کامیاب انسان

احسان آغا میرے بڑے تایا کا بیٹا ہے۔دارالعلوم کراچی سے انہوں اپنے تعلیمی کرئیر کا آغاز کیا ۔دورہ حدیث تک ایک ہی مدرسے میں زیر تعلیم رہے ۔محنت وذہانت کے بل بوتے پر امتیازی نمبرز کا جھومر اپنے ماتھے پر سجائے رکھا۔درجہ سادسہ میں ملکی پوزیشن کا ایوارڈ بھی لے اڑا۔باقی درجات میں بھی شاذونادر شاید پوزیشن ان کے ہاتھ نہ لگی ہوگی۔عصری تعلیم کا استعارہ بھی چھٹنے نہ دیا۔فراغت کے ساتھ ساتھ B. Aبھی مکمل کرچکا تھا بعد ازاں جامعہ الرشید سے تخصص فی المعاملات کیا ۔مزید تعلیم کے لئے اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا کا رخ کیا ،وہاں ایم ایس کرنے کے بعد اب اسلامک فائنانس میں پی ایچ ڈی کررہاہے یونیورسٹی کی فیسیں بھرنے کے لئے ایک ادارہ میں جاب کر رہاہے ایک دن میں نے ان سے پوچھا! کہ آپ کی کامیابی کاراز کیا ہے؟ تو وہ کہنے لگے! میں نے درجہ ثالثہ کے سال سے یہ مشن اور مقصد بنا لیا تھا کہ میں کوئی ایسا کارنامہ انجام دوں جو ابھی تک خاندان میں کسی نے نہیں دیا ہو ۔انہوں نے اپنے خواب کو تقریباً پالیا وہ اپنے مقصد کے قریب پہنچ چکے ہیں ۔
ہم میں سے ہرایک کامیابی چاہتاہے ہرایک بڑا بننے کی آرزو رکھتا ہے مگر۔؟ فیوچر وژن والوں نے کئی سال تک اس بات پر تحقیق کی ،کہ مشرقی دنیا کی بالعموم پاکستان کے بالخصوص ذہین وباصلاحیت ہونے کے باوجود مغربی دنیا سے پیچھے کیوں ہیں؟،انکی ناکامی میں جہاں اور اسباب اور عومل کارفرما ہیں وہیں نوجوان نسل کو ہدف کا نہ ملنا، اور مقصد کا پتا نہ ہونا ان کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب ہے ۔اسکول، کالج، یونیورسٹی سے لیکر مدرسے تک کے نناوے فیصد طلبہ کوپتا نہیں کہ ہم کیوں پڑھ رہے ہیں ہم نے مستقبل میں کیا کرنا ہے؟ ہمارا وژن کیا ہے؟ انہوں نے کھبی خود مقصد بنانے کی کوشش کی ہے اور نہ کسی نے انہیں بتانے کی زحمت کی ہے کہ ہمارا ہدف کیا ہے؟
اگر اسکی جھلک دیکھنی ہے تو نویں اور دسویں کی کلاس میں یا پھر دورہ حدیث کی کلاس میں جاکر کسی سے پوچھے بھائی میٹرک کے بعد کیا کرنا ہے؟ دورہ حدیث کے بعد کہاں جانے کا ارادہ ہے تو میں یقین کیساتھ کہتاہوں کہ کوئی بھی آپ کو ایسا نہیں ملے گا کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور کہاں جانے کا ارادہ ہے۔
مقصد جب متعین ہو تو اس وقت محنت ضائع ہوگی اور نہ ہی بعد میں پچھتاوا ہوگا، مقصد تب ہی متعین ہوگا کہ انسان کے اندر خود فکر ہو کہ میں کچھ کرکے دکھاوں؟ میرا ماضی مجھے مستقبل میں نہ رلائے، یہ فکر اس وقت لاوے کی طرح جوش مارتی ہے جب کامیاب لوگوں کی سوانح اور آپ بیتیاں پڑھی جائیں کہ وہ کیسے اس مقام تک پہنچے ؟
پھر سوال اٹھتا ہے کہ مقصد کیسا ہونا چاہیے ؟ خواب ہمیشہ بڑا ہونا چاہیے جیساکہ امام غزالی رح نے ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے پوچھا آپ کتنا علم حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ بیٹے نے جواب دیا آپ کے جتنا علم ،اس پر امام غزالی نے جواب میں کہا ! کہ آپ مجھ سے کسی بڑے کو اپنا ہدف بنا لو ۔اس وقت دین و ملت کے مختلف میدان ہمارے سامنے ہیں سیاست وحرفت، بینکنگ اور بیوکریسی ،تجارت، تدریس اور تحقیق غرض ایک وسیع وعریض باغ ہے بس صرف کسی ٹہنی کو پکڑنے کی دیر ہے ۔
میدان منتخب کرنے کی چند شرائط ہیں جو ماہرین نے وضع کی ہیں ۔
1:مقاصد حقیقت پر مبنی ہونے چاہیے محض خیالات اور خواہشات کھبی پورے نہیں ہوتیں،
2:مقاصد واضح اور قطعی ہوں ایسا نہ ہو کہ کھبی کیا بننے کی آرزو تو کھبی کیا؟ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھول گیا
3:مقصد کو متعین کرنے کے ساتھ وقت کا بھی تعین ہو کہ میں اپنے ہدف کو کتنی مدت میں سرکرسکتاہوں،
4: مقد اپنے اختیار میں ہو یعنی اپنی خواہش اور دلچسپی کی بنیاد پر متعین کردہ ہو کسی کے دباؤ یاچاہت کی وجہ سے نہ ہو۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کھیل میں کامیابی کھلاڑیوں کو ملتی ہے تماش بینوں کو نہیں ،یہ زندگی بھی ایک کھیل ہے اس کو کھلاڑی بن کر جیو گے تو کامیاب ہو گے ورنہ نہیں۔ اس میں ہماری کامیابی ہے اور یہ کچھ کرکے ہم کامیاب انسان بن سکتے ہیں اور یہی ہماری کامیابی کا گر ہے۔

Facebook Comments

سیدضیاءالرحمن
متعلم جامعہ صفّہ کراچی.ایک عام تحریر نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply