پی ٹی سی ایل پینشنرز کا نوحہ۔۔۔ثنا اللہ خان احسن

جوانی ٗ صحت ٗ اختیار اور وسائل انسان کو فرعون بنا دیتے ہیں ۔انسان یہ سوچتا ہی نہیں کہ اس نے بھی ایک نہ ایک دن بڑھاپے کی دہلیز پر اس طرح قدم رکھنا ہے کہ پھر ہر طرف سے مایوسیاں ٗ پریشانیاں ٗ بیماریاں اور مالی تنگ دستی جیسی مشکلات اسے بھی گھیر لیں گی۔

یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز افسروں کی گردنوں میں ہر لمحے سریا دکھائی دیتا ہے کئی افسر تو اس قدر مغرور ہیں کہ سلام کا جواب دینا بھی توہین تصور کرتے ہیں اس لمحے شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک دن انکی سریے والی گردن بھی( اختیارات کی کرسی چھن جانے کے بعد) جھک جائیگی ۔یہ دنیا کی وہ حقیقت ہے جس کو ہم دیکھتے بھی ہیں لیکن ماتحت ملازمین اور دکھی انسانیت کیلئے کچھ کرنے کا عزم نہیں رکھتے۔ جب انسان اس قدر خود سر ہوجائے تو اللہ اور آخرت کا خوف بھی دل سے نکل جاتا ہے ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جوانی میں تو انسان کو خدا بھی یاد نہیں رہتا لیکن جب انسان بوڑھا ہوجاتا ہے تو اپنے گناہوں پر آنسو بہاتے بہاتے مسجدوں سے باہر نکلنے کو دل نہیں چاہتا۔

عزت مآب جناب چیف جسٹس آف پاکستان کی توجہ کیلئے ایک اور مسئلہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان ٹیلی کمیونکیشن کاشمار ایسے منافع بخش اداروں میں کیاجاتاہے جس کی سالانہ کمائی اربوں روپے میں ہوتی ہے ۔بتایاجاتاہے کہ سال -2004-05 میں پی ٹی سی ایل کی سالانہ کمائی چارارب سے زائد ہوتی تھی اوراس کی شہرت اب بھی ایک منافع بخش ادارے کی ہے مگراس کے باوجود پی ٹی سی ایل کے ملازمین حکومت اورادارے کے حکام کے زیرعتاب ہیں اور ناانصافی پر مبنی پالیسی کے شکار ہونے پرسراپااحتجاج بھی ہیں۔

بتایاجاتاہے کہ پی ٹی سی ایل کی نج کاری کے لئے سال 2004میں ٹینڈرز ہوئے تھے جس میں مختلف کمپنیوں نے حصہ لیاتھا۔حصص کی نیلامی کی اس دوڑ میں متحدہ عرب امارات کے کمیونکیشن کمپنی اتصالات نے 12 ارب،59کروڑ،98لاکھ ڈالرکے عوض پی ٹی سی ایل کے 26فیصد حصص خرید لئے تھے اور معاہدہ ہواتھاکہ اتصالات دوسال کی مدت میں پاکستان کورقم کی قسط وار ادائیگی کی پابند ہوگی۔ اگرچہ کچھ اقساط  تواداکردی  ہوں گی۔ تاہم ذرائع کے مطابق حصص خریدنے کی کل رقم کی ادائیگی تاحال نہیں ہوئی

ذرائع کاکہنایہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان کے وزیر مواصلات اور نج کاری کمیشن کے چیئرمین کی قیادت میں یواے ای حکام کے مابین معاہدے کوتوسیع دینے کامعاملہ طے پاگیاہے – پی ٹی سی ایل کے ملازمین کے لئے یہ امربھی باعث تشویش ہے کہ سالانہ وفاقی بجٹ میں دیگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جاتا ہے مگروہ اس ریلیف سے محروم رہتے ہیں ان کی تنخواہوں اور پنشن میں کوئی بھی اضافہ نہیں کیاجاتا جس کا جوازیہ پیش کیاجاتا ہے۔ کہ پی ٹی سی ایل پرائیوٹ سیکٹر کاادارہ ہے حالانکہ پرائیوٹائزیشن پالیسی کے تحت پی ٹی سی ایل کے ملازمین سرکاری ملازمین تصور ہوں گے اور انہیں وہ تمام ریلیف دی جائے گی جو دیگر محکموں کے سرکاری ملازمین کو دی جاتی ہے۔ ‎پی ٹی سی ایل کے ریٹائرڈ ملازمین پنشن میں42 فیصد اضافے سے محروم ہیں، ریٹائرڈ ملازمین کو 2010 سے اب تک حکومت کے پنشن میں اعلان کردہ اضافے کے برعکس ہر سال صرف 8 فیصد اضافہ دیا گیا جس کے باعث ملازمین اور ان کے اہلخانہ سخت مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ ‎پنشن کے انتظارمیں ابتک 100 سے زائد رٹیائرڈ ملازمین انتقال کرچکے ہیں۔

پی ٹی سی ایل نے ریٹائرڈ ملازمین کے معاملات کو چلانے کے لیے پی ٹی ای ٹی PTET کے نام سے ادارہ قائم کیا تھا جو پی ٹی سی ایل کے ملازمین کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہا ہے، پی ٹی سی ایل کے ریٹائرڈ ملازمین کو سرکاری قوانین کے مطابق ملنے والی پنشن میں اضافہ گزشتہ 8 سال سے کٹوتی کرکے دیا جارہا ہے، 8برسوں میں ملازمین کی پنشن میں 42 فیصد کٹوتی کی گئی اور ریٹائرڈ ملازمین اس کٹوتی شدہ پنشن کی ادائیگی کا انتظار کر رہے ہیں جس سے پنشنرز کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے پی ٹی سی ایل کے ملازمین کو2009 تک حکومت کی طرف سے جاری کردہ پنشن میں سالانہ اضافہ متواتردیا گیا 2010 میں ‎وزارت خزانہ کی طرف سے پنشن میں سالانہ اضافے کے علاوہ میڈیکل الاونس بھی 20 فیصد سے 25 فیصد دیا گیا اور فیملی پنشن میں بھی 25 فیصد اضافہ کیا گیا لیکن پی ٹی سی ایل کے ملازمین کو میڈیکل الاؤنس اور فیملی پنشن میں اضافہ نہیں دیا گیا،

اعداد و شمار کے مطابق 2010 سے 2016 تک پنشن میں سالانہ اضافے میں 32 فیصد کٹوتی کی جاچکی ہے جبکہ 2017 کا 10 فیصد اضافہ ابتک نہیں دیا گیا اس طرح ریٹائرڈ ملازمین کی 42 فیصد پنشن رکی ہوئی ہے۔

محترم چیف جسٹس آف پاکستان آپکی توجہ کچھ معاملات کی طرف دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ سب سے پہلے آپ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ آپ نے ایسے معاملات کو ہاتھ ڈالا کہ جن کو ہاتھ ڈالنا شاید کسی کے گمان میں بھی نہ تھا، ہاں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ کوئی بہادر جنرل یہ کام کر سکتا ہے لیکن آپ نے یہ کام کر کے نا ممکن کو ممکن بنا دیا۔ قومی معاملات میں ہاتھ ڈالنا اور پھر ان کو کسی نتیجے پر پہنچانا -جن میں کرپشن اور ڈیموں کی تعمیر سر فہرست ہے۔ ۲ اداروں کو راہ راست پر لانا ۔آج ہر ادارے کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہےاور جوابدہی کی طرف آ رہا ہے۔ محترم چیف جسٹس صاحب اب ہم آپکی توجہP T C Lکے ملازمین کے اس کیس کی جانب متوجہ کرانا چاہتے ہیں جو گزشتہ آٹھ برسوں سے سپریم کورٹ کی ٹیبل پر پڑا ہے۔اور اس کیس میں فیصلہ حق میں ہونے کے باوجود انصاف نہیں ملا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

معاملہ صرف اتنا ہے کہ2007 میں جو لوگ VSSکے تحت ملازمت سےفارغ ہوۓتھے ان کو2008/9 کی حکومت کےاعلان کردہ حکم کے تحت پینشن اور اضافہ دیا گیا تھا  لیکن کمپنی طے کردہ 15 فیصد کی بجائے صرف چھ فیصد پنشن کی ادائیگی کررہی ہے۔ ۔ ہمارامطالبہ یہ ہے کہ ہمیں حکومت کے اعلان کے مطابق بقایاجات اور پنشن دی جائے اور سپریم کورٹ ہمارے مرنے سے پہلے اس پر عمل درآمد کروا دے !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply