غزوہ بدر ، حق و باطل کی تاریخ کا پہلا فیصلہ کن معرکہ

اگرچہ غزوہ بدر سے پہلے کئی ایک گوریلا جنگیں ہو چکی تھیں، لیکن یہ اسلام کی تاریخ کا پہلا فیصلہ کن معرکہ ہے۔ اس معرکے کا سبب ذکر کرتے ہوئے ہم تفصیل کی جانب چلیں گے۔ قریش کا ایک قافلہ جومکے سے شام کی طرف جاتے ہوئے نبی اکرمﷺ کی گرفت سے بچ نکلا تھا، یہی قافلہ جب مکہ واپس آنے لگا تو رسول اکرم ﷺ نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ اور سعید بن زید ؓ کو اس کا پتہ لگانے کے لیے روانہ فرمایا۔ یہ دونوں مقام حورا تک جا پہنچے اور رسول اللہ ﷺ کو قافلے کی اطلاع دی۔ قریش کے اُس قافلے میں بہت زیادہ سازو سامان تھا۔ ایک ہزار اونٹ تھے، جن پر کم از کم پچاس ہزار دینار تھے لیکن اس کی حفاظت کے لیے صرف چالیس افراد تھے۔ یہ اہلِ مدینہ کے لیے ایک بہترین موقع تھا کہ مالِ غنیمت حاصل کر لیا جائے۔ چنانچہ صحابہ کرام ؓ کو نکلنے کا حکم دیا گیا لیکن کسی پر پابندی عائد نہیں کی گئی، کیونکہ بہت بڑی جنگ کا ارادہ نہ تھا۔
رسول اللہ ﷺ جب روانہ ہوئے تو آپﷺ کے ہمراہ کچھ اوپر تین سو افراد تھے۔ ۸۳ یا ۸۶ مہاجر تھے اور باقی انصار تھے۔ پورے لشکر میں صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے۔ گھوڑے حضرت زبیر بن عوام ؓ اور حضرت اسود کندی ؓ کے پاس موجود تھے۔ ایک ایک اونٹ پر تین تین افراد کو سوار کیا گیا جو باری باری بیٹھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضرت علی ؓ اور حضرت مرثد ؓ تھے۔ چناں چہ اس نا مکمل لشکر کو لے کر نبی اکرم ﷺ روانہ ہوئے۔دوسری طرف قافلہ کی صورتِ حال یہ تھی کہ ابو سفیان جو کہ حد درجہ محتاط تھا۔ قدم قدم پر وہ خبریں وصول کرتا اور پیش قدمی کرتا رہا۔ ابو سفیان نے ایک قاصد مکے کی جانب بھیجا، جس نے مکے والوں کو مدد کے لیے پکارا۔ چوں کہ قافلے میں سب کا کچھ نہ کچھ سامان موجود تھا تو اس لیے مدد کے لیے ہر گھر سے کوئی نہ کوئی نکلا۔ سوائے ابو لہب کے جس نے اپنے مقروض کو جنگ میں بھیجا، تقریبا ً سبھی بڑے بڑے سردار اس میں شامل تھے۔ ابو سفیان نے بعد میں یہ خبر بھیجی کہ قافلہ بچ نکلا ہے اور مدد کے لیے نہ آؤ لیکن ابوجہل ایک متکبر شخص تھا، اُس نے کہا آج ہم مسلمانوں کو سبق سکھا دیں گے۔ قریش مکمل تیاری کے ساتھ نکلے تھے۔
ابتدا میں تعداد تیرہ سو تھی۔ ایک ہزار گھوڑے تھے اور اونٹ کثیر تعداد میں موجود تھے، اس لیے ان کی تعداد معلوم نہ ہوسکی۔ قریش کی بنو بکر سے دشمنی چل رہی تھی۔ انھیں مکے پر حملے کا خدشہ محسوس ہوا لیکن شیطان مردود سردارِ کنانہ سراقہ بن مالک کی شکل میں آیا اور کہا
’’ میں بھی تمہارا رفیق کار ہوں، اور اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ بنو کنانہ تمہارے خلاف کوئی بھی ناگوار کام نہ کریں گے ‘‘۔
یہ سن کر مکہ والوں کے حوصلے بلند ہوئے اور وہ ابو جہل کی قیادت میں جنگ کے لیے روانہ ہوئے۔ادھر رسول اکرم ﷺ نے حالات کا بغور مشاہدہ کیا تو یہ محسوس کیا کہ اب ایک عظیم الشان ٹکراؤ ہونے والا ہے۔ آپ ﷺ نے مجلس شوریٰ بلائی اور عام آدمیوں اور کمانڈروں کے ساتھ اظہارِ خیال کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور عمر ؓ نے نہایت اچھی بات کہی۔ حضرت مقداد بن عمرو ؓ کچھ اس طرح گویا ہوئے۔۔
“خدا کی قسم ہم آپ ﷺ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنو اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ تم اور تمہارا رب جاؤ لڑو، ہم یہیں بیٹھے ہیں ”۔
کیونکہ یہ سب مہاجر تھے تو رسول اللہ ﷺ چاہتے تھے کہ انصار بھی کچھ کہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ ارشاد فرمایا کہ مجھے مشورہ دو۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ نے یہ بات بھانپ لی۔ انہوں نے کہا۔۔
“ہم نے تو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آپ جو کچھ لائے ہیں سچ ہے اور ہم نے آپ ﷺ کو سمع و اطاعت کا عہد و میثاق دیا ہے، لہٰذا یا رسول اللہ ﷺ! آپ کا جو ارادہ ہے اُس کی طرف پیش قدمی جاری رکھیے۔ اُس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر آپ ﷺ کے ساتھ سمندر میں بھی کود جانا پڑا تو کود جائیں گے۔ ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا ”۔
حضرت سعد کی یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ آپ پر نشاط طاری ہوگئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔۔
’’ چلو اور خوشی خوشی چلو ‘‘۔
لشکرِ اسلام میں بدر کے نزدیک ایک چشمے پر پڑاؤ ڈالا۔ رات کو اللہ تعالیٰ نے بارانِ رحمت کا نزول فرمایا۔ جو کافروں پر موسلا دھار برسی لیکن مسلمانوں پر پھوار بن کر برسی اور انھیں پاک کر دیا۔ ریت پر قدم جمنے کے قابل ہوگئے۔ لشکر اسلام نے بدر کے قریب ترین چشمے پر قدم جما لیے اور باقی سارے چشمے بند کر دیے۔ اُس کے بعد حضرت سعد ؓ کے مشورے پر رسول اللہ ﷺ کے لیے ایک چھپڑ تعمیر کیا گیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے انھیں دعا دی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے لشکر کی ترتیب فرمائی اور میدان جنگ میں تشریف لے گئے اور فرماتے رہے کہ یہ جگہ فلاں کی قتل گاہ ہے اور یہ فلاں کی۔
قارئین اب چلتے ہیں ہم میدانِ جنگ کی طرف۔ 17رمضان المبارک 2ہجری ہے اور لشکر اسلام اور لشکر کفار آمنے سامنے ہیں۔ ایک طرف ایک ہزار کا لشکر اور سازو سامان سے بھر پور اور دوسری طرف 313اور صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ۔ لیکن ایمان کا جذبہ ایسا کہ لفظوں میں بیان کرنا بس کی بات نہیں۔ آپ ﷺ نے میدانِ جنگ میں صفیں درست فرمائیں۔ پھر جب صفیں درست ہو چکیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنگ تب تک شروع نہ کرنا جب تک آخری احکام موصول نہ ہوجائیں۔ اس معرکے کا پہلا شکار اسودبن عبد الاسد مخزومی تھا۔ یہ بڑا اڑیل تھا، یہ کہتا ہوا نکلا کہ اللہ کی قسم میں ان کے حوض کا پانی پی کر رہوں گا، یا اسے ڈھا دوں گا یا اس کے لیے جان دے دوں گا۔ حضرت حمزہ ؓ نے اسے کیفر کردار تک پہنچا دیا۔ اس سے جنگ بھڑک اُٹھی۔ اس کے بعد قریش کے تین بڑے سردار عتبہ، شیبہ اور ولید نکلے۔ انہوں نے مسلمانوں کو للکارا تو مقابلے میں رسول اللہ ﷺ نے عبیدہ بن حارث ؓ، حضرت حمزہ ؓ اور حضرت علی ؓ کو بھیجا۔ حضرت حمزہ اور حضرت علی ؓ نے فوراً اپنے شکار کو ختم کر دیا لیکن حضرت عبیدہؓ کے ساتھ بھر پور مقابلہ ہوا۔ دونوں اپنے شکار سے فارغ ہو کر عبیدہ ؓ کے شکار کی جانب لپکے اور اسے بھی قتل کر دیا۔ حضرت عبیدہ ؓ کو زخم آئے اور آواز بند ہو گئی، بعد میں اسی زخم سے واپسی پر آپؓ کی شہادت ہوئی۔
اس کے بعد کفار نے یکبارگی سے حملہ کر دیا ان کے حواس کھو چکے تھے کیونکہ ان کے تین بڑے سردار مارے جا چکے تھے۔ دوسری طرف مسلمان اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے پر سکون تھے۔رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی۔۔
’’ یا اللہ ! تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما دے۔ یا اللہ ! میں تجھ سے تیرے وعدے کا سوال کرتا ہوں ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار فرشتے مدد کے لیے نازل فرمائے۔ صحابہ کرام ؓ کہتے ہیں کہ ہماری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی کفار کی گردن کٹ چکی ہوتی تھی اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ قتل کسی اور نے کیا ہے۔ جنگ میں کفار کا لشکر تتر بتر ہو گیا۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ روایت کرتے ہیں کہ میرے اردگرد دو نو عمر سپاہی تھے۔ ایک کا نام معاذ اور دوسرے کا معوذ تھا،( دوسرے کا نام بھی معاذ بتایا جاتا ہے)۔ انہوں نے مجھ سے ایک دوسرے کو چھپاتے ہوئے ایک ہی بات پوچھی کہ چچا ابو جہل کدھر ہے؟ میں نے ابو جہل کی طرف اشارہ کر دیا۔ دونوں اُس کی طرف لپکے اور ابو جہل کو قتل کر دیا۔ حضرت معوذ ؓ اسی معرکے میں شہید ہوئے۔
رسول اللہ ﷺ نے جنگ کے اختتام پر فرمایا کہ ابو جہل کا کیا بنا؟ صحابہ ابو جہل کو ڈھونڈنے نکلے۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ نے دیکھا کہ ابو جہل کی سانسیں ابھی چل رہی ہیں۔ آپ ؓ نے ابو جہل کا سر کاٹا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے نعش دکھاؤ، نعش دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “یہ میری امت کا فرعون ہے ”۔جنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ کفار کے ستر افراد قتل اور ستر قید ہوئے۔ 14صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین نے جامِ شہادت نوش کیا اور ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید ہو گئے۔ معرکہ جس نے حق و باطل میں فرقان کا کام کیا۔

Facebook Comments

نعیم الرحمان
کم عمر ترین لکھاری ہیں۔ روزنامہ تحریک کے لیے مستقل لکھتے ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر ایک طالب علم ہیں ۔ اصلاح کی غرض سے لکھتے ہیں ۔ اسلامی نظریے کو فروغ دینا مقصد ہے ۔ آزادی کو پسند کرتے ہیں لیکن حدود اسلامی کے اندر۔ لبرل ازم اور سیکولرزم سے نفرت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply