صدر جمہوریہ کی تلاش میں وقت کی بربادی/حفیظ نعمانی

24 جولائی کو موجودہ صدر جمہوریہ پرناب مکھرجی کی مدتِ کار ختم ہورہی ہے۔ اب نئے صدر کی تلاش ہمیشہ کی طرح پوری سرگرمی سے ہورہی ہے۔ جب موجودہ صدر اُمیدوار تھے تو حکومت کانگریس کی تھی اور اس کے اُمیدوار موجودہ صدر تھے جن کو تین سال اس پارٹی کی حکومت میں ہوچکے ہیں جو الیکشن کے وقت مخالف تھی۔ ان تین برسوں میں ہمیں یاد نہیں کہ کسی مسئلہ میں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان ٹکراؤ ہوا ہو؟ اس کی وجہ صاف ہے کہ صدر محترم اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کرتے اور یہ آج کی بات نہیں ہے۔ ہمارے سامنے اس وقت کی ایک دستاویز ہے جب پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد عرف راجن بابو تھے اور وہ حکومت اور پارٹی کی پسند اور چہیتے ساتھی اور جنگ آزادی کے صفِ اوّل کے لیڈر تھے۔ لیکن ان کی حیثیت کیا تھی؟ ذرا یہ واقعہ پڑھ لیجئے۔

اُترپردیش میں اُردو کو صوبائی حکومت نے پاکستان کی زبان قرار دے دیا۔ اردو والوں نے اپنی سی کوشش کی جب ہر جگہ ناکام رہے تو دستور کی دفعہ 347 کے مطابق کہ اگر کوئی ریاست کسی زبان کو علاقائی زبان بنوانا چاہے تو پانچ لاکھ دستخطوں سے صدر جمہوریہ کو درخواست دے چونکہ اترپردیش سب سے بڑی ریاست تھی اس لئے اردو والوں نے 20 لاکھ دستخط کا نشانہ رکھا اور 22 لاکھ دستخط کے ساتھ علاقائی زبان بنوانے کے لئے صدر جمہوریہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میمورنڈم لے جانے والوں میں ڈاکٹر ذاکر حسین خاں، پنڈت سندر لال، مولانا حفظ الرحمن، علامہ برج موہن، پنڈت داتریہ، کیفیؔ اور کانگریس کے ہی ہندو اور مسلمانوں کا وفد تھا۔ وفد کو ہال میں بٹھایا گیا اور جب دھوتی کرتہ صدری پہنے بابو راجندر پرساد آئے تو سب نے کھڑے ہوکر تعظیم دی اور ڈاکٹر ذاکر صاحب نے کھڑے ہوکر میمورنڈم پڑھنا چاہا تو صدر محترم نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکا اور کہا کہ میں آپ کا میمورنڈم پڑھ چکا ہوں ضابطے کی کارروائی کے بجائے آیئے آپس میں باتیں کی جائیں۔ ظاہر ہے کہ آنے والوں میں اکثر راجن بابو کے ساتھ کے لوگ تھے۔

صدر محترم نے کہا کہ پہلے یہ بتایئے کہ آپ سب لائق پڑھے لکھے لوگ ہیں آپ میرے پاس کیوں آئے؟ میں تو ایک دستوری صدر ہوں جو میرے وزراء مجھے مشورہ دیں گے میں اسی کے مطابق عمل کروں گا ضابطہ کی کارروائی ہوتی تو میں کیا کرتا میمورنڈم وزیر اعظم کے پاس بھیج دیتا۔ اور اب بھی یہی کروں گا آپ کا میمورنڈم وزیرا عظم کے پاس بھیج دوں گا۔ آپ لوگوں کو تو جواہر لال نہرو سے ملنا چاہئے تھا۔ اور اس کے بعد وہی ہوا جو راجن بابو نے کہا تھا کہ آیئے باتیں کریں اور اردو والوں نے اترپردیش سرکار کی زیادتیوں کو گنوایا۔ پنڈت سندر لال جو زیادہ ہی صاف گو تھے۔ انہوں نے کہا کہ راجن بابو اگر حکومت ایماندار ہوتی اور بات کو کاٹ کر صدر نے کہا کہ میں کسی ریاست کو ایماندار کیسے بنا سکتا ہوں؟۔۔۔لیجئے صدر صاحب کا کام ختم ہوگیا۔

یہ وہ راجندر پرساد تھے کہ جب ان کی پانچ سال کی مدت پوری ہوئی تو کانگریس ورکنگ کمیٹی میں یہ مسئلہ آیا کہ ان کے بعد کون؟ تو مولانا آزاد نے کہا کہ ان کے بعد کیوں؟ جواب دیا گیا کہ ان کو پانچ سال پورے ہوگئے اس پر مولانا نے فرمایا کہ پانچ سال تو ہم سب وزیروں کے بھی پورے ہوگئے تو پھر سب کی چھٹی کی جائے۔ اور مولانا نے ان کو ہی صدر رہنے دیا۔ اتنی اہم شخصیت اتنے قریبی دوستوں کو جب یہ جواب دے کہ جو وزیر کہیں گے وہ کروں گا اور اب بھی جواہر لال کے پاس بھیج دوں گا۔ اس کے بعد یہ طے کیا جائے کہ اس عہدے کی ضرورت کیا ہے؟ اور اگر برطانیہ کی نقل کرنا ہی ہے تو اس کی تلاش کے لئے کمیٹی بننا اور حزب مخالف کا یہ کہنا کہ اگر مودی جی سیکولر لیڈر کو صدر بنا دیں تو وہ بلامقابلہ ہوجائے۔ ورنہ ہم مقابلہ کریں گے۔ اور مقابلہ کا انجام معلوم ہے کہ وہ بی جے پی جس کی 280 سیٹیں نہیں ہیں اور ان کے بقول 17 پارٹیاں ان کے ساتھ ہیں ان میں رام ولاس پاسوان کی پارٹی بھی ہے اور مہادلت کی بھی جن کا کہیں کوئی ممبر نہیں ہے ان کی دعائیں ساتھ ہیں۔ ایسی صورت میں حزب مخالف کی ہار یقینی ہے۔ تو اس رسم کے ادا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

موجودہ صدر جو سونیا جی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی دعاؤں اور چادروں کے ساتھ صدر بنے تھے انہوں نے صدر رہتے ہوئے کانگریس کو کیا دے دیا؟ جب ملک کا سب سے زیادہ بقول صدر اپنے دوستوں کے لئے اتنا بھی نہ کرسکا کہ اتنا ہی بھروسہ دلا دیا کہ میں آپ کا میمورنڈم پنڈت نہرو کو بھیجوں گا اور ان سے کہوں گا کہ میں اس کے حق میں ہوں آپ ایک وزیراعظم کی حیثیت سے جو بھی کرسکتے ہیں ضرور کریں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کو بھیج دیا اور وزیر اعظم نے وزیر تعلیم مولانا آزاد کو بھیج دیا اور اس کے ساتھ ایک نوٹ لگا دیا کہ کوئی فیصلہ کرتے وقت یہ خیال رکھئیے گا کہ دوسری ریاستوں میں اس کا کیا ردّعمل ہوگا؟ جس کا صاف اشارہ یہ تھا کہ اترپردیش کی سرکار تو بغاوت کردے گی اور دوسری ریاستو ں میں جو تھوڑی اردو ہے وہ بھی نہیں رہے گی۔
مسز سونیا گاندھی نے سیکولر کی شرط صرف مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے لگائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ تین سال سے غیرسیکولر حکومت اور سیکولرازم کو نہ ماننے والا وزیر اعظم حکومت کررہے ہیں اور حکام کا وہ کون کام ہے جو اس لئے رُک گیا ہو کہ صدر سیکولرازم کے ماننے والے ہیں۔ اور اب کوئی ان سے بڑا سیکولر نواز آجائے تو کیا وہ ڈاکٹر راجندر پرساد سے بھی بڑا ہوگا؟

جب ایک بات طے ہے کہ صدر صرف دستوری صدر ہے۔ نہ وہ اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کرسکتا ہے اور نہ وزیروں کو اپنی رائے دے سکتا ہے۔ وہ جو وزیروں کے پاس بھیجتا ہے تو وہ مشورہ کے لئے نہیں بھیجتا کہ میری رائے تو یہ ہے اور آپ کی رائے کیا ہے؟ بلکہ وہ صرف پوسٹ نہیں ہے وہ سیکولر ہو تو اور اگر موہن بھاگوت ہوں جو صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ وہ سیکولرازم کو نہیں مانتے۔ ہوگا وہی جو مودی جی کہیں گے۔ اور مودی جی 2017 ء کے الیکشن میں بتا چکے ہیں کہ وہ کیا کہیں گے اور کیا کریں گے؟ ان کی حسرت پورے ملک پر حکومت کرنے کی ہے وہ پنڈت نہرو بننا چاہتے ہیں۔ پنڈت نہرو ملک کے محبوب لیڈر اس وقت بنے تھے جب ملک کے ہر آدمی نے ان کو چاچا نہرو مان لیا اور وہ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب کے چاچا ہوگئے۔ مودی جی چاہتے ہیں کہ ملک کا ہر ہندو ان کے چرن چھوئے اور وہ پورے ہندوؤں کو الگ کرلیں اور حکومت پورے ملک پر ہو۔ اگر وہ سمجھیں گے کہ فرقہ پرستی کی ابھی اور ضرورت ہے تو وہ کنجوسی نہیں کریں گے اس لئے کہ وکاس نہ ان سے ہوا ہے اور نہ ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میک انڈیا ان کے بنائے بنا ہے اور نہ بنے گا وہ برسوں سے دنیا کے ملکوں کے چکر لگا رہے ہیں اور اب پھر وہی کریں گے لیکن جس روزگار کا انہوں نے 2014 ء میں وعدہ کیا تھا وہ اب بڑھ کر دس گنا زیادہ بے روزگار ہوگیا ہے اور ناتجربہ کاروں کو ملک کی لگام سپرد کرنے کا عمل جاری ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ جنہوں نے صرف حکم ماننا سیکھا ہے وہ نہیں جانتے کہ حکم کیسے دیا جاتا ہے؟۔۔۔ہریانہ، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ اور اب اُترپردیش اور اُتراکھنڈ سب کے کھیون ہار وہ ہیں جو ناگ پور میں حکم ماننے کا سبق رٹ کر آئے ہیں۔ وہ کیا جانیں کہ ملک اور صوبہ کی گاڑی کیسے چلائی جاتی ہے؟ اور وزیروں کو انگلیوں پر نچانے والے افسر کتنے بڑے کھلاڑی ہوتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اترپردیش کے 22 کروڑ کی آبادی کے لئے جو مکان بن رہے تھے وہ فروری میں جس حال میں تھے جون میں بھی اسی حال میں کھڑے ہیں اور ڈپٹی وزیر اعلیٰ کہہ رہے ہیں کہ جو 15 سال میں نہیں ہوا وہ ہم نے تین مہینے میں کردیا۔ مرکزی وزیر کہے کہ جو تین سال میں کیا وہ 70 سال میں نہیں ہوا۔ یہ بچوں کی اور ناتجربہ کاروں کی نہیں تو کس کی باتیں ہیں؟۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply