• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بلور ہاؤس۔۔۔ عقب نشینی ہرگز نہیں۔۔۔۔۔۔ نذر حافی

بلور ہاؤس۔۔۔ عقب نشینی ہرگز نہیں۔۔۔۔۔۔ نذر حافی

ہم نے قسم اٹھا رکھی ہے، چپ سادھ لینے کی، مزاحمت اور مذمت نہ کرنے کی، خاموش رہنے کی۔ اتنی بڑی قسم! مفت میں تو نہیں ہوسکتی، اگر مفت میں بھی ہو تو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ ہم سب خاموش رہنے والے اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ ہماری خاموشی ہی ہے کہ جو ہمارے قومی مخالفین کو ظلم و ستم پر جری کرتی ہے، جو ہمارے ملک اور ہماری سرحدوں کے دشمنوں کے حوصلے بلند کرتی ہے۔ ہم جب خاموش ہو جاتے ہیں تو اس سے ظالموں کی امیدوں میں اضافہ ہوتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہاں ابھی فلاں فلاں خاموش ہے، لہذا آگے بڑھا جا سکتا ہے، المختصر یہ کہ حق و باطل اور ظالم و مظلوم کی جنگ میں خاموشی اختیار کر لینا دراصل باطل اور ظالم کی مدد کرنا ہی ہے۔

طالبان نے ایک مرتبہ پھر عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ میں خودکش حملہ کرکے ہارون بلور سمیت متعدد بے گناہ انسانوں کو شہید کرنے کا اعتراف ڈنکے کی چوٹ پر کیا ہے۔ اس سے پہلے 2012ء میں ہارون بلور کے والد اور سابق صوبائی وزیر بشیر احمد بلور کو بھی طالبان نے اسی طرح کے ایک حملے میں شہید کر دیا تھا۔ طالبان ہمیں مجموعی طور پر کئی بلند مرتبہ سیاستدانوں، فوج اور پولیس کے جوانوں اور قیمتی دماغوں سے محروم کر چکے ہیں۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا، جب تلک ہمارے سرکاری اداروں کی کلیدی پوسٹوں پر طالبان کے سہولتکار بیٹھے ہوئے ہیں اور جب تک ہم بحیثیت قوم طالبانی فکر کے خلاف متحد نہیں ہو جاتے۔ بشیر احمد بلور کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک محب وطن سیاستدان تھے، انہوں نے وحشی درندوں کی طرح کلاشنکوف اٹھانے کے بجائے قانون میں گریجویٹ کیا اور پشاور ہائیکورٹ بار کے رکن بھی رہے۔ 1970ء میں اے این پی جو اس وقت این اے پی کے نام سے زیر قائم تھی، اس میں شمولیت اختیار کی۔

نظام کی بہتری میں ووٹ کا کردار ۔۔۔ بلال محمود

مسٹر بلور 2008ء کے عام انتخابات میں پانچویں مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور دو مرتبہ اے این پی کے صوبائی صدر بھی منتخب ہوئے، 1970ء میں انہوں نے اے این پی سے اپنے سیاسی زندگی کا آغاز کیا 2008ء کے عام انتخابات میں وہ صوبائی حلقہ پی ایف تھری پشاور سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور بعد ازاں چوتھی مرتبہ اے این پی کے سینیئر صوبائی وزیر کی حیثیت سے حلف لیا۔ 22 دسمبر 2012ء کی بات ہے کہ جب عوامی نیشنل پارٹی کی ایک ریلی میں طالبان نے حسبِ عادت ایک خودکش حملہ کیا، جس میں بلور کے علاوہ ان کے سیکرٹری اور ایک اعلیٰ پولیس اہلکار بھی شہید ہوئے۔ عظیم باپ کا عظیم بیٹا ہارون بلور بھی گذشتہ دنوں طالبان کے حملے کا نشانہ بنا۔ حملہ آور نے اس وقت خود کو دھماکے سے اڑایا، جب ہارون بلور تقریر کرنے کیلئے سٹیج کی جانب جا رہے تھے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تعزیت کے لئے ہارون بلور کے گھر بلور ہاؤس بھی گئے، آرمی چیف کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل نذیر احمد بٹ اور ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور بھی اس موقع پر ان کے ہمراہ تھے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ جب طالبان کے ڈسے ہوئے لوگوں کی عیادت و تعزیت کے لئے آرمی چیف گئے ہیں، ہمیں بحیثیت قوم اس حقیقت کو درک کرنا چاہیے کہ ہمارا مقابلہ ایک ایسے گھٹیا دشمن سے ہے، جس کا فکری شجرہ نسب خوارج سے جا کر ملتا ہے اور جو اس قدر گھٹیا اور پست ہے کہ وہ بچوں، بوڑھوں اور خواتین سمیت کسی پر کوئی رحم نہیں کرتا، حتٰی کہ اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے راجہ بازار راولپنڈی کی طرح خود ہی اپنے مدرسے کو آگ لگاتا ہے اور اپنے ہی فرقے کے لوگوں کو قتل کر دیتا ہے۔ ایسے مکار اور عیار دشمن کے مقابلے میں خاموش ہو جانا سراسر ملک و قوم کے نقصان میں ہے۔ جب ہم دشمن کے مقابلے میں عقب نشینی اختیار کرتے ہیں تو اس سے دشمن کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور جب ہم ایک قدم پیچھے ہٹتے ہیں تو دشمن چند قدم آگے بڑھتا ہے۔

پاکستانی عام انتخابات کے نتائج سے ہند و پاک تعلقات کا کیا رشتہ ہے؟۔۔۔افتخار گیلانی

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں ہارون بلور کی لاش کو سامنے رکھتے ہوئے مکار دشمن کو عبرتناک شکست دینے کے لئے متحد ہونا چاہیے۔ ہمیں ریاستی اداروں سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ ملک و ملت کے دشمن اسلحہ بردار جس گروہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں، انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جانا چاہیے۔ اگر ہم نے انتخابات میں دہشت گرد تنظیموں پر پابندی نہیں لگائی اور ان کے سرپرستوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود اس ملک میں دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرکے ہارون بلور جیسے سیاستدانوں کے قتل کے مقدمات فراہم کر رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے مقابلے میں عقب نشینی محض بزدلی اور وطن سے غداری ہے اور ہارون بلور جیسے سیاستدانوں کا خون ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم شہید سیاستدانوں کا پرچم سنبھالیں اور ہرگز عقب نشینی اختیار نہ کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply