چوکیدار۔۔۔۔۔ محمد علی/افسانہ

”چلو امجد جلدی سے گاڑی نکالو، آیان بابا کھیلتے میں چھت سے گر گئے”، آصف نے کہا
“ارے ایسے کیسے گر گیا ناہنجار،الو کا پٹھا، دو لگاؤں سالے کے!!!”

امجد اس گھر کا مالی، اردلی،ڈرایئور، چوکیدار سب تھا۔
بلا کا موڈی، ڈنڈی مار اور ہشیار۔
جو بھی کرتا،پکڑا نہ جاتا اور پکڑا بھی جاتا تو ایسی سبیل کرتا کہ نکالا بھی نہ جاسکے،

‘صاب جی، یہ ارد گرد کے اچکے اپنے ہی گرائیں ہیں، دیکھ لیں انہیں ہم نے تگڑم لڑا کے روکا وا ہے ورنہ کب کا وہ یہاں لوٹ مار مچاچکے ہوتے’
اور اس نے کچھ غلط نہ کہا تھا،شہر پر آشوب میں ہر گھر کی یہی کہانی تھی کہ گھر کے بھیدی لنکا خوب ٹھونک بجا کے ڈھادیتے تھے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں،

خیر، آصف کے ہاں دن دہاڑے دو اور رات کے سمے ڈیڑھ ڈکیتیاں پڑ چکی تھیں جس میں مستعد امجد کا کوئی قصور نہ تھا، اور ہوتا بھی کیسے؟ وہ کہتا
“شکر کریں میں نے بھگا دیا ورنہ پتہ نہیں کیا ہو جاتا”
اور گھر والے پتہ نہیں کیا پر ڈر سہم کر،واردات کو بھول بھال کر لگ جاتے اپنے کام سے لیکن نہ کبھی چوری پکڑی جاتی، نہ امجد کو شرم آتی۔
سارا سودا سلف، پٹرول کا حساب، گھر کی دیکھ ریکھ کو وہ خوب چلا رہا تھا،

بات کہاں چلی گئی اور یہاں آیان گرا پڑا ہے، خیر جب آصف نے الو کا خطاب پایا وہ بھی اپنے نوکر سے تو وہ تلملائے بغیر نہ رہ سکا اور دانت پیس کر کہنے لگا،
“حرامخور سالے!میرے سامنے مجھے ہی گالی دے رہا ہے”
جس پر امجد نے تیوری بدل کر کہا،
“صاب جی، ماف کرنا لیکن پھر گڈی اپ خد چلا لو جی، ویسے چلا نہیں پاؤ گے کہ شزادی کو سرف میرے ہاتھ کی آدت ہے”

آیان کو جلدی سے گاڑی میں ڈالا گیا، وہ کراہ رہا تھا، اس کی بائیں ٹخنے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور وہ چلا چلا کر رو رہا تھا۔

آصف:” سیدھے ہاتھ سے یہاں لے لو، یہ والا سب سے اچھا ہے”
ہڈیوں کے ایک ہسپتال کی طرف اشارہ کر کے اس نے کہا،

“نہیں یہ بکار ہے جی، میں بتاتا ہوں کہاں جانا ہے”

“تجھے سمجھ نہیں آرہی میں یہاں کا کہ رہا ہوں، میرے بچے کو کچھ ہوگیا تو؟”

“ہوگا ووگا کچھ نییں صاب، چنگا ہوجائے گا چھوکرا، آگے چلیں وہ وہاں والا زادا اچھا ہے”

“ابے بہت دور ہے وہ”

آیان درد سے تڑپ رہا ہے،

“وہیں ہی لے کر جارہا ہوں ساب، وہ اچھا ہے ،کہ دیا ناں!!!اور زیادا شوک ہے تو آپ پھر خد واپس آئیے گا اس رستے سے”

“اچھا اچھا مردود ،چل جلدی کر پھر” آصف نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا،

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن جب تک دوسرے ہسپتال پہنچے آیان کا کیس بگڑ چکا تھا اور وہ انتہائی نگہداشت میں پہنچ چکا تھا کیونکہ ہوا وہی جو امجد کی مرضی تھی کیونکہ وہ ہسپتال بھی اس کے کسی گرائیں کا تھا،
لیکن آصف بس روتے ہوئے اپنے بیٹے کو دیکھتا رہا،
امجد کو کچھ کیسے کہتا،
اسے واپس گھر بھی تو جانا تھا، اور محافظ کون تھا؟؟؟

Facebook Comments

محمد علی
علم کو خونِ رگِِِ جاں بنانا چاہتاہوں اور آسمان اوڑھ کے سوتا ہوں ماسٹرز کر رہا ہوں قانون میں اور خونچکاں خامہ فرسا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply