ملوہا” ملوہی سے سرائیکی تک

ملوہا، ملوہی سے سرائیکی تک
تحقیق و تحریر۔ محمدزبیرمظہرپنوار

رام کی سوتیلی ماں جھنگ اور ملتان کی رانی رہی ۔۔ ان کا نام سومترا تھا ۔ رامائن کے مطابق راجہ رام کو سومترا کی وجہ سے ہی بنواس ملا ۔۔یہاں یہ بات قابل ذکر اور قابل غور ہے کہ ان کے ادوار کو ککئی راج یا پراکرت زبانوں کی تہذیب یا ادوار کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جنھیں خوامخواہ ہی سنسکرت سے جوڑ دیا جاتا ہے، مگر یہ غلط روایات ہیں،۔ اسی بناء پہ اکثر مؤرخین مغالظے میں رہے جبکہ ایسا حقیقتاً نہیں ہے ۔۔سومترا سابقہ ملوہی موجودہ سرائیکی زبان بولا کرتی تھیں ۔یہاں تک کہ ہندو دھرم میں دیوی مانے جانے والی سرسوتی کی عام زبان بھی سرائیکی رہی ۔ تاریخی شواہد موجود ہیں کہ ملتان قلعہ کے پاس ایک دریاء بہتا تھا جس کے کنارے سرسوتی پوجا کیا کرتی تھی ۔ پھر وہی دریاء سرسوتی کے نام سے منسوب کر دیا گیا جو کہ آج سے تقریبا دو ہزار برس قبل سوکھ چکا ہے ، بعض مؤرخین نے اسے دریائے ہاکڑہ بھی کہا ہے ، بعض نے سرسوتی کو الگ دریا کہا ہے۔

جہاں تک میری تحقیق ہے، سرسوتی الگ دریا تھا کیونکہ کسی وقتوں میں سندھ سات پانیوں والی زمین کو کہا جاتا تھا ۔ جو کہ پنجند میں گرتے تھے جبکہ ہاکڑہ تہذیب بہاولپور راجھستان کے چند علاقوں پر مشتمل تھی جو کہ اپنی مثال آپ تھی ۔ خیر ایسے میں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ہاکڑہ بہہ کر ملتان آئے اور پھر پلٹ کر پنجند جبکہ ہاکڑہ کے پلٹنے کے آثار نہیں ملتے ۔سکندر اعظم کی تاریخ میں بھی یہ الفاظ واضح طور پر درج ہیں کہ اسے سندھ پہ قبضہ جمانا تھا جو کہ دریاؤں کی زمین ہے جہاں کی مٹی زرخیز ہے ۔ فصلیں اناج عام ہے ۔ لوگ خوشحال ہیں ۔خیر قصہ مختصر براہمنیت کی خود ساختہ تہذیب نے زبانوں تہذیبوں اور ثقافتوں میں بہت زیادہ ابہام پیدا کر دیئے ۔ پراکرت ککئی راج جیسی اساطیری داستانوں کو جب میں غور سے دیکھتا ہوں یا پڑھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ مؤرخین اساطیری قصہ جات سے بہت زیادہ استفادہ حاصل کرتے نظر آئے ۔۔

بحرحال ایک بات تو ضرور ثابت ہے کہ یہاں سنسکرت پراکرت کا دور کبھی نہیں رہا، جو تھا وہ ملوہا تھا ملوہی تہذیب اور ملوہی زبان تھی ، مطلب موجودہ سرائیکی زبان۔۔ دلیل کے لیے ایک بات اور قابل غور ہے کہ ہندؤں کی ایک اور معتبر کتاب مہابھارت میں واضح طور پر سرائیکی قوم اور زبان کے اشارے ملتے ہیں ۔۔ مہابھارت وہ مشہور جتگ ہے جس میں ارجن پانڈؤں کے ساتھ لڑے ، دوسری دلیل میرے مطابق یہ ہے کہ موہنجوداڑو تہذیب کی زبان بھی سرائیکی ہی تھی کیونکہ ہڑپہ کا دور اور موہنجوداڑو کا آخری دور ایک ہی وقت میں رہا ۔ پھر ہڑپہ کا فاصلہ ملوہا سے زیادہ نہیں ۔ اب یہ اتفاق ہے یا دونوں تہذیبوں کا ایک دوسرے پہ اثر کہ ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی تہذیبوں میں ماحول معاشرہ کلچر رہن سہن ذریعہ معاش عمارتوں کی تعمیر تقریبا ً ایک جیسی ہے ۔۔ ایسے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دونوں تہذ یبوں کی ایک ہی زبان رہی پھر دونوں تہذیبوں کے تعلقات چاہے وہ سیاسی تھے معاشی مطلب تجارتی تھے بہت قریبی رہے ۔

اسی بناء پہ ان کے درمیان باہمی تعلقات تاریخی لحاظ سے تحقیق کرنے والوں کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔پھر موہنجوداڑو لاڑکانہ کے قریب ہے ۔ لاڑکانہ میں آج بھی سندھی زبان کم سرائیکی ز یادہ بولی جاتی ہے یعنی سرائیکی زبان کے قدیم الفاظ کی آمیزش بہت زیادہ ہے ۔۔ پھر اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی لاڑکانہ کی وہی زبان کیسے؟۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے کہ موہنجوداڑو کی باقیات آس پاس چھپ گئیں اور اپنی زبان نہیں بھولیں ۔ جو کہ آج بھی نسل در نسل سلسلہ جاری ہے بالکل ویسے ہی جیسے ملوہا، مول استھان، مولتھان ، مولتان اور اب ملتان ۔۔۔مگر زبان وہی قدیم ملوہی جدید سرائیکی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

(نوٹ) ۔۔ میری یہ تحقیق جو کہ مختصر مضمون کی صورت پیش کی گئی ہے 56 مشرقی اور مغربی مؤرخین کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد اخذ کی گئی ہے ۔۔ تاہم حوالاجات میں صرف چار کتب کا ذکر کیا گیا ہے ۔۔ شیرانی صاحب کی تہذیبوں اور زبانوں کے متعلق تحقیق میرے نزدیک پرو پیگنڈا کتاب کی حیثیت رکھتی ہے ۔۔ اس لیے میں اسے قابل بھروسہ نہیں سمجھتا ۔۔۔ شیرانی کے مقابلہ میں گوپی چند نارنگ کی تحقیق سرائیکی کلچر اور زبان کے متعلق زیادہ منطقی اور مدلل ہے ۔
حوالا جات ۔
تاریخ ہندوستان ۔ شنکر ترپاٹھی ۔
پٹک ۔ گوتم بدھ ۔
ارتھ آف سیون ریورز ۔
تاریخ فریڈ گوٹی ۔

Facebook Comments

محمدمیاں زبیر
ادیب مؤرخ فکشن رائیٹر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ملوہا” ملوہی سے سرائیکی تک

Leave a Reply