چل جھوٹی ۔۔۔۔آصف محمود

کس ادا سے وہ کہتی تھی صاف چلی شفاف چلی۔ یہ میرے لڑکپن کی محبت ہوتی تو میں اس کے منہ پرہلکی سی چپت لگا کر کہتا : ’’ چل جھوٹی‘‘۔یہ مگر اب گھاگ سیاست دانوں کا ایک لشکر جرار ہے اور اپنے بالوں میں بھی سفیدی آ گئی ہے۔دل اب ٹوٹتا ہی نہیں کہ کسی سے شکوہ کیا جائے۔ بس اداسی ہوتی ہے تو میانوالی ہی کے ایک نیازی کو گنگنا لیتے ہیں:
’’ وہ بے حسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیر
کوئی بچھڑ کے چلا جائے ، غم نہیں ہوتا‘‘

آئیے آپ کو فیصل آباد لیے چلتے ہیں۔یہ این اے 101 ہے۔تحریک انصاف نے یہاں سے ظفر ذوالقرنین ساہی کو ٹکٹ دے کھا ہے۔ ساہی صاحب مسلم لیگ ق کے سابق ایم پی ہیں۔ان کے والد غلام رسول ساہی 2002 میں ق لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے اور 2013 میں ان کے پاس ن لیگ کا ٹکٹ تھا ۔

این اے 102 فیصل آباد سے تحریک انصاف کے امیدوار نواب شیر وسیر ہیں۔2008 میں یہ پیپلز پارٹی میں تھے اور اسی کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے۔2013 کا الیکشن بھی انہوں نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لڑا ۔ساتھ ہی یہ ایک صوبائی نشست پی پی 53سے آزاد امیدوار کے طور پر بھی کھڑے ہو گئے اور دونوں پر ہار گئے۔ اب یہ قافلہ انقلاب کے روح رواں ہیں۔

این اے 104 سے دلدار چیمہ کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔یہ صاحب 2008 میں ق لیگ کے ٹکٹ پر پی پی 61 سے ایم پی اے منتخب ہوئے۔2002 میں یہ ق لیگ کے امیدوار برائے قومی اسمبلی تھے مگر ن لیگ کے رانا آصف توصیف سے ہار گئے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ اب یہی رانا آصف توصیف بھی تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں اور یہ این اے 105 سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔2008 میں یہ ق لیگ میں چلے گئے تھے اور 2011 میں یہ نجکاری کے وزیر مملکت تھے۔

این اے 106 میں قافلہ انقلاب نے نثار جٹ کو ٹکٹ دیا ہے۔2002 میں نثار جٹ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے۔2008 میں یہ ق لیگ کے امیدوار تھے۔2013 میں یہ ن لیگ کے ٹکٹ سے الیکشن جیتے۔مارچ 2018 میں یہ قافلہ انقلاب میں شامل ہو گئے۔

این اے 109 سے فیض اللہ کموکہ کو ٹکٹ جاری کیا گیا۔ یہ صاحب 2002 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پی پی 68 سے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔این اے 110 سے راجہ ریاض کو ٹکٹ ملا ہے۔ یہ پیپلز پارٹی کے دور میں پنجاب کے سینیر وزیر تھے، اپوزیشن لیڈر بھی رہے۔

این اے 111 ٹوبہ ٹیک سنگھ سے قافلہ انقلاب کا ٹکٹ اسامہ حمزہ کے پاس ہے۔یہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر ایم حمزہ کے صاحبزادے ہیں۔حمزہ صاحب مارچ 2018 تک ن لیگ کے سینیٹر تھے۔ ن لیگ کی سی ای سی نے انہیں سینیٹ کا آئندہ ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے کہا اب ووٹ کو عزت دینے کی ضرورت رہی اب بنے گا نیا پاکستان۔

این اے 112 سے تحریک انصاف کے امیدوار جناب ریاض فتیانہ ہیں۔فتیانہ صاحب ق لیگ کے ایم این رہ چکے اور ن لیگ کے ایم پی اے بھی۔این اے 113 ٹوبہ ٹیک سنگھ سے بھی ریاض فتیانہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ کے بعد جھنگ کو دیکھ لیتے ہیں۔این اے 114 جھنگ سے محبوب سلطان صاحب تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔2008 کا الیکشن انہوں نے ق لیگ کے ٹکٹ سے جیتا۔2013میں ان کے ن لیگ کا ٹکٹ تھا مگر یہ ہار گئے۔

این اے 115 میں غلام بی بی بھروانہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔یہ2002 میں ق لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئیں۔وزیر مملکت برائے تعلیم رہیں۔2008 میں بھی یہ ق لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئیں۔2013 میں ن لیگ میں شامل ہو گئیں اور ایم این اے منتخب ہوئیں۔مئی 2018میں تحریک انصاف میں شامل ہو گئیں۔

این اے 117 ننکانہ صاحب سے تحریک انصاف کے امیدوار بلال ورک ہیں۔بلال ورک 2002 میں ق لیگ کے ایم این اے منتخب ہوئے۔2008 میں ن لیگ کے ٹکٹ پر جیتے اور 2013 میں بھی ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔

این اے 118 ننکانہ صاحب سے برگیڈیر اعجاز شاہ کو ٹکٹ دیا گیا۔ یہ پرویز مشرف کے قریبی دوست ہیں اور آئی بی کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں۔

این اے 120شیخوپورہ سے علی اصغر مانڈا کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔یہ 1988میں پی پی 135 سے آئی جے آئی کے امیدوار تھے ، ہار گئے۔1993میں یہ آزاد تھے ، پھر ہار گئے۔2002 میں ایک بار کھڑے ہوئے اور ایک بار پھر شکست کھائی۔2008میں ن لیگ کے ٹکٹ سے ایم پی اے بنے۔

این اے 121 شیخو پورہ سے تحریک انصاف نے محمد سعید ورک کو ٹکٹ دے رکھا ہے۔ یہ وہی سعید ورک ہیں جو شوکت عزیز کے دور حکومت میں ق لیگ کے ایم این اے تھے اور ان کے پاس پارلیمانی سیکرٹری برائے مقامی حکومت اور دیہی ترقی کا منصب تھا۔

اب آئیے لاہور کی جانب۔این اے 126 سے تحریک انصاف کے امیدوار کا نام حماد اظہر ہے۔یہ ق لیگ کے بانی میاں اظہر کے صاحبزادے ہیں۔

این اے 128 سے اعجاز احمد ڈیال کو ٹکٹ دیا گیا ہے جو 2002 میں ق لیگ کے امیدوار تھے۔

این اے 129 سے علیم خان ہیں جو مشرف دور میں ق لیگ کی حکومت میں پنجاب میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر ہوا کرتے تھے۔

این اے 130 سے شفقت محمود ہیں ۔ شفقت محمود ق لیگ کے سینیٹر رہ چکے ہیں۔

این اے 132 سے چودھری منشاء سندھو ہیں ۔ یہ ق لیگ کے ایم پی اے ہوا کرتے تھے اور وزیر اعلی کے مشیر بھی۔

این اے 134 سے ظہیر عباس کھوکھر ہیں ۔ یہ 2002میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے لیکن بعد میں پیٹریاٹ میں چلے گئے۔

انہی کے چچا ملک کرامت علی کھوکھر کو تحریک انصاف نے این اے 135 کا ٹکٹ دے رکھا ہے۔کرامت علی کھوکھر 2008 میں پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے ، مگر ہار گئے۔

روایتی سیاست کی تحریک انصاف نے یوں نفی کی ہے کہ این اے 136 سے ملک اسد کھوکھر اس کے امیدوار ہیں۔سارے فیصلے چونکہ میرٹ پر ہوئے اس لیے اقبال ؒ کے پوتے کو ٹکٹ نہیں مل سکا۔

چلیے قصور چلتے ہیں۔یہ این اے 137 ہے۔یہاں سے تحریک انصاف سے سردار احمد علی کو ٹکٹ دے رکھا ہے۔ یہ پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر خارجہ تھے۔یہ نواز شریف کے ساتھ بھی رہے اور اکنامک افیئرز کے وزیر رہے۔

این اے 138 سے تحریک انصاف نے راشد طفیل کو ٹکٹ دیا ہے، راشد طفیل مسلم لیگ ن کے سابق ایم این اے چودھری طفیل کے صاحبزادے ہیں۔رائے حسن نواز کے نا اہل ہونے پر
2016 کے ضمنی انتخابات میں چودھری طفیل ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔

این اے 139 میں ق لیگ کے عظیم الدین لکھوی اس وقت تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔

این اے 140سے سردار طالب حسین نکئی کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔نکئی صاحب 2002میں ق لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور 2008 اور 2013 میں بھی ق لیگ ہی کے ٹکٹ سے انتخابات میں ھصہ لیا اور شکست کھائی۔

اب اوکاڑہ کو دیکھ لیتے ہیں۔این اے 141 اوکاڑہ سے سید صمصام بخاری تحریک انصاف کے امید وار ہیں۔یہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت مین وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات تھے۔

این اے 142 سے راؤ حسن سکندر کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔یہ پیپلز پارٹی دور کے وزیر دفاع اور وزیر خوراک راؤ سکندر اقبال کے صاحبزادے ہیں۔

این اے 143 سء ق لیگ کے سید سبطین گلزار شاہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے ۔2002 میں ق لیگ کے سبطین شاہ نے پیپلز پارٹی کے صمصام بخاری کو ہرایا، 2008 میں پیپلز پارٹی کے صمصام بخاری نے ق لیگ کے سبطین شاہ کو ہرایا۔اس الیکشن میں یہ دونوں قافلہ انقلاب کی قیادت فرما رہے ہیں۔

این اے 144 سے تحریک انصاف نے کوئی امیدوار کھڑا ۔منظور وٹو یہاں سے آزاد امیدوار ہیں اور ان کے احترام میں پارٹی نے کوئی امیدوار نہیں دیا۔یہی نہیں تحریک انصاف نے اس کے نیچے صوبائی نشستوں پر پی پی 186سے منظور وٹو کی صاحبزادی روبینہ شاہین کو اور پی پی 185 سے ان کے صاحبزادے جہانگیر وٹو کو ٹکٹ دے دیا ہے۔یہ تنیوں گھر میں مل بیٹھتے ہوں گے تو قہقہہ لگا کر کہتے ہوں گے : تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے۔

اب آئیے پاک پتن کی طرف۔ یہ این اے 147 ہے۔ یہاں سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ محمد شاہ کھگا کو دیا گیا ہے اور صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ ان کے بھائی احمد شاہ کھگا کو دیا گیا ہے۔محمد شاہ کھگا 2002 میں ق لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے.۔2008 اور 2013 میں بھی ان کے پاس ق لیگ کا ٹکٹ تھا۔احمد شاہ کھگا 2013 میں ق لیگ کے ٹکٹ سے ایم پی اے بنے۔ پاک پتن کے کسی بندے سے پوچھ کر دیکھیے ان دونوں بھائیوں پر ڈکیتی اور ریپ کے مقدمات تھے یا نہیں؟

این اے 146 سے میاں امجد جوئیہ کو ٹکٹ ملا۔ یہ انتہائی تجربہ کار سیاست دان ہیں۔یہ پیپلز پارٹی میں بھی رہے۔ق لیگ میں رہے۔ ن لیگ میں رہے۔اب عمران خان کی شاخ انقلاب پر چہچہا رہے ہیں۔

آگے چلیے یہ ضلع ساہیوال ہے۔ این اے 147۔ یہاں سے نوریز شکور قافلہ انقلاب کی قیادت فرمانے کو میدان میں ہیں۔نوریز شکور پیپلز پارٹی میں رہے۔ پی پی سے پیٹریاٹ میں چلے گئے۔ پیٹریاٹ کے سینئر نائب صدر تھے۔2002 سے 2004 تک وزیر پٹرولیم رہے۔2004 سے 2006 تک سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر رہے۔

آگے چلیے۔ یہ خانیوال ہے۔این اے 150 سے رضا حیات ہراج کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔یہ 2002 میں ق لیگ کے ٹکٹ سے جیتے۔2008 میں بھی ق لیگ کے ٹکٹ سے کامیاب ہوئے۔2013 میں آزاد کھڑے ہوئے۔ اب تحریک انصاف کے مقامی قائد انقلاب کے طور پر قومی ذمہ داریاں ادا فرما رہے ہیں۔

این اے 151 خانیوال سے احمد یار ہراج کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ان کے بھائی جمالی کی کابینہ میں بھی وزیر تھے اور شوکت عزیز کی کابینہ میں بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

احباب کا اگر مزید کپتان خان دے جلسے اچ نچنے کو دل نہ کر رہا ہو تو وہ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ تبدیلی کہاں ہے؟بڑی کہتی تھی صاف چلی شفاف چلی۔
چل جھوٹی۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply