام آدمی کو آگے نہیں آنے دیں گے کیونکہ اگر متوسط اور غریب طبقے کے نمائندے اسمبلیوں تک پہنچ گئے تو پھر مخدوموں، زرداریوں، لغاریوں، مزاریوں، چوہدریوں، سرداروں اور سرمایہ کاروں کا کاروبار کیسے چلے گا.
تو میرے دوستو کسی غلط فہمی میں نہ مارے جانا کہ فلاں لیڈر آئے گا تو یوں ہو جائے گا اور ووں ہو جائے گا، یہ سیاسی بساط ہے جس پہ ہر اسٹیک ہولڈر اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں، ہم اور آپ تو محض پیادے ہیں جنہیں کبھی بھی خطرہ دیکھ کر مروایا جا سکتا ہے
لہذا موجودہ سیاسی گماشتوں کے ہوتے ہوئے یہاں کچھ بھی بدلنے والا نہیں اس لئے خوامخواہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں. الیکشن آتے جاتے رہتے ہیں اپنے دل و دماغ ٹھنڈے رکھیے، دوستیاں قائم رکھیے کیونکہ دوستیاں اور مروتیں زیادہ اہم ہوتی ہیں اور آڑے وقت میں یہی کام آتی ہیں. رہے نام اللہ کا!

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply