درد کا رشتہ

درد کا رشتہ ( نثر پارہ )
ایک انتہائی درد بھرے احساسات اور جذبات سے لبریز تحریر حاضر ہے ۔ امید ہے کہ احباب اس کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنے اندر تک اس کے اثرات کو محسوس کریں گے ۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔

وہ درد سے بھرا ہوا تھا ۔ اس کے اندر انسانیت اور لوگوں کا درد اس قدر تھا کہ وہ اکثر دوسروں کی تکالیف پر کڑھتا نظر آتا تھا۔ وہ کچھ بہت زیادہ ذہین اور فطین نہیں تھا لیکن بلا کا محنتی تھا ۔ اس کی محنت اور مشقت کی عادت اس کو آگے لے آتی تھی اور اس طرح وہ اپنی ریاضت کے بل بوتے پر اپنی ذہانت کی کمزوری پر حاوی آجاتا تھا ۔ اس کی اللہ اور اس کے رسولﷺ سے وابستگی بھی کسی دیوانگی سے کم نہ تھی ۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس کے اندر سب سے لطیف جذبہ اس کا انسانیت کے لیے کڑھتے رہنے کا عمل تھا۔
سر بسر شکل تمنّا ہے یہ اچھا درد ہے
میں سراپا دل ہوں، دل میرا سراپا درد ہے!

میرا وہ صرف دوست نہیں تھا ۔شاید بہت کچھ تھا۔ ہمارا آپس کا رشتہ احساس اور اعتبار کا ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر درد کا بھی تھا ۔ ہم نے زندگی کے سولہ سال ہمیشہ ایک ہی بینچ پر بیٹھ کر گزارے تھے ۔ جی ہاں سولہ سال ۔ یہ کوئی کم عرصہ نہیں ہوتا ۔ پریپ، نرسری اور پھر پہلی جماعت سے لے کر بی۔اے تک ۔۔ ہم صرف ہم جماعت نہ ہوتے تھے بلکہ ہم بینچ ہوتے تھے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہر کام مشترکہ طور پر سرانجام دیتے تھے ۔ ہمارے بیچ میں اگرچہ تضاد بھی بہت تھا۔ میں بہت زیادہ ذہین تھا اور پڑھائی میں کبھی بھی کوئی مشکل میرے سامنے ٹھہر نہ پاتی تھی، ذمہ دار بھی اس حد تک تھا کہ جس کام کی ذمہ داری لے لیتا اس کو پورا کرتا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ کچھ لاپرواہی بھی میری ذات کا حصہ بن چکی تھی ۔ اگرچہ یہ لاپرواہی اس کی وجہ سے تھی کہ جو ذمہ داریاں وہ اپنے سر لے لیتا تھا میں اس سے مکمل لاپرواہ ہو جایا کرتا تھا۔ میری عادت ہوتی تھی کہ سکول ہمیشہ وقت پر پہنچنا ہے ۔ پہلے نہیں ، مجھے اپنی نشست کی قطعی طور پر کوئی فکر نہ ہوتی تھی ۔ کیونکہ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ وہ جماعت میں سب سے پہلے سکول پہنچنے والوں میں سے تھا اور اپنی مرضی کے بنچ پر بیٹھ کر میرے لیے جگہ رکھ چھوڑتا تھا۔ اس معاملے میں وہ کبھی لاپرواہ نہ ہوا اور اس کے ہوتے مجھے کبھی فکر نہ ہوئی ۔ اسی طرح وہ پانی کی بوتل ساتھ رکھنا کبھی نہ بھولتا تھا اور پانی کی اس بوتل پر آدھا حق میرا خوامخواہ کا بن چکا تھا اور وہ اس پر ہمیشہ کاربند رہتا تھا۔

پڑھائی میں بہترین نتائج اور مطالعے کے تمام لوازمات پورے کرنا میری ذمہ داری تھی اور میں بہرصورت اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کبھی نہ چوکتا تھا ۔ وہ نوٹس لکھنے میں کمزور تھا ۔ لکھائی کی رفتار بھی سست تھی اس وجہ سے لیکچرز لکھنا ہمیشہ میری ذمہ داری ہوتی تھی اور وہ محض میرے نوٹس کو کاپی کر لیتا تھا ،مطالعاتی اور امتحانی معاملات میں ہمیشہ میں اس کی معاونت کرتا تھا اور اس میں کبھی بھی ایسا نہ ہوتا تھا کہ ہم میں کوئی اختلاف ہوا ہو۔ اگر کبھی ہم دونوں میں سے کسی ایک کا بھی کسی لڑکے کے ساتھ جھگڑا ہوجاتا تو دوسرا چھڑانے والا نہیں ہوتا تھا بلکہ ہمیشہ ساتھ ہو کر لڑتا تھا۔ چھڑانے والے اور ہوتے تھے اور سب کو علم ہوتا تھا کہ یہ دونوں ہمیشہ اکٹھے ہیں ۔ اور سچ یہی تھا کہ ہم دونوں کا اتحاد ہماری طاقت تھا ۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ ہم دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کی مدد سے پیچھے رہا ہو۔ اپنی محنت کے بل پر ہمیشہ اپنی کمزوریوں کو ڈھانپ لیتا تھا۔ جماعت میں اس کا رویہ ہمیشہ سنجیدگی اور ٹھہراؤ کا حامل رہا اور اس کے عین برعکس میں اکثر متحرک اور غیرسنجیدہ رویے کے ساتھ آگے بڑھتا رہا ۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی طاقت اس لیے بھی بن جاتے تھے کیونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کی کمزوریوں سے کلی طور پر آگاہ ہوتے تھے ۔

سکول سے چھٹی کے بعد راستے میں پڑنے والی مسجد میں ہم نماز ظہر ادا کرتے ۔ اس معاملے میں وہ کبھی کوتاہی نہیں برتتا تھا اور اگر کبھی میں ادھر ادھر ہونے کی کوشش کرتا تو وہ میرے ساتھ جھگڑ پڑتا تھا مگر مجھے نماز سے بھاگنے نہیں دیتا تھا ۔۔ہم دونوں نے سکول اور کالج کی تمام زندگی اکٹھے گزاری ۔ بی ایس سی کے بعد جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو ہماری راہیں بھی جدا ہو گئیں۔ میں لاہور چلا گیا اور اس نے اپنے شہر میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ ہم اپنی اپنی دنیا میں مگن ہو گئے ۔ لیکن کافی برسوں بعد ہم نے پھر ایک بار اکٹھے ہو کر کچھ عرصہ ساتھ چلنے کا ارادہ کیا جب ہم نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں بی ایڈ میں داخلہ لیا ۔ لیکن اس بار قدرت کو ہمارا ساتھ منظور نہ تھا ۔ اس بار کچھ اور تدبیر تھی جو اوپر لکھی جا چکی تھی اور ہماری آنے والی زندگی جس کا شکار ہو جانی تھی ۔
جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے
درد کے عنواں بدل کر رہ گئے
زندگی بھر ساتھ دینا تھا جنھیں
دو قدم ہمراہ چل کر رہ گئے

اس وقت تک وہ ایک پرائیویٹ سکول بنا چکا تھا اور اس کو کامیابی کے ساتھ چلا رہا تھا۔ مجھ سے رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ کبھی بھی موقوف نہ ہوا کہ زندگی میں ایسا ہونا ممکن ہی نہ تھا ۔ہم اکثر اجتماعات اور مختلف مواقع پر اکٹھے ہی پائے جاتے تھے ۔ وہ اب بھی اتنا ہی درد سے لبریز اور دوسروں کے کام آنے والا تھا جتنا میں نے اس کو ابتداء میں پایا تھا ۔ ہمارے درمیان انسانیت کے درد کا یہ رشتہ کبھی کم نہ ہوا۔ یہ وہی دن تھے کہ جب ہم نے کچھ اور دوستوں کے ساتھ مل کر ایک فلاحی تنظیم کا بھی آغاز کیا تھا۔ اس حوالے سے مستقبل کے لیے ہمارے عزائم بہت بلند تھے ۔ لیکن یہ ہمارے ارادے تھے ۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہم بی ایڈ کے پہلے سمسٹر کے امتحانات سے فارغ ہو چکے تھے ۔ ان دنوں رمضان المبارک کا مہینہ شدید سردی اور دھند کے ایام میں چل رہا تھا۔ وہ اپنے سکول کے صحن میں اسمبلی کروانے کے لیے موجود تھا کہ جب اچانک گر پڑا ۔ بھاگم بھاگ اس کو ڈاکٹر تک پہنچایا گیا ۔ یہ موبائل کے دور سے پہلے کا وقت تھا ۔

ایک مشترکہ دوست نے کسی طور مجھ تک یہ خبر پہنچائی اور میں سب چھوڑ چھاڑ کر اس کے پاس ہسپتال جا پہنچا مگر اس وقت تک وہ ہوش و حواس کھو چکا تھا۔ ڈاکٹرز اپنی کوششوں میں مصروف تھے، ایک ڈاکٹر نے اس کے والد اور مجھے بتایا کہ اس کے دماغ کی شریان پھٹ چکی ہے اور جس قدر جلد ممکن ہو مریض کو لاہور منتقل کریں ۔ چار و ناچار ہم نے اسے ایمبولینس میں ڈالا اور لاہور لے گئے ۔ لاہور میں ڈاکٹرز نے اس کا باقاعدہ چیک اپ کیا اور صورتحال کی سنگینی کے بارے میں ہمیں بتاتے ہوئے کہا کہ مریض کی دماغی طور پر موت واقع ہو چکی ہے لیکن معجزانہ طور پر اس کی سانسیں کام کر رہی ہیں اور دیگر اعضاء بھی زندگی کی علامت سے بھرپور ہیں۔ یہ 22 رمضان المبارک تھا ۔ اس کے بعد اگلے 96 گھنٹے یعنی 26 رمضان المبارک تک یہی کیفیت رہی ۔ ڈاکٹرز حیران تھے اور اس کو معجزہ ہی قرار دیئے جا رہے تھے ۔ آخر 26 رمضان جمعتہ المبارک کے روز سحری کے وقت میرا دوست اور دیرینہ ہمدم اپنی سانسوں کی بازی ہار کر دوسری دنیا کی طرف عازم سفر ہو گیا ۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اس کی تدفین کا عمل ہوا اور میں کانپتے ہاتھوں سے اپنے اس دوست کو قبر کے سپرد کیا جو کبھی بھی مجھ سے جدا ہونے کو تیار نہ ہوتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

قبر میں اس کی پہلی رات شب قدر تھی ۔ اسی شام اس کی والدہ کے پاس بیٹھے ہوئے جب میرے آنسوؤں کی جھڑی رکنے کا نام نہ لیتی تھی تو اس کی والدہ نے میرے سر پر اپنا ہاتھ رکھا اور وہ جملے ادا کیے کہ جنھیں سن کر میری چیخیں نکل گئیں ۔” اکرام بیٹا سنو ۔۔ تیرے ندیم نے پانچویں روزے کو جمعہ کے دن اسی جگہ بیٹھے ہوئے مجھ سے کہا تھا ۔۔ امی جی ۔۔۔ وہ لوگ کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں جن کو قبر میں پہلی شب ہی شب قدر ملتی ہے ۔ مجھے کیا پتا تھا کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہا ہے ۔ دیکھو اللہ نے محض اس کی خواہش کی تکمیل کے لیے چار روز تک مردہ دماغ کے ساتھ بھی اس کی سانسیں بحال رکھیں اور آج اس کو قبر میں پہلی رات ہی شب قدر نصیب ہوگئی۔ اکرام بیٹے، روتا کیوں ہے ۔۔۔ یاد رکھ لے تیرا دوست جنتی ہے “۔
جب یار نے رخت سفر باندھا
کب ضبط کا یارا اس دن تھا
ہر درد نے دل کو سہلایا
کیا حال ہمارا اس دن تھا
۔۔۔ وہ نہ ختم ہونے والا درد دے گیا!!

Facebook Comments

اکرام الحق
حال مقیم امریکا،آبائی تعلق ضلع گجرات،پاکستان۔ادب سے شغف۔وطن سے محبت ایمان۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply