ضلع کرک کرپشن کے میگا سکینڈلز اور تحریک انصاف

ضلع کرک خیبرپختونخوا کا جنوبی ضلع جو پشاور سے جنوباً 125 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جہاں کی آبادی سو فی صد پشتون اور خٹک قبیلے کے لوگوں پر مُشتمل ہے۔ خواندگی کا تناسب مجموعی طور پر 64 فی صد ہے ۔اور بظاہر لگتا یہی ہے،کہ اگلے پندرہ سالوں میں سو کا ہندسہ پار کرلے گی۔یہاں کا چھیانوے فی صد رقبہ بارانی ہے ۔جس کی وجہ سے زراعت کا مُکمل انحصار بارشوں پر رہتا ہے۔ پانی کے ڈیمز جہاں پر ہیں،وہاں کاشتکاری نہیں ہوسکتی اور دوسرے کاروباری مواقع نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا ننانوے فی صد انحصار سرکاری یا پرائیویٹ نوکریوں پر ہی ہوتا ہے۔قدرتی وسائل سے مالامال ضلع جہاں کے نمک کے ذخائر اگلے پانچ سو سالوں تک ملکی ضروریات کیلئے کافی ہیں۔ یہاں چار آئل فیلڈز ہیں۔جو روزانہ لاکھوں بیرل پٹرول کی پیداوار دیتے ہیں۔اور قدرتی گیس کی بلاتعطل سپلائی ماسوائے کرک کے باقی پورے خیبر پختونخوا کو چوبیس گھنٹے جاری و ساری رہتی ہے۔یورینم کے وسیع ذخائر ابھی حال ہی میں دریافت ہوئے ہیں۔ان سب ذخائر اور وسائل کے باوجود اس ضلع کے تعلیم یافتہ باسی پانی،صحت اور تعلیم کیلئے ترس رہے ہیں۔جو کہ ناقابل یقین صورت حال ہے۔

ضلع کرک کے لوگ تجربات اور اُمید وپیہم کے بیچ لٹکےاپنی زندگی گزار رہے ہیں۔پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کو اس ضلع سے اس لئے شکوہ نہیں ہونا چاہیئے کہ ان لوگوں نے سب کو بھرپُور مواقع دیئے ہیں۔ جمعیت عُلماءاسلام، اے این پی، پی پی پی، مسلم لیگی تمام دھڑے اور آج پاکستان تحریک انصاف حکومت کے مزے لوٹ رہی ہے۔ وقت بدلا ،ہر چیز بدل گئی،مگر نہیں بدلی تو اس بدقسمت خٹک قبیلے کی قسمت نہیں بدلی۔میں کافی عرصے سے یہی سوچتا رہا،کہ قابل فخر تعلیمی استبداد رکھنے والے لوگ پھر بھی اتنے پسماندہ اور مظلوم کیوں ہیں؟ تو اپنے تئیں ایک سروے کرنے کی ٹھان لی اور دس دن کے سروے کے بعد میں ششدر رہ گیا یہ جان کر،کہ تعلیم پوری کرنےاور علم حاصل کرنے میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کرک میں زراعت اور دوسرے کاروباری مواقع نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم لوگوں کی ضرورت اور مجبوری دونوں بن چکی ہے۔اگر وہ تعلیم حاصل نہیں کریں گے۔تو دو وقت کی روٹی حاصل کرنا اُن کیلئے ناممکن ہوجاتی ہے۔پس لوگ صرف نوکری حاصل کرنے کے لئے ڈگریاں لیتے ہیں اور جہاں علم روزگار کا مرہون منت ہوجائے وہاں کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہےپھر۔

کرک میں امن و امان کی شرح اس لئے اچھی ہےکہ ایک تو لوگ پولیس اور عدلیہ پر بالکل بھی یقین نہیں رکھتے اور دوسرا یہ کہ جوان لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں ۔کیونکہ اٹھارہ یا پچیس سال کی عمر کے لوگ نوکریوں کیلئے دیار غیر یا دوسرے صوبوں کو منتقل ہوجاتے ہیں۔لہذا یہاں پولیس کا کوئی کریڈٹ نہیں ہوتا۔مذہبی انتہاء پسندی یہاں اس لئے نہیں پنپ سکتی،کیونکہ ہر گھر کا جوان آرمی یا ایف سی میں ہوتا ہے۔لہذا والدین یا خاندان والے ایسے کسی گروہ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔جن گروہوں کے نشانے پر ان کے بچے ہوں۔اس علاقے کی بدقسمتی بھی یہی ہے کہ وہاں ضلعی ناظم بھی تحریک انصاف کا ہے اور ایم پی اے، ایم این اے بھی تحریک انصاف سے ہیں۔ باقی دو اور آزاد اُمیدوار بھی تحریک انصاف کے پے رول پر ہیں۔سو ہم کہہ سکتے ہیں،کہ ضلع کرک بلا شرکت غیرے تحریک انصاف کا حکومتی گڑھ ہے۔

اب آتے ہیں کرپشن کے ان میگا سکینڈل کیسز کی طرف،جہاں رائلٹی کی مد میں سینکڑوں ارب روپیہ اسی ضلع کو مل رہا ہے۔مگر پھر بھی یہاں کا اِنفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہے۔ سڑکیں بہت بُری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ما سوائےایک سڑک کے، جو کوہاٹ تا بنوں جا رہی ہے۔بلا شُبہ وہ بہترین سڑکوں میں شمار ہوتی ہے۔مگر یہ سڑک بھی جمعیت علمائے اسلام کے درانی نے اپنے تعلقات کی بنیاد پر بنوں کے عوام کیلئے بنائی۔ جس سے کرک کے عوام کو بھی پرائی سہی پر ایک سہُولت مُیسر آگئی ہے۔سورڈاگ تا کرک کی سڑک جو پندرہ کلومیٹر لمبی مرکزی سڑک ہے۔اس پر گاڑی چلانا تو دُور کی بات،آپ پیدل بھی نہیں جاسکتے۔کرک کے قریب دو کلومیٹر کی سڑک پر پچھلے تین سال سے کام جاری ہے۔مگر سڑک مکمل ہو کے ہی نہیں دے رہی۔ آج بھی اسی طرح جگہ جگہ سے اُدھڑی ہوئی حالت میں پڑی ہے۔

سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کا اندازہ آپ اس بات لگا سکتے ہیں کہ اندر بیٹھا ڈاکٹر آپ کو اپنے پرائیویٹ کلینک پر رجوع کرنے کا مُخلصانہ مشورہ دیتا ہے۔جہاں پر آپ کا ایک وزٹ دو سے تین ہزار روپے تک کی ضرب ہے۔جو کہ ستر فی صد لوگوں کے بس سے باہر ہے۔لہذا لوگ جھاڑ پُھونک اور تعویز گنڈے کروا کے مریض کو شفاء دلوانے پہ مجبور ہونے کے ساتھ ساتھ اعتقاد و یقین بھی رکھتے ہیں۔بانڈہ داؤد شاہ جو کہ کرک کی انتہائی گُنجان آباد اور پسماندہ تحصیل ہے۔وہاں کے مرکزی ہسپتال میں کسی ڈاکٹر کا نام و نشان تک نہیں ہے۔یونیورسٹی کی خواہش یہاں عشروں سے تھی۔بالآخر اے این پی کی سابقہ حکومت نے یہاں ایک یونیورسٹی کی منظوری دے دی۔ یہ دنیا کی واحد یونیورسٹی ہے۔جس کی قسمت میں فقط پانچ ہزار گز کی زمین آئی ہے۔ اس سے بڑے رقبے پر وہاں کے مقامی ایم پی اے گل صاحب خان کا گھر ہے۔ خستہ حال تعمیر شُدہ عمارات وفاق اور صوبائی حکومتوں کے عدم توجہ کی شاندار مثال ہے۔

بجلی کے بارے مجھے یقین ہے کہ ضلع کرک کے لوگ اپنے بچوں کو کتابوں کی حد تک بتاتےاور دکھاتے پھریں گےکہ بجلی نام کی کوئی سہولت بھی اس ضلع میں کبھی ہوا کرتی تھی۔ چوبیس میں سےاٹھارہ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ صرف کرک شہر میں ہوتی ہےجبکہ گاؤں اور دیہات میں رہنے والے لوگ بجلی کے تاروں سے گیلے کپڑے سُکھانے کا کام لے رہے ہیں۔سنٹرل جیل کرک جس میں قیدیوں کیلئے پینے کا پانی اور شدید گرمی میں جنریٹر کا بندوبست جیل کا عملہ اپنی جیبوں سے کررہا ہے،ناقابل بیان حد تک تکلیف دہ احساس تھا۔

اب آتے ہیں میگا کرپشن سکینڈلز کی طرف جس میں صُوبائی حکومت کیساتھ ساتھ وفاقی حکومت بھی شانہ بہ شانہ کھڑی اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ریفائنریز سے کروڈ آئل چوری کیا جارہا ہے۔جس کے بارے میں مقامی اخبارات میں سہ سطری خبریں کبھی کبھار منظر عام پر آجاتی ہیں۔یہ سکینڈل آج سے چھ ماہ قبل بیس ارب روپے کا تھا۔مگر آج سو ارب روپے کے ہندسے کو پار کرچکا ہے۔ اس میگا کرپشن کی تحقیقات کیلئے سینٹ کمیٹی بھی بن چکی ہے۔مگر ایک تفتیشی وزٹ کے بعد ٹیم گدھے کے سر سے سینگ کی طرح منظر نامے سے غائب ہوگئی اور تاحال اس رپورٹ کا کچھ پتہ نہیں چلا۔چوری میں ملوث ٹینکرز کئی بار پکڑ لئے گئے۔جس کی خبریں مقامی اخبارات میں بھی چھپیں۔مگر کوئی نادیدہ ہاتھ ان چوریوں کا ریکارڈ تک غائب کروا دیتا ہے۔

مُصدقہ اطلاعات کے مطابق کوئی بھی ریفائنری بتیس سے زیادہ والز نہیں لگاسکتی۔مگر ماشاءاللہ مول کمپنی نے چونسٹھ والز لگائے ہیں۔ جہاں بتیس والز کا پیداواری ریکارڈ ہی نہیں ہوتا۔اس میگا کرپشن کے ڈانڈے دروغ برگردن راوی، چوکیدار، مقامی پولیس، سیاسی رہنماء، کمشنر ،ایم پی اے،وزیراعلیٰ اور وزیراعظم ہاؤس سے جا ملتے ہیں۔ اگر اس جھوٹ پر ہلکا سا بھی یقین کرلیا جائے تو وزیراعظم ہاؤس سے بنی گالا کا فاصلہ بھی کوئی اتنا زیادہ تو نہیں ہے پھر۔عمران خان کا نعرہ تھا کرپشن کا مکمل طور پر خاتمہ۔۔مگر یہاں تو پوری کی پوری دال ہی کالی ہے۔اُنگلیوں سمیت سر بھی کڑاہی میں لتھڑا ہوا ہے۔تحریک انصاف کو اس کی ذمہ داری لینی ہوگی۔کیونکہ صوبائی حکومت ان کی ہے۔ چلو اگر وہ ریفائنری کے کرپشن کا بوجھ وفاق کے کاندھے پر رکھ دے۔مگر اس اربوں روپے کی رائلٹی،جو ضلع کرک کو ملتی ہے۔اس کی سو فی صد ذمہ داری تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے۔

رائلٹی کا بڑا حصہ پینے کے پانی کیلئے مُختص کیا گیا ہے۔مگر حیرت کی بات یہ ہے،کہ کاغذات میں ایک ٹیوب ویل کا خرچہ پچاس لاکھ روپے لکھا گیا ہے۔جب کہ حقیقت میں ایک ٹیوب ویل پر پندرہ سے اٹھارہ لاکھ روپے تک کا خرچہ آتا ہے۔ حقیقتاً ٹیوب ویلز کی بجائے مقامی ناظمین کو ملی بھگت سے چھوٹے چھوٹے ہینڈ پمپ دیئے گئے ہیں، تاکہ اپنے علاقوں میں لگوا دیں۔مگر ناظم کرک جو ایم پی اے کا بھائی ہے۔اُس نے یہی پمپ مقامی بازار کی دُکانوں پر فروخت کیلئے رکھے ہوئے ہیں۔میرا اپنا بھائی جو ن لیگ کا ایک سرگرم کارکن تھا۔اُس کو یونین ناظم کا ٹکٹ تحریک انصاف سے مُبلغ پندرہ لاکھ روپے میں ملااور وہ آج کل ماشاءاللہ بہترین کاروبار سیاست کررہا بلکہ چمکا رہا ہے۔کرک کے ایم پی اے جناب گُل صاحب خان کے والد جو میونسپلٹی اکاؤنٹنٹ ہیں اوراپنے آپ کو چیف کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ان کی نمائندگی کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کرک کا ڈی۔پی۔او بھی ان کو ہی جواب دہ ہوتا ہے۔

یہاں ایس ایچ او کیلئے تعلیمی قابلیت کوئی اہلیت اور اہمیت نہیں رکھتی ۔بس وہ چیف صاحب کا منظور نظر ہو۔ یہ پیمانہ کافی ہے اُس کے لئے۔جس کی ایک واضح مثال بانڈہ داؤد شاہ کا ایس ایچ او اقبال خان ہے۔جو چیف صاحب کا خاص منظور نظر ہے۔ اس دلچسپ کردار کے بارے میں پتہ چلا کہ پچھلے الیکشن میں موصوف نے گل صاحب خان کی جیت یقینی بنائی تھی۔ لہذا ایک ٹویوٹا کرولا گاڑی تحفے میں دے کر اسے ایس ایچ او بنادیاگیا۔ جبکہ موصوف کوایف آئی آر پڑھنا تو درکنار دستخط کرنا تک نہیں آتا۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہاں کا ایم این اے کہاں ہے؟۔۔۔۔تو جناب الیکشن جیتنے کے بعد وہ کبھی لوٹ کر ہی نہیں آئے۔بس یہ معلومات ہیں کہ ریفائنری سے اپنا حصہ بھرپور طریقے سے لے رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رپورٹ کا مطلب کسی کی دل آزاری بالکل بھی نہیں ہے۔ یہ سب آنکھوں دیکھا حال ہے ۔ تحریک انصاف کی مرکزی اور صوبائی قیادت کرک کی بدحالی کی مکمل ذمہ دار ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آن دا ریکارڈ اس رپورٹ کا جواب دیا جائے۔ورنہ میڈیا ہاؤسز کو مکمل آزادی ہے کہ اپنے وسائل سے اس پر چشم کُشا رپورٹنگ کریں۔تاکہ یہ جو آگ کرک میں لگی ہے۔اس کی حدت بنی گالا تک بھی پُہنچ سکے۔
Type a message…

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”ضلع کرک کرپشن کے میگا سکینڈلز اور تحریک انصاف

  1. لالہ آپ نے کرک کے حالات کی بڑی خوبصورت رننگ کمنٹری کی ہے۔اس کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا ۔ہمیں من حیث القوم قحط الرجال کا سامنا ہے۔

  2. Bss g bhut zabrdast lka hai.ass farsuda nizam mein awam ke sath yhe mazq tu hoga. Bqi rhe surdog to karak mein road ke question direct pti chairman sy mein samaa pr with nadeem ke program kya ta. Ke two mpa one mna distt nazam pti ka. Tu pr be humri roadoo ka yhe hal hai. Ju pakistan banan sy ho ke aya ta. Tu hum as ko kon sy tabdali samji.

  3. چشم کشا حقائق۔۔۔۔۔
    سر ! تیل چوری میں وہاں کے ایم این اے کا والد پوری طرح ملوث ہے۔۔۔۔
    اور اس کے خلاف آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔۔۔ کیونکہ اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔۔۔ نیب سے چھوٹ چکا ہے۔۔۔
    اینٹی کرپشن والوں کو جیب میں لئے پھرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
    پچھلے سور حکومت میں کوہاٹ میں سی ایم او تھا ۔۔ میونسپل کمیٹی کو خوب نچوڑ نچوڑ کر کھایا ہے

Leave a Reply to tariq sheikh Cancel reply