عرب شریف قسط دوم

“ہمفرے کی یادداشتیں “ایک برطانوی جاسوس ہمفر کی یادداشتوں کا ایک مجموعہ ہے۔ ہمفرے ایک ایسا برطانوی جاسوس تھا جس نے لارنس آف عریبیہ سے بھی پہلے خلافت عثمانیہ کو توڑنے میں راہ ہموار کی اور اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ یادداشتیں دنیا کی بیشتر زبانوں بشمول اردو میں چھپ چکی ہیں۔ ہمفر نے ایک مسلمان کا روپ دھارا، اپنی جاسوسیوں کی ابتداء ترکی سے شروع کی جس کے بعد وہ عربستان (موجودہ سعودی عرب) چلا گیا جہاں اس نے اسلام میں رخنے پیدا کرنے اور ترکی خلافت کے خلاف عربوں کو ہموار کرنے اور بغاوت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

پہلے پہل یہ یادداشتیں قسط وار جرمنی کے مشہور اخبار شپیگل (Spiegel) میں شائع ہوئیں۔ بعد میں یہ فرانسیسی اخبار لی موند (Le Monde) میں شائع ہوئیں جہاں سے لبنان کے ایک مترجم نےاس کا عربی میں ترجمہ کیا۔ اس کا انگریزی ترجمہ بعنوان “ایک برطانوی جاسوس کے اعترافات اور برطانیہ کی اسلام دشمنی” (Confessions of a British Spy and British Enmity against Islam) ہزمت بکس (Hizmet Books) نے برطانیہ سے شائع کیا۔ ترکی میں ترکی اور انگریزی دونوں زبانوں میں یہ کتاب وقف اخلاص پبلیکیشنز (Waqf Ikhlas Publications: Ihlas Gazetecilik A.Ş. Istanbul) نے استنبول، ترکی سے شائع کی ہے۔اردو میں اس کا ترجمہ” ہمفرے کی یادداشتیں” (جبکہ اصل نام ہمفر ہے) کے عنوان سے شائع ہوا۔

ہمفرے برطانیہ کی وزارتِ نوآبادیات (Ministry of Colonies ) کی طرف سے خلافت عثمانیہ کے زیرِ نگین علاقوں میں آیا۔ اس کا کام دو برطانوی مقاصد کو حاصل کرنا تھا۔ اول یہ کہ موجودہ نوآبادیات میں برطانوی قبضہ کو مستحکم کرنا اور دوم یہ کہ نئی نوآبادیات بنانا خصوصاً اسلامی ریاستوں پر قابض ہونا۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہمفر نے بظاہر اسلام قبول کیا اور ترکی میں رہائش رکھی۔ وہاں اس نے ترکی میں رہائش پذیر عربوں میں ترکوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام کیا۔ یہ دور اٹھارویں صدی کا ابتدائی زمانہ ہے۔ خود ہمفرے کے الفاظ میں اسلامی دنیا میں اس جیسے 5000 برطانوی جاسوس بھیجے گئے تھے جنہیں عربی و ترکی زبانوں کی تعلیم بھی دی گئی تھی۔ اولاً ان افراد کو 1710ء میں بھیجا گیا تھا۔ 1720ء اور 1730ء کی دہائی میں ہمفر نے اپنا کام جاری رکھا۔ اس کے اپنے الفاظ کے مطابق اس نے ایک انقلابی مسلمان کے طور پر محمد بن عبدالوہاب کے ساتھ تعلقات بڑھائے اور اس نے عرب سرداروں اور دیگر اہم افراد کے ساتھ بھی تعلقات بڑھائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمفرے نے 11 تربیت یافتہ برطانوی افراد کو جو صحرائی جنگ کے ماہر تھے، غلاموں کے روپ میں عربوں کو پیش کیا تاکہ وہ ترکوں کے خلاف کام آ سکیں۔ 1730ء سے 1750ء کی دہائی تک محمد بن سعود کی بھی مدد کی۔ برطانیہ نے محمد بن سعود کو مال و دولت کے علاوہ اسلحہ بھی مہیا کیا۔ مجموعی طور پر ہمفر نے کچھ ابتدائی وقت ترکی میں ، کچھ بصرہ میں اور باقی وقت جو بیس سال سے زیادہ ہے عرب علاقوں (موجودہ سعودی عرب) میں گزارا۔ سعودی اور محمد بن عبدالوہاب کے پیروکاروں کا خیال ہے کہ یہ کتاب ترکی زبان میں ایوب صابری پاشا نے لکھی ۔ مگر یہ اعتراض اس لیے درست نہیں کیونکہ یہ کتاب پہلے عربی یا ترکی میں نہیں بلکہ آلمانی (جرمن) زبان میں ایک مشہور اخبار میں ان سے کافی عرصہ پہلے چھاپی گئی تھی۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply