That’s All Folks

کمرے میں اندھیرا تھا۔ دروازے سے ہلکی سفید روشنی کی لکیر اس کے کینوس پر پڑ رہی تھی۔ اس کے آنسو ٹپک رہے تھے۔ آنکھیں سرخ تھیں اور چہرے پہ غم واضح تھا۔ وہ اکیلا تھا۔ دوسرے کمرے میں بیوی اور دونوں بچے نیند کی آغوش میں پہنچ کر خوشیوں بھرے خواب دیکھنے میں مصروف تھے۔ وہ تھا کہ نیند سے کوسوں دور۔ کینوس کے آگے بیٹھا وہ رنگوں سے کھیلنے میں جتا ہوا تھا مگر آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے۔ 

اس نے ایک عزیز کی درخواست پر اسے ایک یادگار ماسٹر پیس ہدیہ کیا تھا۔ غلطی یہ ہوئی کہ یہ کام دنیا کے سامنے کر بیٹھا۔ دنیا جو حسد، جلن کی ماری ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھی، فوراً ہی اس کی تخلیق پہ آوازیں کسنا شروع ہوگئی۔ پہلے پہل اس کے پیارے نے اگنور کیا مگر پھر دنیا کی پھبتیاں سنتے تھک ہار کر اس کا تحفہ ایک کونے کی نظر کر ڈالا۔ 

ایک مصور کی حیثیت سے یہ اس کے فن کی توہین تھی۔ وہ اپنے رفیق کی مجبوری سمجھتا تھا مگر اپنے جذبات اپنے احساسات پہ قابو رکھنے سے قاصر تھا۔ وہ روئے چلا جارہا تھا اور سامنے پڑے کینوس پہ رنگ بکھیرے چلا جارہا تھا۔ ایک وقت آیا کہ تصویر کا رنگ آنسؤوں سے تر کر کے برش پھیرنا شروع کر ڈالے۔ 

وہ مستقبل کی منظر کشی میں گم ہوچکا تھا۔ کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد بھی بھیگی آنکھوں کے ساتھ ایک بار کینوس کو بغور دیکھا۔ “میرے پیارے میری کوئی تصویر پسند کریں یا نہ کریں، یہ ضرور پسند کریں گے” اس نے سوچا۔ 

مگر تصویر میں کچھ کمی تھی۔ کیا چیز کم ہے؟ میں نے اپنا تمام غم، تمام آنسو تو دے ڈالے اب کیا پسند کر سکتے ہیں میرے پیارے؟ وہ سوچتا رہا۔ سوچتا رہا۔ سوچتا رہا۔ پھر اس نے ایک نظر اپنی تخلیق پہ دوبارہ ڈالی۔ ہاں۔ کمی تو ہے۔ تصویر کچھ زیادہ ہی اجلی اور روشن ہے۔ نہیں یہ ٹھیک نہیں۔ 

بھیگی آنکھوں سے اس نے برش کا پچھلا حصہ اپنی کلائی میں پیوست کر ڈالا۔ اس کی نبض سے تازہ گرم لہو ایک فوارے کی طرح امڈ آیا۔ اس نے برش کو لہو میں بھگویا۔ آنسؤوں سے خون کی کثافت کو محدود کیا اور ایک بار پھر کینوس میں مصروف ہوگیا۔ ایک مقام ایسا آیا جب اسے ہچکیاں آنا شروع ہوگئیں۔ خون کی لالی کینوس کو غمزدہ کرنے کے آخری مراحل میں تھی۔ 

بالآخر تصویر مکمل ہوگئی۔ وہ اپنی سیٹ سے اٹھا۔ تین قدم پیچھے ہٹا اور تصویر کو بغور دیکھا۔ اس کے مغموم چہرے پہ ایک افسردہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ “ہاں۔۔ یہ ٹھیک ہے۔۔ اس پہ کوئی پیارا ناراض نہ ہوگا۔ اے پرفیکٹ پینٹنگ” وہ خود سے گویا ہوا۔ تصویر کو دو گھڑی دیکھا، پلٹا، چہرے سے نقاب اتارا اور بولا “That’s all folks”۔ 

گھڑی نے سات بجائے۔ اس کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ اس کے گھر والوں نے چند منٹ اسے جانچا اور پھر اعلان ہوا۔ 

“عمران حیدر ہم میں نہیں رہا”۔ 

تصویر کے نیچے عنوان درج تھا۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

“قیامت تک کے لیے خدا حافظ”۔ 

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply