محبت اور نفرت کے خود ساختہ پیمانے

سیدنا علی المرتضیٰؓ کیساتھ محبت میں افراط یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسے فضائل و مناقب اور خصائص منسوب کر دئیے جائیں جو آپ میں موجود نہیں اور تفریط یہ ہے کہ آپ کے ان مناقب اور خصائص کا بھی انکار کر دیا جائے جن کا ذکر صحیح احادیث اور نصوص قرآنی میں کیا گیا ہے . آپ کے ساتھ محبت میں افراط و تفریط دونوں خطرناک اور ہلاکت خیز ہیں . اللہ پاک ہمیں دونوں انتہاوُں سے بچائے . آمین!۔۔۔۔آج تک افراط کا معنیٰ یہ سمجھا جاتا تھا کہ حضرت علیؓ کو مقام ِ الوہیت پر بٹھانا یا مقام ِ نبوت و رسالت پر فائز قرار دینا ہے جبکہ تفریط کا مطلب یہ سمجھا جاتا تھا کہ آپ کے مناقب و خصائص کا انکار کرنا . لیکن اب پتہ چلتا ہے کہ افراط و تفریط کی نئی درجہ بندیاں بھی پیدا ہو چکی ہیں .مثلاً سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کے یوم ِ شہادت کے موقع پر بھی اگر کوئی حسن عقیدت سے اپنے جذبات کا اظہار کر دے تو اسے دھر لیا جاتا ہے اور جھٹ سے شیعیت بلکہ رافضیت کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے . اگر کوئی زیادہ عنایت کرے تو وہ شیعہ کو خوش کرنے یا شیعہ نوازی کا طعنہ دینے پر اکتفا کر لیتا ہے . یہی حال دوسری طرف ہے کہ اگر کوئی سیدنا علی المرتضیٰ ؓ سے بغض نہ رکھتا ہو اور وہ ہماری کسی بات سے ذرا سا بھی اختلاف کر دے تو اسے ناصبی قرار دیدیا جاتا ہے .

اسی طرح خصائص و فضائل ِعلیؓ کے باب میں جو روایات بیان کی جاتی ہیں ان کی بلا دلیل تضعیف کر دی جاتی ہے حالانکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جید اسناد کے ساتھ روایات میں جس قدر فضائل سیدنا علی ؓ کے بیان ہوئے کسی اور کے بیان نہیں ہوئے . امام نسائی علیہ الرحمہ ( المتوفی 303 ہجری) نے خصائص علی کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے ایک سو نواسی روایات کو جمع کیا ہے جن میں سیدنا علی ؓ کے مناقب و خصائص بیان ہوئے ہیں ۔ محققین جانتے ہیں کہ صحت ِحدیث کیلئے ان کی شرائط امام بخاری علیہ الرحمہ اور امام مسلم علیہ الرحمہ کی شرائط سے بھی سخت ہیں . ان عساکر ( المتوفی 571 ہجری ) نے تاریخ ِ دمشق کے نام سے ایک ضخیم کتاب لکھی ہے ۔ اس کی ایک پوری جلد سیدنا علیؓ کے مناقب پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے سینکڑوں روایات کو ایک نظم کے ساتھ جمع کیا ہے ۔ اسی طرح کا کام امام محمد بن محمد بن محمد الجزری المقری الشافعی علیہ الرحمہ ( المتوفی 833 ہجری ) نے” اسنّی المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب” کے نام سے کیا ہے اور اس میں پینتالیس ایسی روایات جمع کی ہیں جن میں مناقب مرتضوی کا بیان ہے ۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ قرآن حکیم میں جس قدر آیات سیدنا علی ؓ کے حق میں نازل ہوئی ہیں کسی اور کے حق میں نہیں ہوئیں . یہ سب بزرگ اہل ِ سنت کے جید آئمہ ہیں .

مسالک کی باہمی آویزشوں سے قطع نظر یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ ہمارا یہ طریقہ بے حد عجیب ہے کہ ہم نے مختلف شخصیات کو مختلف مسالک کے سپرد کر دیا ہے ۔ اہل بیت ِ اطہار علیھم السلام اس تقسیم کے تحت اہل تشیع کے سپرد کر دئیے گئے ہیں ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اس بٹوارے میں دیوبندیوں کے کھاتے میں ڈال دئیے گئے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سارا حق اہل سنت کا ہے اور توحید باری تعالیٰ اہل حدیث حضرات کے حصے میں آئی ہے ۔ یا للعجب ! ہمارے اسلاف کا یہ طریقہ تو نہیں تھا ۔ ان کے تو غلبہُ حب اہل ِ بیت عین سنت تھا ، وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا احترام کرنے والے تھے اور ان سے محبت کا دم بھرتے تھے ۔ اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کیساتھ محبت کے ان مظاہر کے پیچھے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت محرک اصلیہ تھی ۔

پھر اس سے بھی خطرناک روش یہ چل نکلی ہے کہ اس بین المسالک آویزش میں ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے بہت دور نکل جاتے ہیں اور غیر شعوری طور پر ان ہستیوں کی تنقیص کے مرتکب ہو جاتے ہیں جو ایک دوسرے کی عقیدتوں کا مرکز ہوتی ہیں ۔ خلفائے راشدین اور امہات المومنین سے بڑھ کر امت کے منتخب افراد کون ہو سکتے ہیں ؟ پھر اہل بیت ِ اطہار علیھم السلام کے کیا کہنے کہ حضور ﷺ نے انہیں اپنی امت کیلئے سفینہُ نوح قرار دیا ۔ رد رافضیت کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ اہل بیت ِ اطہار علیھم السلام کی شان میں وارد روایات کا یا تو سرے سے انکار کر دیں یا بنا کسی معقول دلیل کے ان کی تضعیف کر دیں ، یہی نہیں بلکہ نا دانستہ طور پر ہی سہی تنقیص مرتضوی کر بیٹھیں ۔ اسی طرح رد ناصبیت اور خارجیت کا یہ کونسا طریقہ ہے کہ آپ خلفائے ثلاثہ کے فضائل و مناقب کا ہی انکار کر دیں اور ان کی شان میں تفریط و تنقیص کے مرتکب ہو جائیں ۔ جو ان ہستیوں پر تبریٰ کریں ان کی ضلالت گمراہی اور مبتدع ہونے میں تو معمولی شائبہ نہیں رہتا ۔ ہمیں اپنے آپ کو اس سطح پر نہیں گرا دینا چاہئے ۔ یہ سب تو چنیدہ ہستیاں ہیں جن کے مناقب خود اللہ رب العزت اور حضور ﷺ نے بیان فرمائے ہیں ۔ یہ آسمان ِ ہدایت کے درخشندہ ستارے ہیں ۔ انکی ادنیٰ سی بھی تنقیص کرنا ایسے ہی ہے جیسے چاند پر تھوکنے کی کوشش کرنا ، العیاذ باللہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سیدھا سا اصول اپنانا چاہئے کہ جس ہستی کے جو جو مناقب قرآن اور حدیث میں صحت کیساتھ بیان ہوئے ہیں انہیں کھلے دل سے تسلیم کر لینا چاہئے ۔ ا ن کو تسلیم نہ کرنے کے دو نقصانات تو لازم ہیں ۔ ایک خواہش ِ نفس کی اتباع میں ان نصوص کا انکار اور دوسرا ان ہستیوں کی تنقیص ۔ یہ دونوں ہی مہلک خطائیں ہیں ۔ اگر ہم نے محتشم ہستیوں کا بٹوارہ کرنے سے باز نہیں آنا تو کم از کم اتنا ہی سیکھ لیں کہ ہم ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ان محترم ہستیوں کے ساتھ اپنی اپنی عقیدتوں کا اظہار کریں ۔ اس کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان کے ایام کے مواقع پر ہم ان کے فضائل و مناقب تو بیان کریں لیکن دوسری ہستیوں کیساتھ تقابل اور مقابلہ آرائی سے گریز کریں ۔ اگر کسی کو دوسرے کی کسی بات سے اختلاف ہو تو اس کی نیت پر شک کرنے کی بجائے اسے حکمت سے سمجھا دیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کی رائے کا احترام کرتے ہوئے آپ کی بات مان لے یا آپ کو معقول وضاحت پیش کر دے ۔

Facebook Comments

محمدخلیل الرحمن
بندہ دین کا ایک طالب علم ہے اور اسی حیثیت میں کچھ نہ کچھ لکھتا پڑھتا رہتا رہا ہے ۔ ایک ماہنامہ کا مدیر اعلیٰ ہے جس کا نام سوئے حجاز ہے ۔ یہ گذشتہ بائیس سال سے لاہور سے شائع ہو رہا ہے ۔ جامعہ اسلامیہ لاہور کا ناظم اعلیٰ ہے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا ممبر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply