وطنِ عزیز میں جمہوریت کا ’محفوظ‘ مستقبل۔۔۔افتخار شاہین

ہمارے ہاں تو جمہوریت کو ٹیڑھی کھیر سے بھی زیادہ گھمبیر بنا دیا گیا ہے۔ قومی زندگی کے مانگ کے لائئ  ہوئی  عمرِدراز کے تقریباً ۳۲ سال باقاعدہ مستند مارشل لاؤں کی نظر ہوگئے جبکہ بچے کچھے ماہ وسال ’’گرین ہاؤس‘‘ سیاستدان تیار کرنے اورانہیں’’سوکھانے‘‘ میں لگے۔ جب  وہ سچ مچ میں اپنے آپ کو مسیحا باور کرنے لگے تو پھر کچھ عرصہ انہیں اشاروں کنایوں میں اور کبھی براہِ راست سمجھانے  لگے۔ پڑوس میں ’’ویلے ملک‘‘ بین الاقوامی منڈی اور طب، فلکیات، سیلیکان ویلی اور معیشت جیسے بےکار شعبوں میں طبع آزمائی کرتے رہے جبکہ ہم اللہ کے فضل سے جمہوریت کے پودوں کو پانی دیتے اور شاخ تراشی کرتے رہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ جو ملک سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں بنا تھا اس میں ’’سیاست‘‘ معتبر نہیں ٹھہر سکی کیونکہ شروع سے فالج زدہ غلام محمد ۵۰ کی دہائی کے معین قریشی محمد علی بوگرہ کی صورت میں سولِ بیوروکریسی کے بعد برٹش رائل آرمی کے تربیت یافتہ شہسواروں نے اقتدار کے زِین ایسے سنبھالی کہ آج تک’’ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ والی حالت ہے جبکہ سیاسی وزراء اعظم اس کوچۂ یار سےہر باربلکہ باربار ذلیل ہو  کر نکلتے رہے۔جبکہ تقسیم کے پہلے والے معتبر سیاسی نام ’’غدار‘‘ ہو کر داغدار بنتے رہے۔ خان عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، سیدابوالاعلٰی مودودی، مفتی محمد شفیع، عبدالصمد خان اچکزئ، فاطمہ جناح اور بلوچ سرداروں نے جامِ غداری پی کر مختلف وقتوں میں سیکورٹی رسک بنے رہے۔اس ’’غدارسازی‘‘ کا فوری فائدہ یہ ہوتا رہا کہ ہمیشہ زرخیز گملوں میں اُگنے والے نواب کالاباغ، ریپبلیکن پارٹی کی پوری نسل، الطاف گوہر،شوکت عزیز اور اس قبیل کے دیگر نگینوں کو میدان صاف ملتا رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ابھرتے ہوئے سیاستدان کی حقیقی ‘جمہوریت’ اور اس کی تباہی میں موروثیت کا کردار

نوازشریف کے ’’احتساب‘‘ سے پہلے اسی وزیرِاعظم ہاؤس سے ملتان کا ایک گدی نشین بھی صدر زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں کو احتسابی خط نہ لکھنے کی پاداش میں نکالا جا چکا۔ یہ اور بات کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد حرام ہے جو کسی عدالت یا احتساب بیورو نے اس خط پر اصرارکیا ہو۔ پاکستان میں کرپشن ہو یا دیگر کیسز صرف سوئے ہوئے سانپوں کی طرح حکومتوں کو ’’راہِ راست‘‘ پر لانے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ جس طرح آج کے ’’مسیحا‘‘ خان صاحب نوازشریف کے ساتھ ہونے والے ’’انصاف‘‘ پر شادماں ہیں، عین اسی طرح کل نوازشریف بھی یوسف رضاگیلانی کی بر خواستگی پر شکرانے کے نفل ادا کرنے کی اپیلیں کر رہے تھے (فاعتبرُو یا اولی الابصار)۔آنے والے کل میں کوئی اور ’’دکھوں کا مداوا‘‘ بن کر خان صاحب پر بیرونی فنڈنگ، کیلیفورنیا کی عدالت کا فیصلہ حتٰی کہ بنی گالے کے تعمیراتی بائی لاز کے کیس لے کر نمودار ہوگا جس دن خان صاحب اپنے آپکو حقیقی وزیرِاعظم سمجھ کر اپنے آیئنی اختیارات کا تقاضہ کریں گے۔
کیفی اعظمی کی مشہور نظم ’’انتشار‘‘ کے کچھ اشعار ذیل میں یہی نقشہ کھینچتی ہیں۔
کبھی جمود کبھی صرف انتشار سا ہے
جہاں کو اپنی تباہی کا انتظار سا ہے
میں کس کو اپنے گریباں کا چاک دکھلاؤں
کہ آج دامنِ یزداں بھی تار تار سا ہے
تمام جسم ہے بیدار ، فکر خوابیدہ
دماغ پچھلے زمانے کی یادگار سا ہے
جسے پکاریئے ملتا ہے اک کھنڈر سے جواب
جسے بھی دیکھئے ماضی کا اشتہار سا ہے
ہوئی تو کیسے بیاباں میں آکے شام ہوئی
کہ جو مزار یہاں ہے، مرا مزار سا ہے
کوئی تو سود چکائے، کوئی تو ذمہ لے
اٌس اِنقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے

Facebook Comments

افتخارشاہین
میرا رہائشی تعلق ایبٹ آباد اور صوابی سے ہے- دور طالبعلمی میں کبھی کبھی لکھ لیتا تھا- افریقہ کے مختلف ممالک میں انٹر نیشنل ڈویلپمنت سے وابستہ ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply