کہاں تک سنو گے؟ (ہزارہ قتل عام سے جڑی چند سچی کہانیاں)

1۔ کرب
اس کے دونوں جوان بیٹوں کو ایک ایک کرکے قتل کر دیا گیا۔ بڑے بیٹے کو 2011 میں تب خون میں نہلایا گیا جب علمدار روڑ پر ہزارہ عید گاہ کے قریب خود کش کار دھماکہ کیا گیا۔ وہ عید کا دن تھا، جسے کسی جنونی نے عاشورہ میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ پھر چھوٹے بیٹے کو تب گولیوں سے بھون ڈالا گیا جب وہ کسی جھگڑے میں بیچ بچاؤ کرنے بڑھا تھا۔ خودکش دھماکہ کرکے اس کے بڑے بیٹے سمیت درجنوں لوگوں کو قتل کرنے والے کو جنت کی تلاش تھی جو گاڑی میں بارود بھر کر حوروں کی تلاش میں نکلا تھا، جبکہ کلاشنکوف کی گولیاں برسا کرچھوٹے بیٹے کو خون میں نہلانے والا ایک ایسا جوان تھا جس نے جنت کے متلاشی کسی”مسلمان”کے ہاتھوں “شہید” ہونے سے بچنے کے لیے بھاگ کر کافروں کے ملک میں پناہ لے رکھی تھی۔ خود کش دھماکہ کرنے والا شاید اپنا مسخ شدہ بھیانک چہرہ لیے جنت کی سہمی اور مدد کے لیے پکارتی حوروں کے پیچھے بھاگ رہا ہوگا، جبکہ معمولی بات پر ایک نوجوان کو قتل کرکے واپس کافروں کے دیس لوٹ جانے والا غیرت مند نوجوان بھی وہاں کسی خوبصورت بیچ (Beach) پر نیم برہنہ کافر حسینوں کے درمیان غسل آفتابی میں مصروف ہوگا۔
لیکن اس ماں کا کرب کون محسوس کرسکتا ہے جس کی جنت کو جیتے جی جہنم میں تبدیل کردیا گیا!؟
2۔ ہنر
اس کا درد بھی شاید ہی کوئی محسوس کرسکے جو کل تک زندگی کی تمام رعنائیوں سے بھرپور ایک ہٹا کٹا نوجوان تھا۔ جس کے کسرتی بدن کو دیکھ کر ہر نوجوان کے دل میں یہ خواہش ابھرتی کہ کاش وہ بھی اس کی طرح خوب صورت بدن کا مالک ہوتا۔ شاید اسے کسی کی نظر لگ گئی، تبھی تو وہ ہمیشہ کے لیے معذورہو گیا۔ کسی نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرکے اپنی بارود سے بھری گاڑی ان کی بس سے ٹکرادی تھی۔ آج وہی جوان بستر پر آڑھے ترچھے انداز میں پڑا زندگی کے دن کاٹ رہا ہے۔ دروازے پر ہونے والی ہر دستک پر اسے کسی “اپنے”کے آنے کا گمان ہوتا ہے، جبکہ نظریں دوستوں کے دیدار کو ترستی رہتی ہیں۔ اس کے کرب کا صحیح اندازہ شاید ہی کوئی لگا سکے، البتہ کوئی جاکر اسے یہ مشورہ ضرور دے سکتا ہے کہ وہ ہرگز دل چھوٹا نہ کرے کیوں کہ ہمارے ہاں اہمیت زندوں کی نہیں بلکہ مُردوں کی ہوتی ہے۔
جن کے تابوت سڑک پر رکھ کرہم دھرنا دیتے اور احتجاج کرتے ہیں۔ جن کی قبروں کو سنگ مرمر سے سجانا، ان پر پھولوں کی چادریں چڑھانا اور چراغاں کرنا ہمیں باعث ثواب لگتا ہے۔ جن کے درجات کی بلندی کے لیے دعائیں مانگنا اور نذرو نیاز کرنا ہماری زندگی کا حصہ ہیں، جن کے نام سے گلی کوچے اور سڑکیں منسوب کرکے ہم اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، جن کی قد آدم تصاویر چوراہوں پر لٹکانا ہمارے فرائض منصبی میں شامل ہے اور جن کے نام پر ووٹ مانگنا اور چندہ جمع کرنا ہمیں بُرا نہیں لگتا۔ لیکن ایڑیاں رگڑنے والے زندہ انسان ہمیں نظر نہیں آتے، بلکتے بچّوں پر بھی ہماری نظر نہیں پڑتی نہ ہی مرنے والوں کے پیچھے زندہ رہ جانے والوں کی کسمپرسی ہمیں نظر آتی ہے۔
کیوں کہ ہم مُردوں کو زندہ رکھنے اور زندوں کو جیتے جی مارنے کا ہنرجانتے ہیں۔
3۔ سپورٹس مین
اسکے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ سجی رہتی تھی۔ بات بات پر قہقہے لگانا اس کا معمول تھا۔ میں نے اسے کبھی کسی سے لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا۔ ہم تنظیم کے ہال میں کبھی بیڈمنٹن تو کبھی ٹیبل ٹینس کھیلا کرتے۔ گزشتہ سالوں کے دوران جب کبھی میں تنہائی سے اکتا کر دوستوں یا بچّوں کے ساتھ دشت کی طرف نکل جاتا تو کبھی کبھار اسے واک یا جاگنگ کرتے ہوئے دیکھتا۔ چہرے پر وہی مسکراہٹ ہوتی اور بدن میں وہی چستی۔ 2013 میں علمدار روڑ پر جب کسی “مجاہد”نے اپنے آپ کو اڑا کر مجھے میرے کئی دوستوں سےمحروم کردیا تواس واقعے میں وہ بھی اپنی ایک ٹانگ گنوا بیٹھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیا اب بھی اس کے ہونٹوں پر وہی مسکراہٹ رقصاں رہتی ہے یا کھیلوں کی طرح اس کی مسکراہٹ بھی ماضی کا قصہ بن چکی ہے؟
4۔ برف کاکفن
یونیورسٹی میں وہ مجھ سے کئی سال جونیئر تھا، لیکن ہماری آپس میں گپ شپ ہوتی رہتی تھی۔ وہ ایک کم گو اور لیے دیئے رہنے والا نوجوان تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہماری راہیں جدا ہوئیں اور آمنا سامنا بھی کبھی کبھار ہی ہونے لگا۔ کچھ سال پہلے کسی دوست نے بتایا کہ ترکی سے یونان جاتے ہوئے برفانی طوفان میں اس کی موت واقع ہو گئی ہے۔ یہ خبر میرے لیے جتنی دلخراش تھی اس کے سفر کی داستان اس سے بھی زیادہ رنج آور۔ کسی نے بتایا کہ زندگی کے آخری دنوں میں وہ گھر سے کم ہی نکلتا تھا۔ اس نے دکان پر جانا بھی کم کر دیا تھا۔ اپنے اور بچّوں کے بہتر اور محفوظ مستقبل کے لیے اس نے رخت سفر باندھا تو ترکی سے یونان کا راستہ چنا۔
یونان میں داخل ہونے کے لیے برف پوش وادیوں سے گزرنے لگے تو شاید اسے اپنے خوابوں کی تعبیر سامنے نظر آنے لگی۔ قدموں میں تیزی آئی تو جسم پر پہنے گرم کپڑے اور پیٹھ سے بندھا بیگ بوجھ محسوس ہونے لگا لہٰذا ساتھیوں کےمنع کرنے کے باوجود ایک ایک کرکے انہیں پھینکنے لگا۔ شاید اسے اس بات کا یقین ہو چلا تھا کہ وہ پل صراط پار کر چکا ہے۔ لیکن پھر اس کی ٹانگیں جواب دینے لگیں اور وہ گر پڑا۔ کسی نے اسے کندھوں پر اٹھایا اور وہ پھر آگے بڑھنے لگے۔ لیکن شاید اس برفیلے قبرستان کو پار کرنا اس کے نصیب میں نہیں تھا۔
کچھ دنوں کے بعد اس کی میت کوئٹہ لائی گئی تو اس کا بدن برف جیسے سفید کفن میں لپٹا ہوا تھا!۔
5۔ دشمن جاں
وہ بھی ایک ایسے ہی واقعے میں”شہید” ہوا تھا جب موٹر سائیکل پر بیٹھا خود کش بمبار جلوس میں گھس آیا تھا۔ وہ بڑے جوش اور جذبے سے نعرے لگانے میں مصروف تھا، جب دھماکہ ہوا۔ میں اسے سکول کے زمانے سے جانتا تھا۔ نوجوانی کے دنوں میں وہ بلا کا مقرر تھا۔ فکری لحاظ سے ہم دو متضاد دنیاؤں کے باسی تھے۔ میں انقلاب ثور کا حامی تھا تو وہ ولایت فقیہہ کا پیروکار۔ میں سرخ سلام پھیرنے والا تو وہ درود بھیجنے والا۔ لیکن مجھے اس کی موت کا اتنا ہی صدمہ ہوا جتنا اس کے کسی قریبی ساتھی کو ہو سکتا تھا۔
ہماری آپس میں کبھی نہیں بنی۔ گزشتہ کئی سالوں کے دوران بھی ہمارا کہیں آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ لیکن ایک مرتبہ جب میں سخت بیمار پڑا تو وہی دشمن جاں میری مزاج پرسی کے لیے آیا۔ جاتے جاتے کہنے لگا کہ “بیماری اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے، لیکن مجھے تمھاری بیماری کا سن کر بہت افسوس ہوا۔ اسی لیے پوچھنے چلا آیا”۔ 2010 میں اس کی”شہادت” کی خبر سُنی تو میں سکتے میں آگیا۔ دل سے آواز نکلی کہ موت اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن تمھاری موت کا صدمہ میں زندگی بھر نہیں بھول پاؤں گا۔
اب بھی جب کبھی مجھے اس کی یاد آتی ہے تو ساتھ ہی اس کا اعلیٰ ظرف بھی یاد آتا ہے اور میں رو پڑتا ہوں۔
کہاں تک سناؤں!؟

Facebook Comments

حسن رضا چنگیزی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک بلاگر جنہیں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق لکھنے میں دلچسپی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”کہاں تک سنو گے؟ (ہزارہ قتل عام سے جڑی چند سچی کہانیاں)

  1. Every word written is so true and close to my heart. As I also lost a dear one I could feel the same with tears in my eyes while reading.

  2. اب تو ہر گھر کی یہی حالت ہے۔ یتیم بچے، بیوہ عورتیں اور روٹی ہوئی مائیں بہنیں شیعہ گھروں میں بیٹھے پاکستان کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی ہیں۔ ان کو نہیں پتہ کہ یہ پیارا ملک اب شاید ہمارا نہیں رہا۔ اگر ہم بدلہ بھی لینا چاہیں تو کس سے بازاروں میں معصوم لوگوں کو قتل کرکے؟؟ مگر نہیں ہم کربلا کے راہی ہیں ۔سب کو معلوم ہے یہ حقیقت کہ ہم کبھی بےگناہ پر ہاتھ نہیں اٹھاتے اس لئے تو سب چھپ ہیں ہماری نسل کشی پر

Leave a Reply to Shakila waheed Cancel reply