مولا جٹ ایک سیاسی فلم۔۔۔محمد عامر رانا

پاکستان کے سیاسی مستقبل کے بارے ہمارے ساتھ ساتھ  دنیا کی تشویش بھی  ختم ہوتی جارہی ہے۔ یہ زیادہ دور کی بات نہیں ہے جب پاکستان کے مستقبل کے منظر نامے پر وقفے وقفے سے رپورٹیں شائع ہوتی تھیں۔ ظاہر ہے زیادہ تر رپورٹیں مغرب کے تحقیقی اداروں، جامعات اور غور وفکر کرنے والے اداروں کی طرف سے شائع ہوتی تھیں۔ نائن الیون کے بعد اس قسم کی رپورٹوں کی اشاعت میں تیزی آئی تھی، ان میں سب سے زیادہ تشویش پاکستان میں پروان چڑھتی دہشت گردی اور انتہا پسندی سے  متعلق ظاہر کی جاتی تھی۔ کچھ رپورٹیں معیشت اور سماجی شعبے کی ابتر ہوتی  صورتحال پر بھی گہری تشویش کا اظہار کرتی نظر آتی تھیں۔ چند ایک رپورٹیں پاکستان کےلیے تجاویز اور مستقبل کے ممکنہ لائحہ عمل پر بھی روشنی ڈالتی تھیں۔بیرونی اداروں کی بات تو الگ پاکستان کی جامعات، ذرائع ابلاغ پر بھی کبھی کبھار مستقبل کے منظر نامے سے متعلق تشویش بھری آراء  نظر آجاتی تھیں۔مگر اب صورتحال مختلف ہے۔

کچھ سنکی مزاج تبصرہ نگار اور خود ساختہ دانشور اب بھی اٹیٹ شٹیٹ بکتے رہتے ہیں۔ ایک حالات کے مارے آدمی نے پامسٹ کو ہاتھ دکھایا تو اس نے کہا یہ حالات چند ماہ تک رہیں گے، بدنصیب نے خوشی سے اپنے ہاتھ کو میلے کُرتے سے صاف کرتے ہوئے پوچھا کیا اس کے بعد میرے حالات ٹھیک ہوجائیں گے؟  پامسٹ نے کہا تھا” نہیں تم اس کے عادی ہوجاؤگے ” ۔ان سنکیوں کابھی یہی کہنا ہے کہ دنیا ہماری اور ہم حالات کے عادی ہوگئے ہیں۔

ہمارے بزرگ آئی  اے رحمان اکثر ذکر کرتے ہیں  کہ فیض احمد فیض سے کسی نے پاکستان کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ یہ ملک کیسے چلے گا؟ فیض صاحب نے سگریٹ کا کش کھینچتے ہوئے جواب دیا تھا ” بھئ ایسے ہی چلے گا”۔ آئی اے رحمان بھی حالات کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ انہیں یہ واقعہ شاذ ہی یاد آتا ہے،وہ بھی جب انہیں لگے کہ ملک واقعی ایک نازک دوراہے سے گزر رہا ہے۔ مثلاً اسلام آباد کی احتساب عدالت کے ایون فیلڈ ریفرنس پر فیصلے کے بعد شاید انہوں نے یہ واقعہ کسی کے  سامنے دہرایا ہو۔ حالانکہ دور کی کوڑی لانے والے دانشور تو برملا کہہ رہے ہیں کہ اب نیا کھیل شروع ہونے والا ہے۔

شاید ہم ایسے حالات کے عادی ہوچکے ہیں کہ ہماری قوم کے مفکروں اور رائے سازوں کی زبان(ڈکشن) بھی ایسی ہوگئی  ہے کہ  جس میں کھیل، تماشا،فلم، ڈرامہ وغیرہ وغیرہ جیسے الفاظ اور ان سے متعلق فحش لطیفوں اور  طنزیہ کاٹ دار جملوں کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ اس صورتحال پر ہمارے عزیز دوست ، دانشور اور سینئر صحافی سلیم صافی نے اپنے ایک دوست کی طنزیہ تحریر اپنے کالم میں شائع کی ہے ،جس میں انہوں نے پاکستان بننے سے پہلے کے ایک سردار کی فلم بینی پر مبنی تجزیے کے ذریعے ایک حکایت تشکیل دی ہے کہ وہ ایک فلم مسلسل اس لیے دیکھتا ہے شاید اگلے دن سفید گھوڑا، کالے گھوڑے کو ہرادے۔ اب سردار کو کون سمجھائے کہ فلم تو فلم ہے اور وہ آج بھی سرحد پار مسلسل یہ فلم دیکھتا ہے اور  اس امید پر دیکھتا رہتا ہے کہ شاید اس مرتبہ سفید گھوڑا جیت جائے۔اب انگریزی محاورے میں کالا گھوڑا بالکل مختلف ہے یعنی چھپا رستم ،لیکن پاکستان کے سیاسی اور انتخابی منظرنامے پر سفید گھوڑا ہی کالا گھوڑا ہوتا ہے اور کالا گھوڑا سفید۔ ہمیں اتنی سمجھ ضرور ہے کہ ہمارے دوست سلیم صافی اپنے دوست کی حکایت کے ذریعے ہمیں بتانا چاہ رہے تھے کہ گزشتہ ستر، بہتر سالوں میں کچھ بھی نہیں ملا۔ بدلتے ہیں تو صرف نام کبھی نوازشریف ہوتے ہیں اور کبھی عمران خان۔ نوازشریف بھی کبھی عمران تھا اور عمران خان بھی کبھی نوازشریف ہوگا۔ اب حالات ایسے بھی نہیں ہیں کہ ہم پاکستانی سیاست کو “ساس بھی کبھی بہو تھی” جیسا ڈرامہ سمجھ لیں۔  کالے گھوڑے کے جیتنے سے پہلے ایک سیکوینس میں بھورا گھوڑا بھی آتا ہے اور گمان ہوتا ہے کہ کہیں یہی کالا گھوڑا نہ ثابت ہو۔ سلیم صافی نے شاید طنزیہ کالم لکھا ہے کہ پاکستان بہتر ہوگیا ہے اور پنجابی محاورے میں بہتر کی بڑی اہمیت ہے، لیکن ان کی حکایت میں جہاں گھوڑوں کا ذکر ہے وہاں پنجاب میں اسی سے ملتی جلتی فلمی حکایت میں ندی، گوری ،مٹیار اور ریل گاڑی کا ذکربھی  ہے اور سردار صاحب کا خیال ہے کہ کسی دن تو ریل گاڑی لیٹ ہوگی۔ پاکستان کی یہ واحد ریل گاڑی ہے جو آج تک لیٹ نہیں ہوئی۔ یقین نہ آئے تو ڈبے سے فلم نکال کر دیکھ لیں۔

ویسے پاکستان میں ایک اور فلم ہے جس سے مجموعی اور خاص طور پر سیاسی صورتحال کی تفہیم زیادہ بہتر طریقے سے ہوسکتی ہے وہ فلم ہے “مولا جٹ”۔ یہ فلم سو سے زیادہ مرتبہ بنی اور ہر مرتبہ اسے دیکھنے کا نیا مزا آیا۔بلکہ ابھی تک آتا ہے۔ چن وریام ہو ،وحشی گجر، شید اپنجابی،شعلے کالکا،میلہ،خوددار،شیر خان یا بہرام ڈاکو ،مولا جٹ نے ہمیشہ ایک مزا دیا ہے۔ 2018 کے الیکشن 2013 کے الیکشن جیسے  نہیں ہیں۔ اس کے کردار ،پروڈکشن،ٹیکنالوجی ہر لحاظ سے بہتر ہے۔

یہ دلچسپ بات ہے کہ مولا جٹ اور نوری نت کی جنگ ابدی ہے اور لگتا ہے کہ ایک سراپا خیر اور دوسرا سراپا شر ہے، لیکن کبھی کبھی نوری نت کے اندر ایک تبدیلی رونما ہوتی ہے اور وہ مولا جٹ کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ تیسرا دشمن جو دراصل ان دونوں کو لڑاکر فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے ،فلم کے آخر میں یہ دونوں اس کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ تیسری قوت ان کو گمراہ رکھتی ہے، فلم بینوں کو صاف نظر آرہا ہوتا ہے اور کئی جذباتی فلم بین تو فلم کے دوران کھڑے ہوجاتے ہیں اور انہیں سمجھانے کےلیے گالیاں تک دیتے ہیں۔ لیکن وہ فلم ہی کیا جس کا کوئی ڈائریکٹر نہ ہو اور وہ  محض فلم بینوں کی خواہش پر آگے بڑھے۔ یہ ڈائریکٹر کا کمال ہے کہ وہ فلم میں مولا جٹ اور نوری نت کو لڑوادے یا اکٹھا کردے۔فلم وہی رہتی ہے اور اس کا مزہ بھی وہی رہتا ہے۔ ہماری سیاست میں بھی ایسے میثاق ہوتے رہے ہیں لیکن یہ زیادہ دیر نہیں چل پائے۔

فلم بین اس ایک ہی فلم کو دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں ،اگر کوئ مختلف فلم چلانے کی کوشش کرے تو ہوٹنگ کرتے ہیں، ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ جب “ملے گا ظلم دا بدلہ” ریلیز ہوئ تھی تو شروع کا کچھ عرصہ یہ زیادہ نہیں چل سکی تھی لیکن کچھ  ہفتوں کے بعد اس فلم نے کھڑکی توڑ رش پکڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہیرو کو آدھی سے زیادہ فلم میں  مظلوم دکھایا گیا تھا اور فلم بینوں کی خواہش تھی کہ ہیرو کو جلد از جلد ظلم کا بدلہ لینے کےلیے کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ جب خواتین نے یہ فلم دیکھی تو پھر اس فلم نے جان پکڑی تھی۔ فلم بین ہیرو کو روتے ہوئے اور مظلوم کیفیت میں اسے زیادہ دیر نہیں دیکھنا چاہتے۔  فلم میں زیادہ کھڑاک اس کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔

بابا اشفاق احمد سے کسی نے پوچھاتھا کہ ہم ایک ہی فلم “مولاجٹ” کیوں دیکھے جارہے ہیں ؟ انہوں نے اپنے روایتی دھیمے اور مدبرانہ لہجے میں جواب دیا تھا کہ جس دن مولے کو مولا مارے گا، اس دن  ہماری جان چھوٹے گی۔ غالباً ان کا اشارہ مولاجٹ کے اس مشہور زمانہ ڈائیلاگ کی طرف تھا جس میں وہ نوری نت کو للکارتے ہوئے کہتا ہے ” مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا” (اگر مولے کو مولا نہ مارے تو کسی کی کیا مجال کہ اس کو کوئی مارسکے)۔ اشفاق احمد نے یہ بات 1995 میں کہی تھی۔ 1996 میں مولا جٹ(سلطان راہی) راہی عدم ہوگیا لیکن مولا ہے کہ ابھی تک زندہ ہے اور اس کے اندر وہ مولا بھی پیدا نہیں ہورہا جو اسے مارسکے۔

مولا جٹ کی ہاؤس فل نمائش آج بھی پورے سرکٹ میں اپنی آب وتاب سے جاری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ تجزیات آن لائن

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مولا جٹ ایک سیاسی فلم۔۔۔محمد عامر رانا

Leave a Reply