دھاندلی کی سائنس کے اسپائی ماسٹرز۔۔۔ ناصر منصور

معروف معنوں میں انتخابی دھاندلی اور من پسند نتائج کے حصول کی ابتدا فوجی آمرجنرل ایوب کے دور سے ہوئی اور یہ آج تک جاری ہے۔ملک میں کوئی انتخابات ایسے نہیں گزرے جس کے نتائج عوام کے لیے عمومی طور پر قابلِ قبول رہے ہوں ۔ایوب خان نے بالا واسطہ طریقہ انتخاب کے ذریعے بڑے پیمانے پر انتخابی بے ضابطگیوں کے ذریعے اپوزیشن کی مشترکہ امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کوشکست سے دوچار کیا ۔فوجی آمریحییٰ خان نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جس کے نتیجہ میں ریاست پاکستان کا جغرافیہ ہی تبدیل ہوگیا ۔ایک اور فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے ریفرنڈم کے ذریعے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ،پھر اسی آمرنے غیر جماعتی الیکشن کے ذریعے جمہوری بنیادوں پر کاری ضرب لگائی ۔جنرل حمید گل نے کھلے عام آئی جی آئی بنائی اور جمہور سے حقِ حاکمیت کا اختیار چرانے کی کوشش کی ۔جنرل بیگ اور جنرل اسد درانی نے مہران بینک کے ذریعے پیسے تقسیم کر کے عوام کے جمہوری حق پر ڈاکہ ڈالا جب کہ ملک سے فرار جنرل مشرف نے اپنے دور آمریت میں ایک بار پھر ضیا مارکہ بدنام زمانہ ریفرنڈم کے ذریعے عوامی امنگوں کا تمسخر اڑایا ۔لیکن جب الیکشن کرائے تو نہ صرف الیکشن میں بے جا پیوند کاری کی گئی بلکہ سیاسی جماعتوں کے منتخب نمائندوں کو نیب کے ذریعے ڈرا دھمکا کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی اور مسلم لیگ کی کوکھ سے ایک نئی جنم شدہ ق لیگ کو اقدار میں حصہ دار بنا لیا ۔
ووٹ چرانے کا یہ سلسلہ آمرانہ ادوار میں تو براہ راست کارروائیوں کے ذریعے جاری رہا لیکن منتخب حکومتوں کے ادوار میں بھی مخصوص جماعتوں کو اقتدار میں لانے کے لیے مختلف حیلے بہانوں سے مخالفین کو شکست سے دوچار کیا گیا ۔ اس عمل میں جو مقتدر ہ حلقے ملوث رہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔اس ساری غیر جمہوری پیوند کاری کے نتائج سماج میں بے یقینی ،سیاسی انتشار اور معیشت میں پے در پے بحران کی شکل میں نمودار ہوئے رہے ہیں ۔
آج جب الیکشن کا انعقاد ہونے جا رہا ہے حالات اور طریقہ کار میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہو رہی ۔اس بار بھی غیر جمہوری پیوندکاری کا طریقہء کار کچھ مختلف نہیں ۔ماضی کی نسبت اس بار نہایت بھونڈے مگر اعلانیہ طریقے سے انتخابی عمل سے بہت پہلے دھاندلی کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔2013کے الیکشن کے فوراََ بعد نئے الیکشن میں من پسند نتائج کے
حصول کے لیے منصوبہ بندی کرنا شروع ہو گئی ۔

ماضی ہی کی طرح منتخب حکومت کے ریاستی و حکومتی امور چلانے کو نہ ناممکن بنایا گیااس سلسلے میں دھرنے اور پھر عدالتی تحرک نے اس صورتحال کو مزید واضح کر دیا کہ مقتدرہ قوتیں کیا گل کھلانا چاہتی ہیں ۔ابھی اگر کسی شک وشبہے کی گنجائش تھی بھی تو اسے بلوچستان میں راتوں رات حکومتی تبدیلی ،سینٹ کے الیکشن اور سینٹ کے چیئر مین کے انتخاب نے آئینہ دکھا دیا کہ مستقبل میں کس قسم کا سیاسی منظر نامہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔

اب انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی مقتدرہ حلقے پوری قوت سے میدان میں کود پڑے ہیں اور انھیں نام نہاد نگران سیٹ اپ ،عدلیہ اور انتظامیہ کی مکمل معاونت میسر ہے ۔ایک سیاسی جماعت اور اس کے ہم نواؤں کو فتح یاب کرنے کے لیے تمام مخالف سیاسی قوتوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے خوفزدہ کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں الیکشن سے پہلے ہی سنجیدہ سیاسی حلقوں نے امڈتے سیاسی بحران کی پیشن گوئی کر دی ہے ۔الیکشن سے پہلے من پسند نتائج کے لیے کھلے عام سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی جا رہی ہیں ،عجلت میں عدالتی فیصلے حاصل کیے جا رہے ہیں۔ عدالتوں، میڈیا ہاؤسز کو نہ صرف مانیٹر کیا جارہا ہے بلکہ کہا یہ جارہا ہے کی انہیں احکامات بھی جاری ہو رہے ہیں. صحافیوں اور ان کے ادارے پر زبردست دباؤ ڈال کر خبروں کا گھلا گھونٹا جا رہا ہے ۔ اخبارات اور چینلز کو غیر اعلانیہ پابندیوں کا سامنا ہے ۔ بعض اخبارات کی ترسیل کو جبراً روکا جارہاہے. اس ساری صورتحال میں کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ الیکشن اپنے انعقاد سے بہت پہلے ہی متازعہ ترین بن چکے ہیں اور اس سلسلے میں انگلیاں ایک ہی سمت اٹھ رہی ہیں۔ یہ وہ سمت ہے جس کے بارے میں بات کرنا پاکستان میں انگاروں پر انگلی رکھنے کے مترادف ہے ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ انگاروں پر انگلیاں رکھنے والوں اور ان کے ہم دردوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے.
آج کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ صورت حال میں منعقدہ الیکشن میں تمام تر غیر قانونی اور غیر آئینی ہتھکنڈوں کے باوجود سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ممکن ہے ۔ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ مقتدرہ قوتوں کی تمام تر مداخلت کے باوجود کئی بار عوام نے من پسند نتائج نہیں نکلنے دیا یا پھر جزوی طور پر ناکام بنایا.. ایسا بھی ہوا کہ جب من پسند نتائج تو حاصل کر لیے لیکن اس کے خطرناک سیاس سماجی اور جغرافیائی اثرات کا خمیازہ آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے ۔

بلوچستان ، خیبر پختونخوا ، قبائلی علاقوں اور سندھ کے شہروں میں موجود بے چینی اس امر کی متقاضی ہے کہ بحرانی کیفیت کو نئی انتہاؤں پر لے جانے سے گریز کیا جائے لیکن اس خرابے میں تغیر کی زبان سمجھنے میں ہمیشہ دیر ہو جاتی ہے ۔ مقتدرہ قوتیں جس بھرتے سماجی زخم کو کھروچنے کی بار بار کوشش کر رہی ہیں وہ بالآخر ناسور بن جائے گا جس کا علاج موجودہ سماجی و آئینی میں ممکن نہیں رہے گا.

Advertisements
julia rana solicitors london

اس بار اس سوال کے حتمی جواب آنے کے امکانات موجود ہیں کیوں کہ مقتدرہ قوتوں کی جمہور دشمن کارروائیوں کا ادراک گلی محلوں تک عام ہو کا ہے اور عوام کا ایک بڑا حصہ اسے جمہوری عمل کے لیے زہرِقاتل گردانتا ہے اور تیزی سے ایسی سیاسی قوتوں کے گرد جمع ہو رہا ہے جو ملک میں غیر منتخب قوتوں کی ریاستی و حکومتی معاملات میں بے جا دست درازی کا راستہ روک رہی ہیں اور منتخب سویلین بالا دستی کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں. اس کا بھرپور اظہار 25 جولائی کو ڈالے جانے والے ووٹ میں ہوگا۔ اگر عوامی اور جمہوری منشا کو مصنوعی طریقے سے تبدیل کرنے کی کوشش الیکشن کے دن اور ا س کے بعد بھی جاری رہی تو نئی بحرانی کیفیت جنم لے گی جو ہمارے ملک کے سب سے ابھرے سماجی تضاد یعنی سویلین غیر سویلین بالادستی میں کیفیتی تبدیلی کے امکانات پیدا کر سکتی ہے

Facebook Comments

ناصر منصور
محنت کی نجات کے کوشاں ناصر منصور طالبعلمی کے زمانے سے بائیں بازو کی تحریک میں متحرک ایک آدرش وادی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply