حاصل و لاحاصل۔۔۔راؤ ثاقب

انسان ازل سے محبت کا متلاشی رہا ہے۔ چاہنا اور چاہے جانا انسان کی فطرت ہے۔ کسی کی صورت یا سیرت سے متاثر ہو کر اسے پانے کی خواہش ایک فطری عمل ہے۔یہی خواہش جب براستہ محمد (ص) خدا سے جڑتی ہے تو عشقِ حقیقی کہلاتی ہے۔اور یہ خواہش جب خدا کی بجائے خلیفہ خدا کی طرف رخ کرتی ہے تو عشقِ مجازی کہلاتی ہے۔

مگر اس خواہش کے عوض محبوب سے ایسی ہی خواہش کی توقع بھی کرنا محبت کی بے توقیری ہے۔محبت کبھی بھی انسان کے اختیار میں نہ تھی۔آپ کو کسی ایسے انسان سے محبت ہوجاتی ہے جو آپ سے شدید نفرت کرتا ہے تو آپ لاکھ چاہ کر بھی اسے مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ آپ سے محبت کرے۔اور نہ ہی آپ کے اختیار میں یہ ہوتا ہے کہ آپ اسے بھول کر کسی اور سے ویسی ہی محبت کر سکیں۔

یہ خیال بذاتِ خود عشق کی توہین ہے۔ہم محبت کو قید کرنے والے لوگ ہیں۔
”جس سے محبت ہو اس سے نکاح کرو یا جس سے نکاح کرتے ہو اس سے محبت کر لو“ کے ماننے والے محبت کو خود ساختہ سمجھ کر اس کی اصل سے انکار کرتے ہیں۔

ارے محبت سوچ کر تھوڑا ہی کی جاتی ہے کہ اب جس سے نکاح ہوا اس سے محبت کر لو۔محبت کرنے سے پہلے دوسرے انسان سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ آپ مجھ سے شادی کر سکتے ہیں یا نہیں؟محبت اور شادی دو الگ راستے ہیں۔

محبت فطری جذبے کا نام ہے۔شادی انسانی تخلیق کردہ رشتہ ہے۔محبت پر اختیار کا بند نہیں باندھا جا سکتا۔
شادی ایک خالصتاً اختیاری فیصلہ ہے۔بانو آپا راجہ گدھ میں کہتی ہیں کہ ”نکاح نامے میں محبت کا کوئی خانہ نہیں ہوتا“۔

شادی ایک رشتہ ہے جسے نبھانے کے ہزار طریقے ہیں۔ ضروری نہیں کہ  آپکو اپنے ہمسفر سے محبت ہوجائے۔ اگر ہوجائے تو اس سے بڑی نعمت نہیں۔ مگر اس رشتے کے لیے جبری محبت کرنا ایک دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

محبت اور شادی کا یہ بنیادی فرق جس روز انسان کو سمجھ آگیا تو لاحاصل کو حاصل کرنے کے لیے نہ بیٹیاں گھر سے بھاگیں گی نہ بیٹے نا فرمان ہوں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply