آئیے غلطیوں سے سیکھیں

کچھ عرصہ قبل مکالمہ پر نسوانی ہم جنس پرستی کے حوالے سے ایک محترمہ نے کالم لکھا۔ وہ کالم اپنے مواد کے حوالے سے ایسا تھا کہ مکالمہ کے سب سے زیادہ پڑھے گئے پانچ سات کالمز میں شمار ہوتا ہے۔ وہ سلسلہ دراصل تین قسطوں کے کالم کی پہلی قسط تھی مگر وہیں پر منقطع کر دیا گیا۔ اسکے چھپنے کے تیسرے دن مجھے ایک خاتون نے انباکس کیا اور کہا،
“محترم انعام رانا، مجھے امید ہے کہ آپ مذکورہ کالم کی کامیابی پر بہت خوش ہوں گے۔ میں خیبر پختونخواہ کے ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتی ہوں۔ میرا خدا جانتا ہے کہ کس قدر مشکل اور درخواستوں کے بعد میں اپنے باپ کو منا پائی کہ مجھے ۔۔۔۔ یونیورسٹی جا کر پڑھنے دیں۔ میں ہاسٹل میں رہتی ہوں، شاید سینکڑوں لڑکیوں میں سے کچھ ہم جنس پرستی میں ملوث ہوں، مگر کیا آپ نے سوچا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا یہ کالم کیا اثرات رکھتا ہے؟ اگر یہ کالم میرے باپ تک پہنچا تو کیا میں تعلیم جاری رکھ پاؤں گی؟ کیا وہ بہت سی بچیاں جو پڑھنا چاہتی ہیں، ایسے کالمز کی وجہ سے خوفزدہ یا گمراہ والدین کی اجازت لے پائیں گی؟ آپکے کالم کی وقتی کامیابی نجانے کتنی لڑکیوں کی تعلیم برباد کر جائے گی، سوچیے گا ضرور”۔
دوستو، اس بہن کے مختصر سے میسج نے مجھے کسقدر شرمندہ کر دیا، بیان سے قاصر ہوں۔ اسکے بعد رائیٹر اور بہت سے قارئین کی طرف سے پریشر ڈالا گیا، کچھ دوستوں نے ڈر گیا، بھاگ گیا کی پھبتیاں کسیں، مگر مکالمہ پر وہ سلسلہ نہیں چلا۔ غلطی سے سبق سیکھا گیا۔
جب ابھی فیس بک پر نیا نیا لکھنا شروع کیا تو کئی بار ایسے موضوعات پر لکھا جو مذہبی تفریق کا باعث ہیں اور فساد پڑا۔ میرا موقف یہ تھا کہ ان موضوعات پر بات ہونی چاہیے تاکہ غلط فہمیاں رفع ہوں۔ مگر پھر اک دن احساس ہوا کہ یہ تو میری انا اور اپنے نفس کی خوشی کی کوشش ہے، کہ “میں جانتا ہوں، تم کو سب بتاوں گا”۔ اور اگر میری نیت کسی کی اصلاح ہے تو دراصل قابل اصلاح تو میں خود ہوں۔ اس دن سے اپنی اس نفسانی خواہش پر قابو پانے کو کوشش کرتا ہوں۔
فیس بک پر ایک مخصوص طبقہ فرقہ وارانہ “علمی الٹیوں” میں مصروف ہے۔ طرفین کے پاس روایات ہیں، علمی حوالے ہیں، اپنے مطلب کی احادیث و تشریحات ہیں اور کنفیوز ہوتا ہوا قاری ہے۔ رات بھر جاتے رمضان کریم کی طاق راتوں میں عبادت کے بجائے کمنٹس ہوتے ہیں، پوسٹیں لکھی جاتی ہیں، گالم گلوچ ہوتا ہے اور اک دوجے کے ایمان کے فیصلے۔ حاصل؟ جو جہاں تھا وہ وہیں ہے، پرنالہ تمام بحث کے باوجود قائم رہتا ہے۔
اصحاب گرامی کچھ چیزیں مسلمہ حقیقت ہیں، ہمیں پسند آئے یا نہیں، مسلک بھی ان میں سے ہے۔ اپنے مسلک میں پیدا ہوے کو آپ کچھ بھی کر لیجیے، دوسرے مسلک کی روایات و دلائل سے متاثر نہیں کر سکتے۔ آپ کے تمام تر دلائل ایک سنی کو امیر معاویہ کی کی گستاخی اور ایک شیعہ کو انکے احترام پر مجبور نہیں کر سکتے۔ آپ کی تمام تر علمی موشگافیاں ایک سنی کے سامنے شیخین(ر) کو خلافت کا غاصب یا شیعہ کو اس بات کا قائل نہیں کر سکتیں کہ امامت کوئی آسمانی منصب نہیں ہے۔ اس لئیے کہ عقائد بھی جینز میں آ جاتے ہیں شاید۔ شاید اسی لئیے ایک ملحد جوش ملیح آبادی یا سبط حسن بھی خود کو کلچرل شیعہ کہ کر محرم مناتے ہیں اور مرثیہ لکھتے ہیں۔ یہ اختلافات چودہ سو سال سے موجود ہیں اور اگلے چودہ ہزار سال بھی حل نہیں ہو پائیں گے۔
فیس بک ایک علمی مباحث کا فورم نہیں بن سکتا۔ اس لئیے کہ یہاں آپ کا مقابل ضروری نہیں عالم ہو بلکہ کوئی مجھ سا عطائی بھی ہو سکتا ہے جو “چونکا دینے کا شوقین” ہو۔ اب اس “چونکا دیا، ہرا دیا، دھول چٹا دی، جیت گئے” ماحول میں آپ ایسے موضوعات پر کوئی علمی مکالمہ ہونے کی امید رکھتے ہیں تو آپ بہت معصوم ٹھہرے۔ البتہ ہوتا یہ ہے کہ پڑھنے والے، کمنٹس کرنے والے ایک دوسرے سے کشیدہ تعلق ہو جاتے ہیں۔ حالیہ فرقہ وارانہ الٹیوں میں بھی یہی دیکھا کہ جو ایک دن پہلے مل کر کرکٹ کا جشن منا رہے تھے، وہ اک دوجے پر تیر برسانے لگے۔ اپنے اپنے مسلک کی خدمت کرنے والے شاید بہت خوش ہوں، مگر مکالمہ زخمی ہے۔
اے میرے قلمکار دوستو، قلم اور قاری رب کی عطا ہیں۔ اگر آپکو قلم اور قاری عطا کئیے گئے ہیں تو سرجری کی نیت سے بھی نشتر کو تلوار مت بنائیے۔ تقسیم در تقسیم اور تباہی کے گڑھے میں گرتے ہوے معاشرے میں مناظروں کے زریعے مزید تقسیم پیدا نا کیجیے، بلکہ مکالمے کے زریعے باہمی احترام پیدا کیجیے۔ آپ مکالمہ اور باہمی احترام سے بس ایسا ماحول بنائیے کہ جہاں ذاتی خیالات کو ذاتی مجالس میں رکھا جائے نا کہ فیس بک کے چوراہے پر۔ چوراہے پر رکھی بات اور چھن چھن پر ناچتی رقاصہ، دونوں تماش بین کی مرضی کے مطابق ہونے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
آئیے غلطیوں سے سیکھیں۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 9 تبصرے برائے تحریر ”آئیے غلطیوں سے سیکھیں

  1. آپکے اس کالم نے میرے لئے آئینے کا کام کیا اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا میں بھی اپنی تصیح کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں بہت سے مجھ جیسے بھی اس سے سبق سیکھیں گے

    انعام رانا آپکا یہ کالم یقین داد و تحسین کا مستحق ہے اور مذکورہ کالم کے بارے آئے آپکا فیصلہ قابلِ ستائش ہے

    راجہ احسان

  2. ایسی چیزیں جو مختلف مکاتب فکر کے مابین مختلف فیہ ہے لیکن عوام کو نقصان دینے والی ہے اس پر کوئی تو آواز اٹھائے. اس کالم میں ہم جنس پرستی اور تعلیمی رکاوٹ میں سے بڑی نحوست ہم جنسیت ہے اس پر آخر آواز تو اٹھانی پڑےگی. کلیتا معاملے سے پہلو تہی دیانت داری کے خلاف ہے.

  3. بہت ہی متوازن تحریر ۔ جس طرح کاروبار کرتے کسی کا مسلک و عقیدہ نہیں پوچھا جاتا کہ نوٹ آرہے ہیں جو نہ شیعہ ہوتے ہیں نہ سنی , تو پھر عام زندگی میں کیوں مسلک فرقہ حاوی آجاتا ہے

  4. بہت عمدہ اور حقیقت بھی یہی ھے ک کسی کو بھی آپ اس کے موقف سے ایک انچ بھی آگے ہیچھے نہیں کر سکتے..اس لیے فضول کی بحث سے کیا حاصل…
    ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرنا سیکھیں اور اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کریں… ہر کلمہ گو مسلمان ھے جو عقیدہ ختم نبوت رکھتا ھے اس لیے کافر کافر کا منجن بھی بھیچنے سے گریز کیا جاۓ

Leave a Reply