کیا سائنس مردوں کو زندہ کر سکتی ہے؟

سائنس دانوں نے شمالی سفید گینڈے کو، جو بقا کے خطرے سے دوچار تھا، جدید ترین تولیدی ٹیکنالوجی سے دوبارہ زندگی دے دی ہے۔ اسے ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

رواں برس جب آخری نر شمالی سفید گینڈا مر گیا، تو دنیا بھر میں اس اسپیشیز کی کل آبادی صرف دو مادہ کی صورت میں باقی بچی۔ مگر اب اسٹیم سیل ٹیکنالوجی کی مدد سے شمالی سفید گینڈے کے پہلے سے منجمد کیے گئے اسپرم اور شمالی سفید گینڈے کے انتہائی قریبی ’رشتہ دار‘ جنوبی سفید گینڈے کے انڈے کے ملاپ سے ایمبریوز تیار کر لیے گئے ہیں۔

اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے سائنس دانوں کی ٹیم سے وابستہ تھومس ہائلڈبرانڈٹ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا، ’’پہلی مرتبہ اس انداز سے گینڈے کے ایمبریو کی تیاری ممکن ہوئی ہے۔‘‘

اس سائنسی پیش رفت کو اس اعتبار سے بھی نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے، کیوں کہ اس طرح بقا کے خطرے کی شکار اسپیشنز کو بچایا جا سکے گا۔ اس انداز سے ایمبریوز کی تیاری پر تاہم ناقدین یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ اگر انسان مصنوعی انداز سے ایمبریو تیار کرنے پر محارت رکھتا ہو، تو کیا اسے وہ کرنا بھی چاہیے؟

اس سے قبل سائنس دانوں نے فنا ہو جانے والے گاسٹرک بروڈنگ مینڈک کے ایمبریوز بھی اسی طرح تیار کیے تھے۔ اس کے لیے ان مینڈکوں کے ڈی این اے کا استعمال کیا گیا تھا۔ سن 2003ء میں ایک مادہ جنگی ہرن کا کولون پیدا کرنے کے لیے ایک بکری کا رحم استعمال کیا گیا تھا۔ یہ نومولود ہرن تاہم اپنی پیدائش کے کچھ ہی منٹ بعد فوت ہو گيا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

سائنس دان اب لاکھوں سال قبل فنا ہو جانے والے جانوروں کے ڈی این ای کو کھولنے اور انہیں دوبارہ سے زندگی دینے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ سن 1936 میں آخری بار دیکھیے گئے تسمانین ٹائیگر کے ڈی این اے کو کامیابی کے ساتھ ڈی کوڈ کر لیا گیا ہے۔ اب جین میں ایڈیٹنگ کر کے اس سے جینیائی طور پر قربت رکھنے والے ٹائیگرز کے ذریعے دوبارہ زندگی دینے کی کوشش کی جائے گی

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply