بلوچستانی ملازمین اور قبائلی نفسیات

چونکہ سرمایہ داری میں تاخیر سے داخل ہونے کے باعث پاکستان میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص، سرمایہ داری کی عدم اہلیت کی بنا پر انڈسٹریلائزیشن مکمل نہ کی جاسکی جو ایک سرمایہ دارانہ ملک میں سرمایہ داروں کی اولین ترجیح اور ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ نہ تو سماجی حالات میں کوئی خاطرخواہ تبدیلی لائی جاسکی، نہ تعلیم میں معیاری پیشرفت کی ضرورت کا احساس کیا گیااور نہ ہی ایک شہری ماحول کا قیام عمل میں لایا جاسکا۔ یوں سرمایہ داری نظام بلوچستان کے قبائلی معاشرے کا کچھ نہ بگاڑ سکا جبکہ انڈسٹریلائزیشن کی عدم تکمیل سے قومیتوں اور قبائل کا ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل جانا بھی ممکن نہ ہوسکا، جو سماج کی پیشرفتہ ذہنی معیار کی استواری اور ارتقاء کا ضامن بن سکتا تھا۔ اس نظام زر میں معیشت کا کنٹرول جن قوتوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے سیاست پر تمام تر غلبہ بھی انہی کا ہوتاہے۔ لیکن قومی سرمایہ دار کی اس تاریخی کمزوری کی وجہ سے ملکی معیشت پر ان کی گرفت مضبوط نہ ہوسکی ، جس کے باعث ایک ایسا خلاء پیدا ہوا جسے فوجی نیتاؤں نے پُر کر دیا۔ اس کا براہ راست نتیجہ فوجی مداخلتوں اور آمر حکومتوں کی صورت میں نکلا۔ اس طرح طاقت کو اپنے قابو میں کرتے ہوئے فوج کے بالادست طبقے نے اپنے آپ کو سیاسیات کا بھی چیمپئن سمجھنا شروع کیا مگر عمل میں ہمیشہ فوجی ماحول سے مغلوب رہتے ہوئے طاقت کو مقدم سمجھا گیا۔ لہٰذا کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے طاقت کے استعمال کو ہمیشہ فیصلہ کن حیثیت حاصل رہی جو بذات خود نفسیات کی کارستانی ہے۔

نفسیات پر کسی کا زور نہیں چلتا۔ وجہ یہ ہے کہ ماضی کے اعمال مرد و زن کے اذہان پر جو اثرات مرتب کرتے ہیں وہی ان کی نفسیات کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس کی ایک واضح اور خوبصورت مثال بلوچستان میں قبیلوی زندگی ہے جو اب بھی بہت حد مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ جہاں لوگ آج بھی اپنے ناموں کے ساتھ اپنے قبیلوں کے نام بطور شناخت و افتخار استعمال کرتے ہیں۔ بلوچستان میں وزراء، ایم پی ایز اور بیوروکریسی سمیت، جن میں پڑھے لکھے، کم پڑھے لکھے، مدرسے کے تعلیم یافتہ اور دیگر ان پڑھ لوگ بھی شامل ہیں، سبھی کی ذہنی کیفیت میں کوئی نمایاں فرق دکھائی نہیں دیتا۔ قبائلی نفسیات کے زیر اثر یہ تمام افراد کسی بھی معاملے کو اپنی ذہنی کیفیت کے مطابق انجام دینے پر مجبور ہیں۔ اس پسماندہ قبائلی نفسیات کے زیر اثر جب عام آدمی ایک کار کا مالک بن جاتا ہے تو اس کی توقعات میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کا احترام کریں۔ ایسے میں وہ اپنے آپ کو میر صاحب یا ملک صاحب کہلوانا زیادہ پسند کرتا ہے۔ اسی طرح بعض لوگ اپنی جہالت اور محرومی کو”حاجی صاحب” کے لاحقے میں چھپا کر تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیوں کہ جب انہیں ایسے القاب سے یاد کیا جاتا ہے تب وہ اپنے آپ کو نہ صرف معتبر محسوس کرنے لگتے ہیں بلکہ انہیں ایک طرح سے تسکین کا بھی احساس ہوتا ہے۔

ان کی توقعات میں مزید اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب انہیں کسی قسم کے فیصلے کا اختیار حاصل ہوجائے۔ تب ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جو بھی فیصلہ کریں، کسی کواس پر کوئی اعتراض نہ ہو ورنہ ان کی سبکی ہوگی۔ یوں وہ ڈکٹیٹر بن جاتے ہیں۔ لہٰذا اپنے ہر فیصلے کو من و عن قبول کروا کر اپنی برتری کے احساس میں مدہوش رہتے ہیں۔ اسی نفسیات کی بدولت بلوچستان میں ہر وزیر، ایم پی اے، ایم این اے اور بیوروکریٹ خبط عظمت میں مبتلا ہے اور وہ سرکاری ملازمین کو اپنے گھریلو نوکر کی مانند دباکر اور کھینچ کر رکھنے کا خواہشمند ہے تاکہ وقتی طور پر اپنا رعب اور دبدبہ برقرار رکھ سکے۔ اگرچہ عام لوگوں کی اکثریت قبائلیت کے حصار سے کافی حد تک نکل چکی ہے اور وہ آزادانہ طور پر ملک اور صوبے کے مختلف علاقوں میں روزگار میں مصروف ہیں، مگر قبائلی نفسیات ابھی بھی پوری طرح شکست نہیں کھا سکی۔ اس لیے وزراء سرکاری ملازمین کواپنا ذاتی نوکر سمجھتے ہوئے نہ صرف ان کے جائز حقوق سے انکار کرتے ہیں بلکہ انہیں نیچا دکھاکر اور اپنے سامنے جھکا کر اپنی انا کی تسکین بھی کرتے ہیں۔

بلوچستان میں محکمہ پولیس میں کام کرنے والے، محکمہ صحت سے وابستہ پیرامیڈیکس اور دیگر محکموں کے درجہ چہارم کے ملازمین کی حالت بیگار کرنے والوں کی مانند ہے، جن کا سروس اسٹرکچراپ گریڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسی گریڈ میں ریٹائر ڈ یا فوت ہو جاتے ہیں جس گریڈ میں ان کی بھرتی ہوئی ہوتی ہے ۔ اس کے برعکس وزارتوں پر براجمان، نام نہاد جمہوری و سیاسی پارٹیوں کے افراد اور بیوروکریسی صرف اپنی جھوٹی انا کی تسکین کی خاطر ملازمین کے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ کرکے ان کے حقوق سلب کرکے سکون محسوس کرتے ہیں۔ پولیس اور درجہ چہارم کے ملازمین کے ساتھ ظلم یہ ہے کہ ان کی اپنی کوئی یونین یا ایسوسی ایشن نہیں، اس لیےان کی بڑی اکثریت دیگر یونینوں میں رہ کر جدوجہد کرنے پر مجبورہے۔ اس کے باوجود آج تک ان کے حقوق کے لیے کسی قسم کی حقیقی کوشش نہیں کی گئی۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن یونینوں اور ایسوسی ایشنوں سے درجہ چہارم کے یہ ملازمین وابستہ ہیں انہوں نے ان کو اکثر اپنے مفادات کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

صوبہ بلوچستان میں جن ملازمین کوسب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے، ان میں پیرامیڈیکس اور محکمہ پولیس کے ملازمین سر فہرست ہیں۔ اگر ان ملازمین کی حالت زار پر توجہ نہیں دی گئی تو ان کے ساتھ ہونے والی یہ ناانصافیاں آنے والے سالوں میں کسی بڑی بغاوت اور تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ شاید اسی وقت ہمارے وزراء، ایم پی ایز اور بیوروکریسی کی آمرانہ نفسیات بھی ٹوٹ کر بکھر جائے۔

Facebook Comments

علی رضا منگول
بلاگر ایک ٹریڈ یونین ایکٹوسٹ اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین کے کوئٹہ کے لیے آرگنائزر ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply