رؤف کلاسرا اور تحریرِ رشید

نوٹ: محترم ہارون الرشید استاذ الاساتذہ کالم نگار اور سینیئر صحافی ہیں۔ انکی یہ پیروڈی انکو خراج تحسین کیلیے شائع کی جا رہی ہے۔ مصنف
اور انسان خسارے میں ہے۔ بے شک خسارے ہی میں ہے۔
رات کے پچھلے پہر رمضان کی ان بابرکت ساعتوں میں درویش زرا کمر سیدھی کرنے کو لیٹا تو عزیزی بلال نے آگاہ کیا کہ اک لشکر ہے جو رؤف پر امڈتا چلا آتا ہے۔ خدا کی پناہ اک نہتا رؤف اور اس پر حملہ آور ایک ٹولہ جو پاکستان اور اسلام کی نظریاتی سرحدوں کو منہدم کرنے کے درپے ہے۔ کوئی جائے اور بتائے کہ زندگی دوسروں کے عیبوں پر نہیں اپنے محاسن پر جی جاتی ہے۔
اور وہ مبشر زیدی۔ واللہ دکھ ہوا جب سو لفظوں کے کہانی گر اس امروہے کے نفیس سید زادے کا نام آیا۔ ابھی کوئی موزوں شعر افسوس کو تلاش ہی رہا تھا کہ عزیزی بلال نے بتایا یہ ہم نام ضرور ہے مگر امروہے کے سید زادے کا ہم نفس نہیں۔ ایسے شخص کے جھوٹ کو تو فقط یہی کافی ہے کہ ایک مشہور کہانی کار کا نام برتتا ہے۔ اور اس ایبٹ آباد کے سید زادے نے تو جیسے قسم کھا رکھی ہے کہ جو کبھی بھی کسی فوجی کو دیکھ کر مسکرایا وہ ضرور پنڈی کا پروردہ ہی ہو گا۔ دل غم سے بھر گیا۔ صبر حضور والا صبر۔ کتنے زمانے کہ وہ اور اس جیسے انسان کوئی قابل ذکر شے ہی نا تھے۔
عرصہ ہوا کہ عصرِ حاضر کے ولی کے پاس بیٹھا دیسی مرغی کو تڑکا لگتے دیکھ رہا تھا۔ اچانک تسبیح سے سر اٹھا کر درویش نے کہا، “رؤف سے پیار رکھو۔ سادہ شخص ہے۔ ہر بات پر یقین کر لیتا ہے” ۔ ہاں اسی سادگی میں شاید وہ غلطیوں کا مرتکب ہوا ہو، مگر لیہ سے اسلام آباد کا سفر کٹھن بھی تو بہت ہے۔
عامر خاکوانی نے اچھائی کا ثبوت دیا۔ عجب انسان ہے، نا ولی ِحاضر کے پاس حاضر ہوتا ہے نہ با تکلف دیسی مرغی کھاتا ہے، بس جو ملے کھا جاتا ہے، حیرت پھر بھی اچھا لکھتا ہے۔ ایک اور سادہ شخص زندگی جس نے اپنے محاسن پہ بسر کی ہے اور شرافت و دیانت کی قسم جسکی انعام رانا جیسا کایاں سرخا کھاتا ہے۔ رؤف کو ایسے ہی دوستوں کی ضرورت ہے۔ عزیزی بلال سے کہا کہ میں تو ان جھمیلوں سے دور اپنے رب کو راضی کروں گا، وہ مگر فرصت پائے تو خبر لے۔
لیٹے لیٹے بس یہ ہی سوچا، افسوس انسان خسارے میں ہے، زندگی اپنے محاسن پہ بسر نہیں کرتا۔
ہارون رشید بذریعہ انعام رانا

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”رؤف کلاسرا اور تحریرِ رشید

Leave a Reply to طاہرعلی خان Cancel reply