کمرہ نمبر 6۔۔۔۔۔۔اسامہ ریاض

ہسپتال کی دوسری منزل کے کمرہ نمبر ۴ سے آواز آئی ’’ماشااللہ بیٹا پیدا ہوا ہے‘‘۔ ایک تیسرا ہجوم تالیاں بجاتا ہوا کمرے میں داخل ہو کر مبارکباد دینے لگا۔ اُن کی تواضع میٹھایوں اور پیسوں سے کی گی۔

تبھی ساتھ والے کمرہ نمبر ۵ سے آواز آئی ’’ماشااللہ خدا نے چاند جیسی بیٹی دی ہے‘‘۔ہجوم تالیاں بجاتا ہوا کمرہ نمبر ۴ سے نکل کر ۵ میں داخل ہوا۔۔۔۔ لیکن یہ کیا ؟؟؟؟
وہاں مایوسی کے سائے چھائے ہوئے تھے۔ شوہر نے بیڈ پر لیٹی بیوی کو دو موٹی سی گالیاں نکال کر کہا ’’ کہا تھا نا مجھے بیٹا چاہیے‘‘۔ آنکھوں سے ٹپکتے بےبسی سے بھرے آنسوں سے بیوی بولی ’’اس میں بھلا میرا کیا قصور؟‘‘۔ تیسرے ہجوم نے مبارکباد دی لیکن یہاں اُن کو تواضع کھری کھری باتوں سے کی گی۔۔

ابھی کشمکش چل رہی تھی کہ اچانک کمرہ نمبر ۶ سے رونے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ نرس کی آواز آئی ’’لگتا خدا آپ سے ناراض ہے اور آپ کو آپ کے گناہوں کی سزا دی گئی ہے، آپ کے ہاں۔۔۔‘‘ یہاں غم و غصہ اور مایوسی کے سائے کمرہ نمبر ۵ سے کہیں زیادہ تھے۔۔
پیدا ہونی والی ننھی جان کے باپ کو ساتھ والے کمرے  سے تالیوں کی آواز آئی۔ وہ خوش ہوکر بولا ’’چلو اس مصیبت سے جان بچانے کا معاملہ تو حل ہوا‘‘۔
اس نے کمرے سے باہر آکر تالیوں والے ہجوم کو آواز دی اور جیب سے ہزار کے نوٹ نکال کر اُن کے ہاتھ پر رکھ کر بولا کہ خدا کے لیے اس عذاب سے ہمیں چھٹکارا  دلا دو۔۔ ہجوم کا زندہ دل گرو  آگے بڑھا اور بچے کو اُٹھا کر سینے سے لگا لیا۔دوسری نرس نے آکر پوچھا ’’جنس میں کیا لکھوں؟‘‘
گرو  پُرسکون انداز میں بولا ’’جو بھی لکھ دو، ہمیں کیا ؟ اس معاشرے نے نہ ہمیں کل قبول کیا تھا اور نہ آج، تو جنس سے ہمارا کیا لینا دینا ‘‘ نرس چپ چاپ کمرے سے نکل کر چلی گی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ ہجوم اُس بچے کو مردہ درندوں کے ہجوم سے نکال کر زندہ دل، زندہ جسم، اعلی ظرف لوگوں کی بستی میں لے آیا۔ وہ ہجوم ہی اب اُس کا ماں باپ تھا۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply