بین المذاہب مکالمہ میں علماء کو شامل کرنے کے پیچھے مقاصد

موجودہ پُرتشدد انتہاپسندی سے مقابلے کے لیے ایک پیش رفت یہ بھی ہوئی ہے کہ اہل مذہب کو مسئلہ کا سہیم (part of the problem) سمجھنے اور انہیں مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اس کے حل میں موثر کردار کا حامل (Part of the Solution) کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں تنازعات و تعصبات اور ان کے اسباب و اثرات کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے کے اسالیب پر مہارت حاصل کرنے کے لیے ان کے استعداد کار میں اضافے کے لیے مکالماتی، تعلیمی ، تربیتی و مشاورتی پروگرامات منعقد ہوتے ہیں تاکہ ان کے تعاون سے دنیا کو مزید قتل و غارت، منافرت و تعصب اور تشدد و خون ریزی سے نجات دلائی جا سکے۔ یہ تناظر جہاں سماج کی تعمیر و ترقی میں اہل مذہب کے کردار کا عالمی سطح پرایک اعتراف ہے وہاں ان کے لیے ایک اہم موقع بھی ہے کہ فرقہ واریت اور مذہبی انتہاپسندی کے فروغ کے حوالے سے ان پر لگائے جانے والے الزامات کو امن و ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اپنے کردار کے ذریعے غلط ثابت کریں۔ اس ضمن میں ان کا دو بنیادی کردار ہے : پہلا یہ کہ وہ مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ واریت کی طرف مائل نوجوان نسل کو بچائیں اور دوسرا یہ کہ اپنی اپنی کمیونٹیز میں منافرت ، تعصبات اور مذہبی تشدد کے لیے کسی قسم کی سماجی قبولیت اور ہمدردی باقی نہ رہے۔ اس کی جگہ سماجی تعامل، باہمی تعاون و احترام اور سب کے سیاسی، سماجی اور مذہبی حقوق کے تحفظ کی فضا عام کریں۔

انفرادی و اجتماعی زندگی کے متعدد محرکات و حرکیات کے باعث انسان اپنی تاریخ کے طول و عرض میں مختلف و متعدد ارتقاائی مراحل سے گزرا ہے۔ گزشتہ تین صدیوں کے دوران دنیا کے مختلف ممالک ، خطوں اور تہذیبوں میں بٹے انسانی معاشرے نے ترقی (یا بسا اوقات تنزل) کے کئی سنگ میل کئی انقلابات کی صورت میں تیز رفتاری سے طے کیے ہیں۔

اکیسویں صدی میں سائنس اور سماج میں ہوشربا ترقی کے نتیجے میں دنیا سکڑ کر ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ایک ایسا گاؤں جس میں اس کے ایک کونے میں پیش آنے والے حالات پورے گاؤں کو متاثر کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اس عالمگیریت کے باعث اقوام عالم متعدد فکری، سیاسی، اقتصادی، سماجی، قانونی اور مذہبی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں۔ ایسے میں ایک طرف لوگوں، گروہوں اور ریاستوں کی انفرادی، گروہی اور ریاستی مفادات نے مختلف اقوام کے اندر ایک تناؤکی کیفیت پیدا کر رکھی ہے اور دوسری طرف لوگوں کے مختلف نسلی، لسانی، مذہبی اور سماجی و سیاسی تعصبات نے پرامن بقائے باہمی کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ مفادات اور تعصبات کی چپقلش نے کبھی مذہبی رنگ تو کبھی سیاسی رنگ اور بسا اوقات نسلی رنگ اختیار کرتے ہوئے مختلف اقوام اور رنگ و نسل کے کروڑوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا ڈالا ہے۔

شعور اور تجربات کے اس تلخ و شیرین سفر نے انسان کو کبھی مختلف تہذیبوں کے اندر سے کچھ چیزوں کے احیاءنو کی راہ دکھادی ہے تو کبھی فکر و عمل کی نئی راہوں کی تلاش پر اسے لگا دی ہے۔ دنیا کو درپیش مشکلات کے حل، اور اس میں رہنے والوں کی زندگی میں امن، خوشحالی، توازن اور ترقی کے لیے جن چیزوں پر پھر سے اصرار کیا جانے لگا ہے، ان میں سے ایک دنیا کے مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کی ثقافت کا احیاءہے۔

صحیح یا غلط! موجودہ دنیا میں تنازعات و فسادات کے ایک اہم عنصر کے طور پر مذہب کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، اور مذہبی تعلیمات و روایات کو بھی تشدد کے ایک اہم سرچشمے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس پورے پس منظر میں بین المذاہب مکالمے کی ثقافت کے اس احیاءکی بنیاد اس سوال پر ہے کہ کیا مذاہب کی تعلیمات واقعتاً تشدد کا سرچشمہ ہیں یا وہ امن کا سرچشمہ کہلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟

بہت سے اہل فکر و دانش کا خیال یہ ہے کہ مذہب انسان کو تقسیم کرتا ہے اور انسانی معاشرے کو فسادات و تعصبات کے بھینٹ چڑھادیتا ہے ۔ مذہب انسان کو منافرت اور تفریق کی طرف لے جاتا ہے۔ جبکہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو یہ دلائل دیتے ہیں کہ مذہب انسان کو روحانیت اور اخلاقیات کی اعلیٰ اقدار پر متحد بھی کر سکتا ہے، ان کا خیال یہ ہے کہ مذہب میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ انسان کو ان فسادات و مسائل سے نجات دلا سکے۔ ان کے نزدیک دنیا کے تمام مذاہب میں ایسی تعلیمات موجود ہیں جن میں انسانیت کی بہتری اور فلاح کا سامان موجود ہے۔ سب مذاہب نے انسانوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے، ان کی خدمت کرنے، ضرر رسانی سے بچنے اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے پر زور دیا ہے۔

عام طور پر جب بھی بین المذاہب مکالمے کا نام سامنے آتا ہے تو اس سے طرح طرح کا تاثر لیا جاتا ہے:
• بعض لوگوں کے ذہن میں یہ آتا ہے کہ بین المذاہب مکالمے سے مراد یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اپنے عقیدتی نقطہ ہائے نظر سے دست بردار ہو کر مذہب کی ایک بالکل نئی تفہیم کے قائل ہو جائیں جس کی بنیادیں ان کے دینی تعلیمات سے متصادم ہوں۔
• بعض کا خدشہ ہے کہ بین المذاہب مکالمہ شاید مذاہب کے اتحاد یا وحدت ادیان کا نام ہے۔
• کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بین المذاہب مکالمہ سے مراد مذاہب پرسمجھوتہ کرتے ہوئے ان سے مضبوط وابستگی سے دست برداری کا نام ہے اور کم از کم جدت پسند مذہبی بننا مقصود ہے۔
• کچھ کا خیال ہے کہ یہ موجودہ مذاہب کو چھوڑ کر ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھنے کا نام ہے۔
• بین المذاہب مکالمہ کا نام جب لیا جاتا ہے تو اس سے عام طور پر یہ تاثر بھی بھی لیا جاتا ہے کہ شاید یہ کوئی مغربی ایجنڈا ہے۔
• بعض اسے روایتی مذہبی فکر کے خلاف ابھرتی ہوئی ایک متوازی فکر قرار دیتے ہیں۔
اگرچہ مذکورہ بالا سارے خدشات کے پیچھے کچھ باتیں قابل غور بھی ہیں، خاص طور پر کچھ اداروں، تنظیموں اور ممالک کے اپنے مخصوص اہداف، طرز عمل اور سرگرمیوں نے ایسے شکوک و شبہات کو مزید قوی کر دیا ہے۔ یہ تلخ حقیقت بھی ملحوظ رہے کہ مختلف ممالک اور ریاستی اداروں نے اپنے اپنے ممالک یا اپنے ممالک سے باہر دنیا کے مختلف خطوں میں مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مضبوط اور اثر انگیز لبادے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ بھی قرین قیاس ہے کہ شاید بعض تنظیموں نے بین المذاہب مکالمے کے نام سے کوئی خاص مفہوم کشید کر لیا ہو جس سے تاثر بنتا ہو کہ بین المذاہب مکالمہ سے مراد مذہب پر سمجھوتہ کرتے ہوئے اس سے وابستگی کے عنصر کو کم کرنا ہے.
میری نظر میں بین المذاہب مکالمہ سے مراد سارے مذاہب (جو اس وقت دنیا میں موجود ہیں ) کی موجودگی کا اعتراف کرنے کا نام ہے۔ موجودگی کے اعتراف کے ساتھ ہر انسان چاہے وہ جس مذہب سے وابستہ ہو اس کے جینے اور انسانی قدر و منزلت کے بنیادی حق کو تسلیم کرنے اور مختلف مذاہب کے درمیان پرامن بقائے باہمی کو یقینی بنانے کی خاطر باہمی رواداری اور احترام کو فروغ دینے کا نام ہے۔
بین المذاہب مکالمے کے دو اہم پہلو ہیں۔ پہلا الٰہیاتی یعنی مذاہب کی تعلیمات ( مآخذ، عقائد، احکامات، مذہبی رسومات، اخلاقی تعلیمات اور تصور کائنات وغیرہ ) کا مطالعہ، اور دوسرا ان سے وابستہ افراد و اقوام کی بشریات (اطوار، رسوم، تاریخ، حالات و واقعات، وسائل و مسائل ) کا مطالعہ وجائزہ۔
بین المذاہب مکالمہ کی بنیاد پہلے الٰہیاتی تھی یعنی اس میں یہ کوشش کی جاتی رہی کہ مختلف مذاہب کے مابین مشترکہ عقائد، تعلیمات اور احکامات میں حتی الامکان تطبیق پیدا کی جائے تاکہ مذہبی ہم آہنگی کو فروغ مل سکے تاہم معاصر دور میں بین المذاہب مکالمہ الٰہیاتی سے زیادہ سماجی و سیاسی بنیادوں پر قائم پروان چڑھ رہا ہے، جس میں دور جدید کے قومی ریاست پر مبنی تصور کے تحت مختلف ممالک اور اقوام کے درمیان بین المذاہب مکالمہ میں اس کا سیاسی و سماجی پہلو زیادہ اجاگر کیا جاتا ہے۔ اس میں مذاہب کی تعلیمات میں تطبیق پیدا کرنے سے زیادہ لوگوں کے سماجی تعامل کو بڑھانے اور باہمی منافرت و تشدد کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چونکہ مختلف مذاہب سے وابستہ لوگ بعض ممالک میں اکثریت میں ہیں تو وہی لوگ بعض دیگر ممالک میں اقلیت کی صورت میں اس لیے یہاں انسانی حقوق کے تناظر میں اقلیتوں کے حقوق کے تحت ان کے تحفظ کے لیے بین المذاہب مکالمے کو زیادہ اہمیت دی جار ہی ہے۔ مثلااگر عرب اور جنوبی ایشیا میں مسلمان اکثریت میں اور مسیحی اقلیت میں ہیں جبکہ یورپ و امریکہ میں مسیحی اکثریت میں بستے ہیں اور ان کے درمیان مسلمان اقلیت میں ۔

بین المذاہب مکالمے کے الٰہیاتی و سماجی دونوں پہلوؤں کو دیکھنے اور سمجھنے کے بھی دو مختلف تناظرات ہیں ایک داخلی تناظر جسے متعلقہ مذہب سے وابستہ اہل علم پیش کرتے ہیں۔ کہ ہمارے عقائد، عبادات، اخلاقیات اور دیگر احکام کیا ہیں۔ اور دوسرا بیرونی تناظر جو ایسے مکالمے کے دوران دوسرے لوگ اس مذہب یا ان سے وابستہ افراد و اقوام کے بارے میں پیش کرتے ہیں۔ بین المذاہب مکالمے کی سرگرمیوں میں کبھی دونوںتناظرات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور کبھی ایک تناظر ہی زیر نظر ہوتا ہے۔

بین المذاہب مکالمے میں دو چیزیں اگر ملحوظ رہیں تو آپ کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے؛ ایک دیانت دار ی۔ یعنی اگر آپ ایسے مکالمے میں حصہ لے رہے ہیں تو آپ کو اپنے نقطہ نظر پیش کرنے میں کسی احساس برتری، احساس کم تری کے شکار ہونے، معذرات خواہانہ رویہ اپنانے اور جھوٹ کا سہارا لینے کی ضرورت پیش نہیں آنی چاہیے۔ دیانت داری، خود اعتمادی اور شائستگی کا دامن تھامے رکھنا بین المذاہب ہم مکالمے کو تقویت بخشتا ہے۔ دوسری بات آپ دوسروں کے اختلافی نقطہ نظر کو سننے کا حوصلہ پیدا کریں اور اس اختلاف کے باوجود اس کے ساتھ اخلاص اور احترام پر مبنی تعلق قائم رکھنا سیکھیں۔

گزشتہ کئی سالوں کے دوران مختلف اداروں کے پلیٹ فارم سے مجھے پاکستان بھر میں بین المذاہب قائدین کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، اس دوران طلبہ، اساتذہ، ائمہ و خطبائ، ٹرینرز کے لیے نصاب تیار کرنے کے علاوہ ان لوگوں کے ساتھ تربیتی پروگرامات اور مشاورتی اجلاسوں اور علمی مذاکروں میں افادہ و استفادہ کرنے کا موقع ملا، مختلف مسالک ومذاہب کی عبادت گاہوں، سماجی مراکز اور تعلیمی درسگاہوں کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ اس کے علاوہ حال ہی میں امریکہ میں ڈریو یونیورسٹی ، نیو جرسی سٹیٹ کے تحت مذہب اور تنازعات کے حل کے عنوان سے تین ہفتوں پر مبنی ایک بین الاقوامی بین المذاہب مکالمے کے ایک پروگرام میں شرکت کا موقع میسر آیا جہاں دنیا کے مختلف ممالک سے مذہبی قائدین سے مختلف نقطہ ہائے نظر کو جاننے اور مختلف موضوعات پر برجستہ ماہرین سے سیکھنا نصیب ہوا۔

گزشتہ کئی سالوں کے تجربات اور مختلف مسالک و مذاہب، ممالک و علاقوں سے تعلق رکھنے والے کئی ہزار مذہبی قائدین سے تربیتی نشستوں، مشاورتی اجلاسوں، علمی مذاکروں ، مکالموں اور تعامل کے دوران ہم نے بارہا محسوس کیا ہے کہ بین المذاہب مکالمہ سے جہاں آپ کو مختلف مذاہب اور ان سے وابستہ افراد کے نقطہ ہائے نظر کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے وہیں آپ کے اپنے مذہب کے ساتھ وابستگی کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ نیز ایک چیز بہت صراحت کے ساتھ سامنے یہ بھی آئی ہے کہ بین المذاہب مکالمے کی کوششوں کے دوران آپ کو اپنے مذہب کو مختلف افقی و عمودی تناظر ات سے سمجھنے کا موقع میسر آتا ہے۔اس دوران آپ کو اپنے مذہب سے اپنی وابستگی مستحکم ہوتے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ مختلف ممالک میں رہنے والے ایک ہی مذہب و مسلک کے لوگوں کے ترجیحات و تفہیم بھی مختلف ہوسکتے ہیں بلکہ ہوتے ہیں۔ بین المذاہب مکالمہ و ہم آہنگی کے پروگرامات اور سرگرمیوں کے دوران بھی اکثر اوقات کہیں لوگوں پر ہونے والے امتیازی ناروا سلوک، کہیں برسوں کی شکایات اور کہیں انتقام و بدلے کے جذبات بول پڑتے ہیں مگر ایسی بھی متعدد سچی کہانیوں کو جاننے کا موقع ملتا ہے کہ صبر نے جبر کو، معافی نے انتقام کو، انسان دوستی کے جذبات نے دشمنی کو کیسے شکست دی اور کس طرح مثبت سوچ اور حسن سلوک نے لوگوں کے دل و دماغ کو جیت لیا اور امن و خوشحالی کی راہ نکالی۔

یہ بھی محسوس کیا کہ مذہب کی تفہیم اور اس کے ساتھ لوگوں کے تعلق پر تاریخی واقعات کی تفہیم، ملکوں کی ریاستی پالیسیوں، سفارتی تعلقات ، سیاسی ترجیحات، طرز حکمرانی، مختلف ثقافتوں کے باہمی تعامل، سماجی و نسلی و لسانی تعصبات، ذرائع ابلاغ کے رجحانات، وسائل و مسائل، فکری مناہج و و بنیادیں، عالمی حالات سمیت تعلیم و تربیت کے معیارات وغیرہ گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ لہٰذا بین المذاہب مکالمہ میں مذاہب کی تعلیمات، ریاستوں کی پالیسیاں اور لوگوں کی بشریات کو ملحوظ نظر رکھنا مکالمے کے عمل کو پختہ، دیرپا اور موثر بنا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرا ماننا یہ ہے کہ بین المذاہب مکالمے اور ہم آہنگی کے لیے مذاہب کی تعلیمات کے آزادنہ تقابلی مطالعہ کے علاوہ ان سے وابستہ اقوام کی بشریات اور سماجیات، نیز ان پر اثر انداز ہونے والی مقامی، علاقائی اور عالمی پالیسیوں کے جائزہ کی ضرورت ہے۔ ایسا جائزہ جو اس معاملے کے سکیورٹی، تاریخی، سیاسی، سماجی، معاشی اور فکری ابعاد کا احاطہ کرتا ہو۔بین المذاہب مکالمہ کے ذریعے مذہبی ہم آہنگی کا فروغ اور فرقہ واریت کا سدباب پاکستان جیسے متنوع اقوام و مذاہب پر مبنی معاشرے کو امن، خوشحالی،ور ترقی کی راہ پر لگا سکتاہے۔

Facebook Comments

محمد حسین
محمد حسین، مکالمہ پر یقین رکھ کر امن کی راہ ہموار کرنے میں کوشاں ایک نوجوان ہیں اور اب تک مختلف ممالک میں کئی ہزار مذہبی و سماجی قائدین، اساتذہ اور طلبہ کو امن، مکالمہ، ہم آہنگی اور تعلیم کے موضوعات پر ٹریننگ دے چکے ہیں۔ ایک درجن سے زائد نصابی و تربیتی اور تخلیقی کتابوں کی تحریر و تدوین پر کام کرنے کے علاوہ اندرون و بیرون پاکستان سینکڑوں تربیتی، تعلیمی اور تحقیقی اجلاسوں میں بطور سہولت کار یا مقالہ نگار شرکت کر چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply