الوداع میرے عمران۔۔۔ انعام رانا

ابھی میری عمر اتنی نہیں ہوئی کہ دوستوں کے تعزیت نامے لکھنے لگوں، اور اپنے سے چھوٹوں کے تو بالکل بھی نہیں۔ مگر کیا کروں کہ آج ایک ایسا شخص روتا ہوا چھوڑ گیا ہے جو ہنساتا رہا اور چھوٹا بھی تھا۔

عمران حیدر کو بھائی احمد رضوان مکالمہ پہ لائے۔ مگر میرا اس سے زیادہ قریبی تعلق پچھلے سال جنوری میں بنا جب مشعال خان کو توہین کے الزامات لگا کر قتل کیا گیا۔ ایک داعشی فیس بکر نے اپنی وال پہ توہین آمیز کمنٹس والے سکرین شاٹ لگانے شروع کئیے تو عمران جسے ان باتوں کی سمجھ تھی فورا حق کے ساتھ کھڑا ہو کر سازش کو بے نقاب کرنے لگا۔ یہ عمران کی ہی کوششیں تھیں کہ بعد ازاں اس داعشی سوشل میڈیا ورکر کے اکاونٹ بلاک ہوے۔ آہستہ آہستہ وہ اتنا قریب ہوا کہ آج اسکے جانے پر لگتا ہے جیسے جسم کا اک حصہ چلا گیا ہو۔
جب اس نے مجھے استاد جی کہنا شروع کیا تو مجھے بہت ڈر لگا کیونکہ اکثر استاد کہنے والے جیسے ہی کچھ فین فالورز اکٹھا کر لیں تو سب سے پہلے استاد کو ہی ذلیل کرتے ہیں۔ مگر وہ مشہور ہونے کے باوجود ہمیشہ منکسر المزاج دوست رہا۔ میرے ساتھ اسکی محبت عقیدت جیسی تھی، جس پہ میں کئی بار حیران ہوا۔ اک دن اس نے کہا “استاد جی اپ کا اور مکالمہ کا مجھ پہ احسان ہے، میں بھی مسلکی تعصب کی قید کا شکار تھا مگر مکالمہ ک ی وجہ سے اب میں مذہب کی بنیاد پہ بھی کسی سے تعصب نہیں رکھتا، تھینک یو”۔ مجھے لگا جیسے کسی نے مکالمہ کو کوئی ایوارڈ دے دیا ہو۔ میں نے کئی بار اسے ڈانٹا، کسی کام سے روکا، اس نے برا منائے بنا میری بات مان لی۔ کئی بار اسکی محنت سے لکھی تحریر یا گھنٹوں کی عرق ریزی سے بنائی تصویر اس نے فقط اس لئیے ہٹا دی کہ میں نے کہا مناسب نہیں ہے۔ اک بار اس نے دو تین پوسٹیں کچھ ایسی کیں کہ میں نے اسے میسج کر کے کہا اپ کی شہرت بطور فنکار ہے، اسے بطور ذاکر بنانے کا فیصلہ غلط ہے۔ فورا جواب میں بولا “سوری استاد جی، دراصل کچھ دن سے پرانے شیعہ دوستوں سے روز شام کو ملاقات ہو رہی ہے، اسکا اثر لگتا ہے، ابھی کسی دیوبندی دوست کو ملنے جاتا ہوں”۔ وہ ایسے ہی مسکرا کر بات مان جاتا تھا اور ناراض بھی نہیں رہنے دیتا تھا۔
ناراض اس سے فقط اک بار ہوا جب میری وال پہ اسکا تصادم ایک ناصبی سے ہوا۔ دونوں سے دوستی تھی سو شدید دکھ ہوا مگر میں نے اسے خلاف توقع کوئی بات نا کہی۔ اس نے خود ہی اک معزرت کا میسج بھیجا، اور میرے جواب پہ کہا

“شاید میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔ کی طرح انتہاپسند لوگوں کے ہاتھوں استعمال ہورہا ہوں. واہ واہ اور لائیکس کے انبار نے مجھے بھی پٹری سے اتار دیا ہے۔ میرا انداز تحقیر آمیز اور فرقہ ورانہ ہوتا جارہا ہے۔ سیاسی پوسٹ بھی انتہاپسندانہ ہوتی ہیں اس لیے اگر آپ نا آتے تو یہ اکاونٹ ہمیشہ کیلیے بند کرکے نیا بنانے پر غور کررہا تھا۔
یقین کریں آپ کی وجہ سے کوئی بھی پوسٹ لکھتے ہوئے یہی سوچتا ہوں کہ آپکی طرف سے بستی نا ہوجائے۔ آپ نہی تھے تو کسی کا ڈر خوف نہی تھا سب کی اچھی طرح کلاس لی۔ امید کرتا ہوں آئیندہ بھی رہنمائی فرماتے رہیں گے۔ آپ جو مرضی کہہ لیں آپ میرے دوست ہی نہی محسن بھی ہیں حقیقت یہی ہے باوجود اسکے میں کئی سالوں سے لکھ رہا ہوں اور تصاویر بنا رہا ہوں اچھا لکھتا ہوں یا برا مگر آپ کو اور مکالمہ کو سیڑھی بنا کر اس بلندی پر آیا اور شہرت حاصل کی ہے۔ آپ ایک اشارہ کریں یہ سب یہ اکاونٹ ابھی اسی وقت ختم کرسکتا ہوں۔ آپ کبھی بھی مجھے کم طرف اور احسان فراموش لوگوں میں نہی پائیں گے”۔
اسکی یہ ہی باتیں تھیں کہ ایک ایسا شخص جس سے کبھی ملا بھی نہیں، اسکی موت نے جیسے توڑ کر رکھ دیا اور فون کے ایک کونے پہ لطیف چیخیں مارتا تھا اور دوسری جانب میں گو دونوں نے اسے زندہ کبھی نا دیکھا تھا۔

وہ ایک خداداد آرٹسٹ تھا۔ ظالم ایسی تصویر ایڈٹ کرتا تھا کہ ہر بندے کی خواہش ہوتی تھی کہ کاش یہ میری تصویر ایڈٹ کرے۔ میری اس نے نہ جانے کتنی ہی تصویریں ایڈٹ کیں۔ اک بار کہنے لگا باس اپ کیلئے بڑی سیکسی لڑکی دھونڈی ہے، اور مجھے میری ہی زنانہ فوٹو شاہ بھیج دی۔ مجھے میری دلہا بنی تصویر بھیجی تو میں نے کہا یار میرا تے ویاہ نو دل کر پیا اے۔ کئی تصاویر اسکو لگانے نا دیں جو آج اسکی یاد کے طور پہ پہلی بار لگائیں۔ اک بات است کہا یار ڈرتا ہوں کہ تو میرے خلاف ہو گیا تو نہ جانے کیا حال کرے گا۔ کہنے لگا “استاد جی، میں راجپوت ہوں، مرتے دم تک نبھاؤں گا”۔ میں گواہی دیتا ہوں عمران، تم نے مرتے دم تک ایسی نبھائی کہ جو ٹوٹی ہے تو مجھے توڑ گئی ہے۔

اس نے کئی بار کئی مشہور شخصیات کی تصاویر ایڈٹ کر کے لگائیں مگر شاید ہی کسی نے برا منایا ہو۔ اس سے بس اک بار درخواست کی تھی کہ عمران بس کبھی طفیل ہاشمی صاحب کی مت بنانا، اس نے ہمیشہ مان رکھا۔ ابھی پچھلے ہی دنوں میں بھائی عامر خاکوانی کی توجہ اسکے آرٹ کی جانب دلا رہا تھا کہ کیا کمال آرٹسٹ ہے۔ سچ بتائیے کیا اسکی بنائی تصاویر، خواہ اپ کا مذاق ہی اڑاتی ہوں، ہنسا نہیں دیتی تھیں؟ یہ شاید اسکے آرٹ کی معراج تھی کہ جس کا مذاق اڑایا جائے وہ خود بھی انجوائے کرے۔

کہتے ہیں فیس بک کے تعلق گہرے اور پائیدار نہیں ہوتے۔ آج وال وال اسکی جوان موت پہ ماتم بپا ہے۔ یہ گواہی ہے کہ اچھا انسان اگر کبھی نا ملا ہو تو بھی دل میں گھر کر جاتا ہے۔ اپ میں سے کتنوں کو پتہ ہے کہ اسکا مسلک کیا تھا؟ ہر مسلک و مذہب والا اس کیلئیے دعاگو ہے، کیونکہ وہ محبتیں اور مسکراہٹیں بکھیرتا تھا۔ پس جو محبتیں بانٹیں، وہ دعا کیلئیے کسی مذہبی یا مسلکی شناخت کے محتاج نہیں رہتے، وہ سب کے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ہمارا عمران سب کا تھا، جس کیلئیے دنیا کے کونے کونے میں موجود لوگ روتے ہوے اک دوجے کو پرسے دے رہے ہیں۔ دوستوں عمران زندہ رہے گا، اپنے آرٹ میں، اپنے دو چھوٹے چھوٹے بچوں میں جنکو شاید ہماری محبتوں کی ضرورت پڑے جو ہم پہ اس کا قرض ہے اور اس مکالمہ و محبت کی روایت میں جس نے ثابت کیا کہ محبت نفرت سے طاقتور ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اچھا میرے عمران
اچھا میرے فنکار
الوداع
خدا تجھے جنتوں میں اعلی گھر دے، حوروں کے کارٹون بنائے اور اہل جنت کو ہنسائے۔
اس دن عید مبارک ہو سی، جس دن فیر ملاں گے

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply