کچھ خبر ہے تجھے۔۔۔عامر عثمان عادل

کچھ خبر ہے تجھے او چین سے سونے والے
رات بھر کون تیری یاد میں بیدار رہا
پیارے علی رضا !
یاد ہے پہلی بار میری تمہاری ملاقات تب ہوئی  جب تم ابھی 13 برس کے تھے تمہارے بابا کو نیا نیا سرکاری عہدہ ملا اور آپ لوگ پاکستان شفٹ ہو گئے لاہور کے ڈیفنس والے گھر میں تمہارے ساتھ گزارے ہوئے پانچ سال زندگی کی ایک خوبصورت یاد بن کر رہ گئے ہیں آپ بہن بھائیوں کے سکول کالجز میں داخلے ٹیوٹر کا انتظام سب مجھے دیکھنا تھا۔۔

نارویجین لہجے میں بولی جانے والی اردو میں جب تم مجھے چاچو عامر کہہ کر پکارتے تو کتنے بھلے لگتے تھے روزانہ صبح ناشتے کی میز پر میرے ساتھ بس تم اور حسین ہوتے، لاہور کا ایسا اثر ہوا کہ آپ کی راتیں جاگتی اور دن سوتے تھے بالخصوص رمضان المبارک تو مجھے نہیں بھول پائیں گے، سحری افطاری اور آپکے ڈرائنگ روم میں باجماعت تراویح کا اہتمام اور پھر پوری رات تم اور حسین مل کر مجھے خوب تنگ کرتے سونے بھی نہ دیتے، تم نے معمول بنا لیا تھا سحری تک مستیاں اور فجر کی نماز کے بعد سو جانا پھر اگلے روز ظہر تک سوئے رہنا مجھے یہ ہوتا تھا کہ جلدی بیدار ہو کر اسمبلی جانا ہے۔۔

پروٹوکول اور زندگی کی تمام آسائشوں والی زندگی گزارتے آزمائش شروع ہوئی اور آپ لوگ پھر ناروے چلے گئے پھر ایسا ہوا کہ ملاقات کم کم ہوتی ختم ہی ہو گئی۔۔

ابھی کل کی بات لگتی ہے تمہیں دولہا بنے دیکھنا روایتی انداز میں شادی کی ساری رسموں سے گزرنا ،کتنے خوش تھے تم اور تمہارے دوست، سب یاد ہے ۔۔ولیمہ کے روز تم سٹیج پر اپنی دلہن کے ساتھ بیٹھے شرما رہے  تھے اور فوٹو سیشن کے وقت بھی ریزرو ،پھر میں نے تمہارے کان میں سرگوشی کی کہ بیٹا آج تمہارا دن ہے کوئی پوز مارو ذرا کھل کے فوٹو سیشن ہونے دو تم اپنے بابا کے ڈر سے گھبرائے ہوئے تھے تو میں نے کہا تم انکی فکر نہ کرو میں سنبھال لوں گا اس وقت تمہارا چہرہ جس طرح گلنار ہوا وہ میری آنکھوں کے سامنے ہے۔۔

2 جولائی  کی صبح بیدار ہوتے ہی یہ خبر بجلی بن کر گری کہ تم ہمیں چھوڑ گئے ہو اب یقین کسے آئے۔۔ میں نے تمہاری آنٹی کو خبر دی تو وہ بھی صدمے اور حیرت سے بت بنی کافی دیر سکتے کے عالم میں بیٹھی رہیں، میں کوٹلہ پنہچا تو تمہارے بابا سے ملنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا،
تمہارا سفر آخرت بھی تو اپنے دادا اور تایا کی مانند بے مثال تھا آدم تھا کہ امڈا چلا آ رہا تھا ۔ہم چھ بجے گراونڈ میں پہنچ چکے تھے لیکن لوگ تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے کہیں پونے سات بجے جا کر تمہاری نماز جنازہ ادا کی گئی کیسی شہادت نصیب ہوئی تمہیں، تمہارے سفر آخرت میں شریک ہزاروں افراد میں وہ خدا کے مقبول بندے ضرور ہوں گے جو مستجاب الدعا ہوتے ہیں اور جن کی دعا سے رب نے تمہیں اپنی بخشش سے نواز کر اپنے نیک بندوں میں شامل کر دیا ہو گا۔۔

علی رضا مالک !
تمہارے بابا کو دنیا نے تمھارے غم میں نڈھال دیکھا تمہاری ماما کو تمھارے بے جان وجود کی بلائیں لیتے اور تمہارے ساتھ لپٹ لپٹ کر تمہارا ماتھا چومتے اور بار بار بے ہوش ہو کر گرتے خود میں نے دیکھا ۔کیسا صبر اور اللہ پر تقوی تھا تمہاری ماں کا جس نے کوئی  ماتم کیا نہ واویلا، ایک حرف بھی اللہ کو ناراض کرنے والا تمہارے کسی بھی سگے کے منہ سے نہیں نکلا، حسین ،نادیہ ،رابی بس سارے زاروقطار روئے جا رہے  تھے اور تو اور آفرین ہے تمہاری سہاگن پر وہ بھی تمہاری نشانیوں کو گود میں لئے بس روئے جا رہی تھی کوئی  بین نہ کوئی  چیخ پکار۔۔

اس وقت تو میرے بھی آنسو نہیں رکنے پائے جب تمہارے بابا نے تمہارے معصوم بیٹے کو اٹھا کر تمہاری ماما کی گود میں رکھ کر کہا یہ لو اللہ نے ہمیں علی رضا چھوٹا کر کے دے دیا ہے یہ سب تو تمہارے خون کے رشتے تھے اپنے تھے میں نے تو ایک عالم کو تمہارے غم میں نڈھال دیکھا شاید اس لئے کہ تم تھے ہی اتنے ملنسار سیدھے سادھے اندر باہر سے ایک جیسے شیشے کی مانند شفاف کوی میل کوئی کھوٹ نہیں تھا تمہارے دل میں۔۔
صفدر برنالی صاحب بھی تمہارے لئے بہت تڑپے تمہاری اس خواہش کو دنیا کے سامنے رکھ دیا کہ تم اندر ہی اندر اپنی فیملی کے اختلافات پر کڑھتے تھے سوچتے تھے اور اس آس پر زندہ تھے کہ یہ دوریاں یہ فاصلے ایک دن مٹ کے رہیں گے۔۔
علی رضا۔۔ہم شرمندہ ہیں کہ تمہارے جیتے جی اس خواب کو شرمندہ تعبیر نہ کر پائے ہم تو تمہارے مرنے کے بعد بھی کچھ نہ کر پائے
میرے بچے جاو جس حویلی میں واپس جانے کی کسک لیے تم دنیا سے رخصت ہو گئے تمہارے رب نے تمہاری آخری آرامگاہ ہی اس حویلی کے اوپر بنا دی جہاں ایک ولی کا مزار بھی ہے اور تم تو خوش نصیب ہو کہ اپنے دادا اور تایا کے قدموں میں جگہ پائی۔

میں نے آنکھیں بند کر کے تمہیں آخری بوسہ دیا تھا تمہارا آخری دیدار اس لئے نہیں کیا کہ میری یادوں کے دریچوں میں تمہارا ہنستا مسکراتا معصوم چہرہ ہی بسا ہو بس
تم انا کی جنگ کا شکار ہوئے یا اصولوں کی بھینٹ چڑھ گئے ایسا کیوں ہوتا  ہے  کہ بڑوں کے کیے  کی سزا بچوں کو ملتی ہے؟

اشکوں کی جھلمل قطاروں کے ساتھ تمہیں اللہ کے سپرد کیا تھا اب دعا ہے اللہ تمہاری آخرت کی منزلیں آسان کرے اور تمہارا شمار اپنے مقرب بندوں میں کرے اور میں وہ آخری بندہ ہوں گا جو اپنے رب سے یہ دعا مانگتا رہے گا کہ اللہ جی جو کرب علی رضا دل ہی دل میں لئے اس جہان سے رخصت ہوا اس کا ازالہ یوں کر دیں کہ اس خاندان کے بڑوں کے دل پلٹ کر ان کو آپس میں پہلے کی طرح ایک کر دے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کاش ایسا ہو جائے نفرت بھرے دلوں میں محبت جاگ اٹھے تاکہ کوئی اور علی رضا سسکتے تڑپتے دنیا سے نہ چلا جائے۔

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply