کچھ خالی نہیں جاتا۔۔ عامر خاکوانی

میں نے اپنے صحافتی کیریر کا آغاز اردو ڈائجسٹ لاہور سے کیا۔ میں نے تین ساڑھے تین سال ادھر کام کیا۔ اردو ڈائجسٹ صحافتی نرسری کی مانند ہے، بہت سے صحافیوں نے یہاں کام کیا اور پھر اخبارات میں جا کر نام کمایا۔ مجھے بھی یہاں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، چھوٹا ادارہ تھا، لوگ کم تھے تو کام کا دباؤ بھی زیادہ تھا، کئی آرٹیکل لکھنے پڑتے، ان کو پڑھنا، پروف ریڈنگ، میٹر کی سلیکشن، ایڈیٹنگ اور صفحات بنوانا یہ سب اتنی ذمہ داری ہوتی کہ اس وقت تھکن بھی ہوجاتی اور اس قدر محنت کے بعد بھی محسوس ہوتا کہ شناخت نہیں بن رہی، کوئی جانتا بھی نہیں۔ پریس کلب والےممبر بنانے کو تیار نہ ہوتے کہ آپ کا تعلق ڈیلی جرنلزم سے نہیں ہے۔ اس وقت میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ اردو ڈائجسٹ چھوڑ کر کسی بڑے اخبار میں چلا جاؤں ۔ شملہ پہاڑی کے قریب بی بی پاک دامن کے علاقہ میں رہتا تھا، قریب ہی ڈیوس روڈ ہے جہاں جنگ کا دفتر ہے، جب کبھی ویگن میں بیٹھا وہاں سے گزرتا اور جنگ کی سنگی بلڈنگ پر نظر پڑتی تو دل میں سوچتا کہ جانے کب وہاں جاؤں گا۔ مجھے لگتا تھا کہ اردو ڈائجسٹ میں گزرا وقت بالکل ضائع ہو رہا ہے اور مجھے فوری طور پر جنگ میں جانا چاہیے تاکہ روزانہ صحافت میں میرا ایک طرح سے میٹر چالو ہوجائے۔

پھر تین ساڑھے تین سال بعد میں نے جنگ جوائن کر لیا۔ جنگ کے نیوز روم میں بطور سب ایڈیٹر گیا تھا، اس وقت یہ سوچ کر گیا کہ چلو ایک بار اندر تو پہنچ جاؤں ، پھر وہاں سے میگزین میں جانے کی کوشش کروں گا۔ یہ وہاں جا کر پتہ چلا کہ اندر سے میگزین میں جانا ناممکن ہے۔ بلکہ تبادلہ تو دور کی بات ہے جنگ میگزین والےنیوز روم والوں کے مضامین تک لگانے پر تیار نہیں ہوتے تھے۔ ان دنوں ایکسپریس اخبار کے آنے کی دھوم تھی۔ میں نے بھی اس کے لئے انٹرویو دیا اور جنگ کی وجہ سے مجھے وہاں کے نیوزروم کے لئے سلیکٹ کر لیا گیا۔ اسلم ملک جنگ کے سینئر صحافی ہیں، بہاولپور سے ان کا تعلق ہے، انہوں نے مجھے شفقت سے مشورہ دیا کہ تمہاری بنیاد میگزین کی ہے اورتمام دلچسپی، رجحان لکھنے پڑھنے کا ہے تو ایکسپریس میگزین کے لئے اپلائی کرو۔ میں پریشان تھا کہ ایک انٹرویو تو نیوز روم کے حوالے سے دے چکا ہوں، اب میگزین کی بات کیسے کروں۔ انٹرویو دینے گیا تو سلطان لاکھانی صاحب نے پہلا سوال یہ پوچھا کہ نیوز روم یا میگزین ؟ میں آج بھی حیران ہوں کہ میگزین کا کیوں پوچھا انہوں نے ؟ خیر میرے منہ سے نکلا میگزین۔

اسلم ملک صاحب کے مشورے سے اردو ڈائجسٹ کےمضامین کا ایک پورٹ فولیو بنا کر لے گیا تھا۔ جنگ میں رہتے ہوئے کچھ عرصہ اردوڈائجسٹ کے لئے پارٹ ٹائم کام کیا تھا اور ایک سیاحت پاکستان نمبر نکالا تھا۔ وہی ڈائجسٹ ساتھ لے گیا۔ ا ور پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ایکسپریس نے مجھے میگزین انچارج لگا دیا۔ جنگ میں جسے پتہ چلتا وہ حیران ہوتا۔ وہ سمجھتے کہ شاید نیوز روم میں گیا ہے، میگزین کا سن کر پوچھتے کہ یہ کیسے ہوگیا۔ انہیں بتاتا کہ اردو ڈائجسٹ میں گزرے جن برسوں کو میں حقیر اور بے فائدہ سمجھتا تھا، انہوں نےمیرے لئے روشن مستقبل کا دروازہ کھولا ہے۔ اگر میں ایکسپریس کے نیوز روم میں ہوتا تو آج بھی زیادہ سے زیادہ سینئر سب ایڈیٹر ہوتا۔ اپنی پسند کے شعبہ میں آنے کا یہ فائدہ ہوا کہ بعد میں میں نے الحمداللہ دنیا کے میگزین ایڈیٹر کے طور پر دنیا میگزین شروع کیا، پانچ سال وہاں کام کیا اور اب چند ماہ پہلے نائنٹی ٹو نیوز کے میگزین ایڈیٹر کے طور پر نائنٹی ٹو نیوز کا میگزین بھی شروع کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بات یہ کرنا تھی کہ محنت، دعا سب ایک جگہ ، قدرت کا ایک ڈیزائن آف نیچر بھی ہوتا ہے ، وہ بھی ایک خاص انداز سے کام کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر کہ رب تعالیٰ اپنی تخلیق سے محبت کرتا ہے۔ اس کے سامنے چونکہ ملٹی ڈائمنشیل فریم آف ریفرنس موجود ہیں، ہمارے حال، مستقبل کے نجانے کتنے زاویے صاف اور واضح ہیں تو وہ بہتر جانتا ہے کہ ہم سے کیا کام لینا ، کہاں لے جانا ہے۔ کبھی ہم جسے بیکار سمجھتے ہیں، وہ بعد میں ہمارا سرمایہ بن جاتا ہے اور جس پر سب سے زیادہ تکیہ ہوتا ہے، وقت کی منڈی میں وہ سب سےکم حیثیت اور بےکار نکلتی ہے۔ اپنے رب سے محبت ، اس پر اعتبار ، یقین اور توکل کا رشتہ جوڑنا چاہیے۔ امید کی ننھی کونپل کو حوصلے اور شکر کا پانی دیتے رہیں، ان شا اللہ ایک گھنا ، چھتنار درخت بن جائے گا، جس کا میٹھا پھل کھائے نہیں ختم ہوگا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply