سفید سامراج کے سیاہ جرائم

سفید سامراج کے سیاہ جرائم!
( لبرل ازم کے بنیاد گزاروں کے ہاتھوں افریقہ پر بیتے جبر کی کہانی )
مشتاق علی شان!

افریقہ پر سفید سامراج کی مسلط کردہ سیاہ و مہیب رات پانچ صدیوں پر محیط تھی اور ان پانچ صدیوں کا ایک ایک لمحہ انسانیت کے شرف اور وقار کو پیروں تلے روندنے سے عبارت ہے ۔افریقہ کی یہ پانچ صدیاں مہذب اور متمدن کہلانے والی سفید فام اقوام یعنی سفید سامراج کے سیاہ اور گھناؤنے جرائم کی تاریخ ہے۔ اس تاریخ کا ایک ایک ورق مظلوم انسانوں کے لہو اور اشکوں سے لکھا گیا ہے اوران جرائم کا دائرہ افریقہ سے لے کر جنوبی و شمالی امریکا،ایشیا اور آسٹریلیا تک پر محیط ہے۔انسانیت کی جو تذلیل انھوں نے کی ہے اس کا مداوا بجز اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ استعماری عہد کے ان بڑے بڑے شیطانوں کے پنجران کی قبروں سے نکال کر افریقہ ،ایشیا ،لاطینی امریکا وغیرہ کے چوراہوں پر آویزاں کر دیے جائیں۔افریقہ کے باشندوں کو غلام بنانے کی ضرورت سفید سامراج کو اس لیے محسوس ہوئی کہ جنوبی امریکا کے سونے چاندی کے ذخائر لوٹنے کے دوران بڑی تعداد میں وہاں کے مقامی باشندوں( جنھیں ان سامراجیوں نے ریڈ انڈین کا نام دیا تھا)کا بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا گیا۔ اس کے بعد جب وہاں کی زرخیز زمینوں سے پیداوار کا آغاز کیا گیا تو اس کے لیے ان کے پاس افرادی قوت بہت کم تھی ۔چنانچہ یورپ سمیت دنیا بھر کی منڈیوں میں روئی، تمباکو، شکر اور کافی وغیرہ کی بڑھتی ہوئی طلب کے تناظر میں افریقی باشندوں کو غلام بنا بنا کر یہاں جانوروں کی طرح ہانک دینے کا آغاز ہوا۔

افریقہ میں پہلی بار قدم رکھنے والے پرتگیزی شہزادے ہنری نے اس وقت شوقیہ طور پر اس کی ابتدا کی تھی جب وہ 1441میں مغربی افریقہ کے ساحل سے 12 افریقی باشندوں( جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے)کو غلام بنا کر اپنے ساتھ پرتگال لے گیا تھا ۔اس کے بعد محدود پیمانے پر افریقی باشندوں کو پرتگال اور اسپین بطور غلام لے جانے کا آغاز ہوا ۔ جبکہ 1502میں پہلی بار کچھ افریقی غلاموں کو ہیٹی لیجایا گیا۔افریقہ میں پہلے پہل بڑے پیمانے پر غلاموں کی تجارت کی ابتدا 16ویں صدی کے اواخر میں پرتگال نے انگولا پر حملوں سے شروع کی اور اس کا دائرہ دیگر پرتگیزی مقبوضات تک پھیلتا چلا گیا ۔بعدا زاں برطانوی، ہسپانوی ،فرانسیسی ،جرمن اور ولندیزی وغیرہ بھی اس گھناؤنے عمل میں شریک ہو گئے۔1593سے1700تک 30لاکھ افریقی باشندوں کو غلام بنا کر لاطینی امریکا بھیجا گیا اگلے سوسال تک مزید 3ملین افریقی غلام بنائے گئے۔1811سے 1870تک کے عرصے میں 109ملین افریقیوں کو جانوروں کی طرح فروخت کیا گیا۔یعنی مجموعی طور پر 120ملین افریقی باشندے غلام بنائے گئے ۔

History Of The United Statsکے مصنفBain Craftنے افریقیوں کو غلام بنانے کی ہولناک تصویر کچھ اس طرح پیش کی ہے کہ’’افریقہ میں غلاموں کو حاصل کرنے کا عام طریقہ یہ ہے کہ رات کے اندھیرے میں گاؤں پر حملہ کر دیا جائے اور ضرورت ہو تو گاؤں میں آگ لگا دی جائے،جب گاؤں کے لوگ اس آگ سے بچنے کے لیے برہنہ بھاگ کھڑے ہوں تو ان کو پکڑ لیا جائے جبکہ مزاحمت کرنے والے کو گولی سے اڑا دیا جائے۔‘‘
اٹھارویں صدی میں نائجیریا کے ایک سابق انگریز گورنر نے اپنی کتابHistory Of Nigeriaمیں افریقی غلاموں کے متعلق لکھا کہ ’’ ہر ایک سفر میں بیسیوں غلام مر جاتے تھے اور بہت سے موت سے بھی بدتر اذیتوں سے بچنے کے لیے موقع ملتے ہی سمندر میں کود جایا کرتے تھے۔کھانے پر مجبور کرنے کے لیے عورتوں اور مردوں کو کوڑے لگائے جاتے تھے جبکہ شدید بیماری اور اذیت کی وجہ سے کھانا نہ کھا سکنے والے غلاموں کو کھانے پر مجبور کرنے کے لیے گرم سلاخ استعمال کی جاتی تھی۔جہاز کے عہدے داروں اور ملاحوں کو عورتوں کی حد تک غیر معمولی اختیارات حاصل تھے۔غلام مردوں کو ہتھکڑیوں اور پیروں میں زنجیروں کے ساتھ باندھا جاتا تھا ۔غلاموں کو ایک دوسرے کے اوپر اس طرح ٹھونسا جاتا تھا کہ وہ صرف ایک پہلو پر ہی لیٹ سکتے تھے ۔1785میں ایک جہاز700 غلاموں کو لیکر چلا جو اس قدر بھرا ہوا تھا کہ جب یہ ویسٹ انڈیز پہنچا تو آدھے سے زیادہ غلام مر چکے تھے۔ ‘‘

History Of Nigeriaکا یہی مصنف بعد کی صورتحال کو غلاموں کے ایک ڈچ تاجر ولیم یوسین کی زبانی یوں بیان کرتا ہے کہ’’جہا ز سے اتارے جانے کے بعد ان غلاموں کو ایک کھلے میدان میں لایا جاتا تھا جہاں ان کو مکمل برہنہ کرکے معائنہ کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد لوہے کی ایک آگ میں سرخ کی ہوئی سلاخ جس پر کمپنی کا نام یا نشان ہوتا تھا ،سے ان غلاموں کے سینوں کو داغا جاتا تھا ۔یہ ہم اس لیے کرتے تھے تاکہ اپنے غلاموں کو شناخت کر سکیں۔مجھے شبہ نہیں کہ آپ اس تجارت کو بہیمانہ سمجھیں گے لیکن یہ ضرورت کی وجہ سے ہے اس لیے اس کو جاری رہنا چاہیے،لیکن ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان کو زیادہ گہرے داغ نہ ہوں خصوصاً عورتوں کو جو مردوں کے مقابلے میں زیادہ نازک ہیں۔‘‘

یہ ہے افریقہ کے غلام بنائے جانے والے باشندوں کی وہ تصویر جو کسی اور نے نہیں بلکہ خود سفید فام مصنفین نے کھینچی ہے۔انسانیت کی تاریخ کے بدترین اور گھناؤنے ترین جرائم میں سے ایک بڑے جرم یعنی غلامی کا ارتکاب ان لوگوں نے کیا جو اپنے تئیں دنیا کو وحشت اور جہل کے اندھیروں سے نکالنے چلے تھے۔ان کی شقی القلبی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے قبل کی تاریخ میں غلام صرف جنگوں کے نتیجے ہی میں بنائے جاتے تھے مگر سفید سامراج نے اسے باقاعدہ انسانی شکار میں تبدیل کر دیا۔اس انسانی شکار اور کاروبار میں مذہب کے ٹھیکے دارپادریوں کا کردار بھی انتہائی مکروہ رہا ،جو ایک طرف تو افریقی باشندوں کومسیحی بناتے رہے تو دوسری جانب وہ مذہب ہی سے ان کی غلامی کے لیے دلائل بھی تراشتے رہے۔ جنوبی افریقہ کے ایک قبائلی سردار نے ان کی قلعی ان الفاظ میں کھولی کہ’’ جب یہ آئے تو ان کے پاس بائبل اور ہمارے پاس زمین تھی،اب ان کے پاس زمین اور ہمارے پاس بائبل ہے‘‘۔

بہر حال یہ تو ایک مظلوم افریقی کے الفاظ تھے مگر 19ویں صدی میں ’’بشپ ولیم میڈس‘‘ نے آقاؤں اور غلاموں کے لیے جو کتاب لکھی اس میں ’’مقدس بشپ‘‘ آقاؤں سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ ’’ خداوند نے تمھیں اس کا حق عطا فرمایا ہے کہ تم ابد الآباد تک ان افریقیوں کو غلام بنا کر رکھو ‘‘۔ جبکہ اس کتاب میں بشپ صاحب افریقی غلاموں کو یہ تاکید کرتے ہیں کہ’’خدائے بزرگ و برتر اس جہان میں تم کو غلام بنا کر راضی ہوا۔ اس نے اس دنیا میں تمہاری تقدیر محنت اور افلاس پر بنائی ہے،جس کے سامنے تمھیں سر تسلیمِ خم کرنا چاہیے ۔کیونکہ خداوندکی یہی مرضی ہے اور ہونی بھی چاہیے ۔تم جانتے ہو کہ تمھارے جسم اپنے نہیں بلکہ تمھارے حاکموں کی مرضی اور اختیار میں ہیں‘‘۔اپنی غرض کا مارا اور حاکم طبقات کے مفادات کا دفاع مذہب سے کرنے والا یہ بشپ مزید زہر افشانی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ’’تمھیں سزا ملی تو یا تم اس کے مستحق تھے یا نہ تھے لیکن چاہے تم فی الحقیقت اس کے سزاوار تھے یا نہ تھے ،تمھارا یہ فرض ہے کہ خداوندِ قدوس کی تمھارے متعلق یہ مرضی ہے کہ تم اس کو صبر وشکر سے جھیلو ۔اور فرض کرو کہ تم پر الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں اس لیے ناجائز طور پر تم نشانۂ ظلم ہو تو بھی کیا یہ ممکن نہیں کہ تم نے کوئی اور برا کام کیا ہو جس کا تمھیں شعوری طور پر کبھی پتہ نہیں چلا، لیکن خداوندِ قدوس جو دیکھ رہا تھا کسی نہ کسی وقت اس کی تمھیں ضرور سزا دیتا۔کیونکہ تم بہرحال سزا سے بچ نہیں سکتے تھے۔‘‘اس زمانے کے بڑے بڑے مشہورپادری ولیم پن،ریورنڈ چارج، مصائٹ اور ایڈورڈوغیرہ نہ صرف خود سینکڑوں غلاموں کے مالک تھے بلکہ ان کی تجارت میں بھی حصہ دار تھے۔

یہ تو خیر تھے ہی مذہب کے ٹھیکہ دار جن سے اور امید بھی کیا کی جا سکتی تھی مگر حیرت ہے یورپ کے ان مفکرین اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد پر جو اس مسئلے پر لب بستہ نہیں رہے بلکہ انہوں نے اپنی ذہنی پستی اور اخلاقی گراوٹ کے ایسے ایسے نادر نمونے چھوڑے ہیں جو انسانیت کے رخسار پر طمانچوں سے کم نہیں ۔چنانچہ ریڈ یارڈ کپلنگ جیسا سفید فام نسل پرست ’’سیاہ فام اور رنگ دار اقوام کو سفید فام انسانوں کے کاندھوں کا بوجھ‘‘ کہا کرتا تھا ۔یہ وہی بدنام زمانہ ریڈ یارڈ کپنلگ تھا جو محکوم اقوام کو ’’آدھے شیطان اور آدھے بچے‘‘۔(half devil and half child) کہا کرتا تھا ۔میکڈفے برسرِ عام یہ کہتا پھرتا تھا کہ’’ غلامی جمہوریت کے ایوان کا سنگِ بنیاد ہے ،کیونکہ میں اس عقیدے کو فالتو و بیکار سمجھتا ہوں کہ تمام انسان برابر ہیں ۔‘‘1788میں معروف یورپی شاعر ولیم کوپر نے غلامی کی متعلق نظم میں اپنے ذہنی افلاس کا ثبوت کچھ اس طرح فراہم کیا ہے۔
’’میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں غلاموں کی خریداری پر اداس ہو جاتا ہوں
اور میں جانتا ہوں کہ ان کی خریدوفروخت کرنے والے بد معاش ہیں
میں غلاموں کی سختیوں ،اذیتوں اور تکالیف کے بارے میں جو کچھ سنتا ہوں
اس سے ایک پتھر سے بھی رحم وتاسف کے جذبات پھوٹ پڑتے ہیں
مجھے ان پر رحم آتا ہے مگر میں خاموش ہو جاتا ہوں
کیونکہ ہم آخر کس طرح بغیر شکر اور رم کے گزارہ کریں گے۔‘‘

برطانوی مصنف ڈاکٹر رابرٹ فاکس نے1850میں’’ انسانی نسلیں‘‘ نامی کتاب میں لکھا کہ ’’ایک سیاہ فام ،ہوٹن ٹن، یا کافر کی کسے پرواہ ہے؟یہ مسائل پیدا کرنے والی نسلیں ہیں لہذا انھیں جتنی جلدی راستے سے ہٹا دیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔‘‘اپنی گوری چمڑی کا اسیر رابرٹ فاکس مزید لکھتا ہے کہ ’’ چونکہ سیاہ فام اقوام جانوروں کی مانند اپنے وجود کو ایک چھوٹے سے دائرے میں محدود رکھتے ہیں اس لیے اگر انھیں تباہ کر دیا جائے تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا‘‘۔اہلِ یورپ کے یہ بیمار خیالات بعد میں اس نسل پرستی پر منتج ہوئے جس نے جنوبی افریقہ ،نمیبیااورروڈیشیا وغیرہ سے لے کر یورپ وامریکہ تک میں سیاہ فام اور رنگدار انسانوں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ انسانی تاریخ کا سلگتا ہوا باب ہے۔انہوں نے علمِ بشریات ،نظریہ ارتقا اور دیگر سائنسی علوم کو بھی اپنی نسل پرستی کا آلہ بنانے میں عار محسوس نہیں کی ۔یہی وجہ ہے کہ فاشزم کے خالق بھی یہی سفید سامراجی ٹھہرے اور انہوں نے ہٹلر ،مسولینی اور فرانکو جیسے درندوں کو جنم دیا ۔

جہاں تک غلامی کو غیر قانونی قرار دینے اوراس کا خاتمہ کر دینے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں بھی یورپی سرمایہ داروں کا خبیث باطن کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔لکھنے والوں نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ اس کے پسِ پشت دراصل اہلِ یورپ بالخصوص انگریزوں کی انسانی ہمدردی کا جذبہ کار فرما تھا جنہوں نے سب سے پہلے1787میں غلامی کے خاتمے کے لیے ایک انجمنQuakers قائم کی تھی۔ اس زمانے میں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی نے’’تھامس کلارکسن‘‘کو غلامی کے موضوع پر بہترین مضمون لکھنے پر انعام سے بھی نوازا۔ 1833میں برطانیہ میں ایکٹ آف ایمینسی پیشن(Emancipation)کی رو سے غلامی کا خاتمہ کر دیا گیا۔باقی جگہوں پر 1865جبکہ برازیل میں غلامی کا خاتمہ 1888میں ہوا۔دراصل انسانی غلامی ہو یا اس کا خاتمہ ،ان دونوں کی وجہ سفید سامراج کے معاشی مفادات ہی تھے۔ جب تک غلامی انگریزوں کے معاشی مفادات پورے کرتی رہی اس وقت تک انہوں نے اس سے خوب خوب فائدہ اٹھایا مگر جب یہی انگریز اپنی صنعتی ترقی کی بدولت عالمی سامراجیت کے سر خیل بنے اور ان کی خوشحالی کا درومدار اب غلاموں پر نہیں رہا بلکہ ایشیاو افریقہ کی منڈیاں اور ذرائع ان کے لیے زیادہ پرکشش ہو گئے تو وہ غلامی کے خاتمے کی طرف مائل ہوئے۔انگریزوں نے دیگر یورپی سامراجی اقوام پرتگال، فرانس ،اسپین وغیرہ ،جن کی شکر کی سستی پیداوار اور تجارت غلاموں کی رہینِ منت تھی اس کا زور کم کرنے اور اپنی شکر کی منڈیاں بچانے کے لیے غلامی کے خاتمے کا ڈول ڈالا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خود پرتگیزیوں نے برطانیہ کی ان کوششوں کی مذمت میں چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا کہ ’’غلامی کے خاتمے کی تحریک کے پیچھے برطانیہ کے سامراجی مفادات ہیں۔وہ اپنی ہندوستانی شکر کی پیداوار بڑھانے اور اس کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنے کی غرض سے ایسے ممالک کو جو شکر پیدا کرتے ہیں ،ختم کرنا چاہتے ہیں اور غلامی کے خاتمے کے بعد برطانیہ سمندروں بالخصوص افریقی ساحلوں کو اپنے قابو میں لانے کا خواہش مند ہے۔‘‘غلامی کے خاتمے کا ایک بڑا سبب غلاموں کی وہ مسلسل بغاوتیں بھی تھیں جن کا تاریخ سے ذکر ہی گول کر دیا گیا ہے۔ بہرحال غلامی کے خاتمے کے پیچھے نئے مفادات کارفرما تھے ورنہ دیکھا جائے تو غلامی کے باقاعدہ خاتمے کے بعد بھی ان سفید فام اقوام نے ان کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک ہی روا رکھا اور اس کا مظاہرہ وہ آج بھی اپنے ممالک میں سیاہ فام اور رنگدار محنت کشوں کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں۔

یہاں اس امر کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جب انگریزوں نے ان غلاموں کے ذریعے ایک نئی دنیا (ولایاتِ متحدہ امریکہ ) آباد کرلی جس کی بنیادیں افریقی غلاموں کی ہڈیوں پر رکھی گئی تو پھر ان کی ایک بڑی تعداد کو اس ’’جنت‘‘ سے مستفید ہونے کی بجائے 1920میں افریقی ملک لائبیریا میں دھکیل دیا گیا اور طرفہ تماشا یہ کہ اسے ’’آزادی‘‘ کا نام دیا گیا۔افریقہ کے حوالے سے سفید سامراج کا ایک اور بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے اپنی وحشیانہ لوٹ مار کے لیے اس خطے کے حصے بخرے کر کے اسے آپس میں تقسیم کیا ۔اس عمل کے نتیجے میں یا تو ایسے لوگوں کو زبردستی آپس میں ملا دیا گیا جن کے درمیان کوئی باہمی ثقافت یا تاریخی تعلق نہیں تھا یا پھر اس کے بالکل برعکس ان کو تقسیم اور ثقافتی طور پر توڑ پھوڑ دیا گیا۔

سفید فام مغربی مورخ تو یہاں تک لکھ گئے کہ یورپی اقوام کی افریقہ آمد سے قبل اس خطے کی کوئی تاریخ اور ماضی نہ تھا ۔لیکن حقیقت کیا ہے؟ اس کو ’’سولومن انکوئی‘‘ نے اپنے مضمون’’ افریقہ کی لوٹ کھسوٹ‘‘ میں یوں بیان کیا ہے کہ’’افریقہ ایک براعظم ہے جہاں پر مختلف اقوام اور ثقافتیں پروان چڑھیں اور افریقہ کے لوگوں نے اب تک یکساں ثقافت یا ترقی کو حاصل نہیں کیا ہے۔جب ابتدا میں یورپی افریقہ میں آئے تو انہیں وہاں مختلف درجوں کی تہذیبیں ملیں۔اُس وقت کچھ قبائل غذا کو جمع کرنے کو اسٹیج پر تھے،کچھ زراعتی معاشرے تھے اور کچھ مویشیوں کو پالنے والے۔اس برِ اعظم میں کئی تہذیبیں پیدا ہوئیں اور ختم ہو گئیں ،یورپی اقوام کی آمد سے بہت پہلے یہاں سون گائی، گھانا،بینن ،آکزم ،زمباوے ،موروئی اور نوبیا کی تہذیبیں عروج پر پہنچ کر ختم ہو گئیں تھیں‘‘۔

دراصل سفید سامراج کی آمد سے بہت ہی پہلے افریقی باشندے فطرت کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے سے بخوبی واقف تھے۔وہ یا تو شکار اور غذا جمع کر کے گزر بسر کیا کرتے تھے یا پھر زراعت سے وابستہ تھے۔زراعت سے افریقی بخوبی واقف تھے اور وہ کھیتوں پر ہل چلانے ،کھاد دینے سے لے کر موسم کے حساب سے کاشت کرنے تک کا علم جانتے تھے اور انہوں نے آب پاشی کا نظام بھی وضح کر رکھا تھا۔سولومن انکوئی لکھتے ہیں کہ ’’وہ (افریقی) صرف غذا کی پیداوار ہی پر توجہ نہیں دے رہے تھے بلکہ ایک اعلیٰ ثقافت بھی تخلیق کر رہے تھے ۔جن میں آرٹ ،مجسمہ،سازی،موسیقی ،فنِ تعمیر اور فولاد و شیشہ کا کام قابلِ ذکرہے۔افریقہ میں قدیم آثاروں سے جو آرٹ کے نمونے دستیاب ہوئے ہیں وہ افریقی تہذیب کی عظمت اور بڑائی کے زندہ شہکار ہیں ۔

علمی میدان میں بھی افریقی ترقی کر رہے تھے اور وہ اپنی زبانوں کے رسم الخط بنا رہے تھے یا اپنے ہمسایوں کے رسم الخط اختیار کر رہے تھے۔افریقی ممالک کے درمیان باہمی تجارتی رشتے تھے جو مصر، مراکش ،الجزائر ،تیونس اور لیبیا تک تجارتی سامان لے کر جاتے تھے۔‘‘یعنی کہ سفید سامراج کی آمد سے قبل افریقی خطہ ایک فطری ارتقائی عمل میں تھا جسے انہوں نے درہم برہم کر کے رکھ دیا۔انہوں نے افریقہ میں ایسی فصلوں کو متعارف کیا جو یورپی منڈیوں کی ضرورت تھی ۔اس سارے عمل کے نتیجے میں یورپی اقوام نے افریقہ کی معیشت کو اپنے مفادات سے جوڑ کر اسے تباہ کر دیا جس کا خمیازہ افریقہ کے عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

( نوٹ : اپنی کتاب ’’ ایملکار کیبرال،جدوجہد اور افکار ‘‘ سے لیا گیا ایک باب۔مشتاق علی شان)

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply