کتاب (عمران خان ایک نظر ماضی و حال)

ذرا سوچیے تو۔۔محمد زبیرمظہرپنوار کے ساتھ
کتاب” عمران خان اک نظر ماضی و حال پر” ۔
مصنف ۔ خدا یار خان چنڑ!

ایک وقت تھا کہ جب کبھی شب معراج اور شب براءت ہوتی تو مسجدوں میں نمازیوں کا ہجوم دیکھنے کے لائق ہوتا تھا ۔ ذکر و اذکار اور نعتیہ محافل کا انعقاد کیا جاتا ۔ شب براءت کے روزے کی سہری کا بندوبست کیا جاتا ۔ قبرستانوں میں فاتحہ خانی کے لیے بھی ہم اکثر چلے جایا کرتے تھے ۔ قصہ مختصر وہ دور ایسا تھا کہ کوئی بھی مقدس تہوار ہوتا، دن ہوتا یا رات ، ہم کامل یقین ایمان جوش و جذبے کے ساتھ عقیدت و احترام سے منایا کرتے تھے ۔۔ ہمیں پورا یقین ہوتا کہ ایسا کرنے سے ناصرف ہمارے گناہوں کی بخشش ہو گی بلکہ خدا کی قربت بھی میسر آئے گی ۔۔۔۔ شاید یہی وجہ تھی کہ راتوں کو نمازوں کے مصلے یا ہاتھ میں تسبیح ہوتی تو چھوڑنے کو من نہیں کرتا تھا۔پھر کیا وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے نظریات بدلے ضروریات نے خود کو وقت کے تابع کیا ۔پہلے مسجدوں میں صفیں ہوا کرتی تھیں اور صحن کچا یا پکی اینٹوں کا ،پوری مسجد میں دو سے تین پنکھے لیکن اب مسجدوں کے صحن میں ماربل ،صفوں یا مصلوں کی جگہ ریشمی قالینوں نے لے لی ۔ وجہ سہولیات اور بدلتا وقت ۔ باوجود ان تمام آسائشوں اور سہولتوں کے ہمیں وہ مزہ نہیں آتا جو پہلے عبادت میں تھا۔

اب ہمارے ایمانی جذبوں، مذہبی نظریات نے روحانی و قلبی سکون حاصل کرنے کے لیئے جدید شکل اختیار کر لی وہ شکل کیا تھی شارٹ کٹ ۔ محنت کم اور اجر زیادہ ۔خیر ہماری مذہبی روایات علمی ادبی ثقافتی یا پھر سیاسی روایات نے کسی دریا کی طرح اپنا رخ یوں موڑا کہ آس پاس زرخیز مٹی بنجر ہو کر رہ گئی ۔ باقی کچھ بچا تو صرف نشانات ۔۔ جنہیں سوچ کر ،یاد کر کے محظوظ ہو کر محض مسکرانے پہ اکتفا کیا جا سکتا ہے ۔ یا پھر ایسے درد کو ابھارا جا سکتا ہے کہ جس میں اذیت ہی اذیت ہے ۔سوچتا ہوں کہ کیا واقعی ہم نے شاندار ماضی جیا یا پھر وہ ہماری معصومیت تھی کہ وہ زمانہ ہی ایسا تھا کہ ہمیں وقت کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرنا تھا جیسا ہم آج کر رہے ہیں ۔ میں کتنے ہی سالوں سے مسلسل اس تگ و دو میں ہوں کہ آخر کہیں سے تو مجھے جواب ملے ۔۔ مگر نہیں اور شاید جواب ملنا ممکن بھی نہیں رہا۔

خیر ایسی ہی ایک رات تھی شاید شب براءت تھی ۔ جامعہ مسجد غلہ منڈی حاصل پور سال 2003 کی بات ہے ۔ ہم لوگ نوافل ادا کرنے کے بعد تھوڑی دیر سستانے کے لیے لیٹے تو کسی کی آواز سنائی دی ۔۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ یارو اس ملاں سے بچو ۔۔ یہ خود کا تو جنت میں جانے پہ مکمل یقین رکھتا ہے لیکن اپنے پیروکاروں کو سانپ بچھو اور طرح طرح کی بلاؤں کا ذکر کر کے خوف دلا کر ڈراتے نہیں تھکتا ۔۔ مانو کہ جیسے حضرت انسان کی کبھی بخشش ہی نہیں ہونی ۔
حالانکہ انسان خاکی ہے اور خاکی فطرت ہے کہ انسان سے کسی نہ کسی طرح سے غلطی سرزد ہو ہی جایا کرتی ہے ۔ کیا لوگوں کا خدا پہ یقین نہیں ،وہ تو کہتا ہے میں بڑا شفیق رحیم مہربان اور کریم ہوں ۔۔ رحم کرنا اور بخشنا میری مرضی کے تابع ہے مگر یہ ملاں تو ہر حال ہمیں دوزخ بھیجنے پہ آمادہ نظر آتا ہے ۔۔۔ پھر عذاب اور دوزخ کا جو انہوں نے عکس بنا رکھا ہے اسے سوچ کر بندہ ویسے ہی ہارٹ اٹیک سے مر جائے ۔

میرا خدا تو ہرگز ان ملاؤں کے تابع نہیں ۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ حقوق العباد اور حقوق اللہ پورے کرو ۔ نماز، روزہ، حج،ذکوۃ ، خشوع خضوع سے ادا کرو ۔ اللہ اللہ خیر صل ۔۔ اہم بات کہ انسانیت کی قدر کرو ۔ چاہے کسی بھی مذہب سے ہو یا فرقہ سے ہو ۔میں ان وقتوں میں انتہا پسند دیو بندی مولویوں جیسا ہوا کرتا تھا ۔ سچ ہے کہ مجھے مذکورہ شخص کی باتیں ذرا بھی اچھی نہ لگیں لیکن جب انسانیت کے موضوع پہ خان صاحب نے بولنا شروع کیا تو میں خود کو خان صاحب کی باتوں سے متاثر ہونے سے نہ روک سکا ۔ چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ یہ بندہ بات تو بڑے پتے کی کر رہا ہے۔ جانتے ہیں کہ وہ شخص کون تھا ۔ خدا یار خان چنڑ۔بات کرنے یا اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ ایک وقت تھا جب عبادات اور مقدس ایام کی اہمیت ہوتی تھی ۔ انسانیت کی اہمیت ہوتی تھی، قدر ہوتی تھی، اصول تھے، سادہ سے نظریات اور ضروریات کم تھیں ۔

لیکن افسوس وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدلتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ صیح معنوں میں انسانیت اور عبادات جیسی نعمتوں سے مستفید ہونا شاید قریب قریب ختم ہونے کو ہے۔اب شب معراج اور شب براءت میں عبادات بہت کم دیکھنے میں آتی ہیں ۔ برعکس اس کے بحث و مباحثے زیادہ ہوتے ہیں کہ نوافل پڑھنا ساری رات جاگنا ایسی مخصوص راتوں میں بدعت ہے ۔ جب کبھی میں ایسی باتیں سنوں یا پڑھوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ شاید اس وقت اسلام سادہ سا تھا اور اب ماڈرن ہو گیا ہے ۔ ضروریات بدل گئی ہیں ۔یا پھر ڈھیر سارا ثواب کمانے کی ضروریات جدید نظریات کے بوجھ تلے آ کر دم توڑ گئیں ہیں ۔ اب ماتھوں پہ محراب نہیں بنتے اور نہ ہی ٹخنے پکے ہوا کرتے ہیں ۔

تو بات ہو رہی تھی خدا یار خان چنڑ صاحب کی ۔ آپ سے شناسائی 2003 سے ہے ۔ آپ کے سیاسی و سوشل کیرئیر سے مجھے ناصرف آگاہی تھی بلکہ ہمیشہ دلچسپی بھی رہی ۔ ایک تو وجہ یہ تھی کہ خدا یار خان صوفی مزاج بندے ہیں اور پھر ان کے حلیے اور لہجے میں صوفی ازم کی جھلک بھی نظر آتی ہے ۔ میں دیکھتا رہا کہ بظاہر یہ صوفی بندہ قول و فعل یا سیاست میں کیسا ثابت ہوتا ہے ۔ سچا کھرا یا پھر عام لوگوں جیسا کہ چڑھتے سورج کو سلام ، باقی سب کو رام رام ۔ابھی حال ہی میں خان صاحب کی کتاب (عمران خان اک نظر ماضی و حال پر ) منظر عام پر آئی ہے، کتاب پڑھی ، یہاں تک کہ بار بار پڑھی، بہت کچھ ایسا تھا جو مجھے خان صاحب کی ذات کے متعلق معلوم نہیں تھا ۔ کتاب کا بتاتا چلوں کہ کتاب خان صاحب کی سیاسی بائیوگرافی پر مبنی ہے کہ کس طرح خان صاحب نے ماضی میں ایک ایسی جماعت اور قائد کا دامن تھاما جب اس جماعت کا دنیا بھر میں مذاق اڑایا گیا مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ کبھی پستیاں بھی چوٹیوں میں بدل جاتی ہیں جب زلزلے آ جائیں تو۔۔ یہاں زلزلے سے میری مراد عوامی شعور فکر اور سوچ ہے ۔۔خیر میرے لیے یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ خدا یار چنڑ ،پی ٹی آئی کے پہلے سو ممبران میں سے ایک ہیں ۔

آپ کی پی ٹی آئی کے لیے خدمات پڑھیں ۔ چونکا دینے والے انکشافات پڑھے کہ یہ جماعت بھی اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے،ایسے مسائل کا شکار کہ جنہیں برداشت کرنا کارِ دشوار ٹھہرے، داد ہے خدا یار خان چنڑ کو کہ آپ ناصرف ابھی تک پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ پارٹی میں رہ کر نظریاتی کارکنوں کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں، تاکہ پارٹی اپنے منشور اور نظریات کا تحفظ کرے ۔ پارٹی قیادت کو ادراک ہو کہ کیا کیا ہو رہا ہے ۔ پی ٹی آئی اس لیے نہیں بنی کہ وہی یسو پنجو ہار کبوتر ڈولی ہر جگہ کھیلا جائے ۔ وہی چہرے وہی سرمایہ دار وہی غاصب لوگ پھر اقتدار میں آئیں جنہوں نے ہر گھاٹ کا پانی پیا اور پارٹی ہائی جیک کرنے کے بعد بار بار بڑے عہدے پہ فائز ہو کر حاکم کہلائے ۔۔شروع میں میں نے ایک تمہید باندھی ہے ۔ وہ اس لیے کہ ہمارے ہاں مذہبی اور سیاسی نظریات ہمیشہ مفادات ترجیحات اور سہولیات کے مرہون منت رہے ہیں ۔

ہمارے ہاں کبھی بھٹو جیسا خالص سوشلسٹ سیاستدان بھی تھا جسے پاکستان اسلام اور مسلمان سے محبت رہی سب سے بڑھ کر بھٹو انسانیت سے محبت کرتا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھٹو کو مذہبی طبقے قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔۔ اس کی وجہ نیشنلسٹ ،سوشلسٹ اور لبرل مسلمان ہونا ہے ۔ تبھی تو تختہ دار کا رسہ بھٹو شہید کے گلے کی زینت بنا ۔۔۔ اسی طرح ایک طرف جنرل ضیاء جیسا غاصب آمر بھی رہا ، جس نے ناصرف سیاست کو برباد کیا ،مذہب میں فرقہ پرستی کا بیج بو کر قوم کے احساسات جذبات اور مذہبی عقائد و نظریات کو مجروح کیا ۔۔۔ پرائی آگ میں خود کو جھونک دیا ۔ جس کا خمیازہ آج تک پاکستانی قوم اور پوری دنیا کے مسلمان بھگت رہے ہیں ۔۔۔۔ بات کہیں کی کہیں چل نکلی، تو بات ہو رہی تھی پی ٹی آئی اور کتاب کی تو ایسا ہے کہ عمران خان صاحب تو بذات خود سادہ آدمی ہیں ۔ جس کا اندازہ ان کے لہجے یا سیاسی شعور سے لگایا جا سکتا ہے کہ اصول فکر اور ڈیلیور کرنا مگر یہ جو پچھلے چند سالوں میں پارٹی کو شہرت ملی الگ بات ہے، اسٹیبلشمنٹ یا عوامی شعور مگر ایک بات تو طے ہے پی ٹی آئی ملک کی سب سے معروف تربیت یافتہ سیاسی جماعت بن چکی ہے خاص کر نوجوان طبقے میں تو بیحد مقبول ہے ۔

مگر کیا اتنا کافی ہے ؟۔۔ ایمان سے سوچیں کہ موجودہ پارٹی میں وقت حاضر کے جو پی آئی ٹی کے قائدین ہیں، سچ میں لیڈر کہلوانے کے لائق ہیں؟ ۔۔۔ میرے مطابق تو بالکل نہیں ۔۔ کیا دیا انہوں نے قوم کو صرف حوصلہ اور نتیجہ ہمیشہ مایوسی نکلا ۔۔۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہمارا نوجوان طبقہ باشعور ، پڑھا لکھا، اصول پسند ہے ۔ ماضی کی نسبت آج کا نوجوان خوب سیاسی بصیرتیں رکھتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ نوجوان طبقہ پاکستانی سیاست کو سمجھنے میں ابھی تک نا کام ہے ۔۔ وجہ یہ کہ نوجوان چکا چوند تو دیکھتے ہیں ۔ منشور اور نظریات تو دیکھتے ہیں مگر پارٹی کے اندر کی رواداد سے باخبر نہیں ۔ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوا کرتی ۔۔ اگر تھوڑا بہت سونا موجود بھی ہو تو جلد ہی اسے ہاتھ کا بریسلٹ یا انگوٹھی بنا کرمحض زیبائش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور سونا خود کچھ نہیں کر پاتا، یہ منحصر ہے ڈھلائی کرنے والے پہ کہ کتنی کھوٹ ڈالے ۔خیر خدا یار خان چنڑ نے اپنی کتاب میں جو سوالات اٹھائے ہیں میرے مطابق خدا یار چنڑ حق بجانب ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

باوجود ایسی جرات کے انہیں ڈی گریڈ کرنا خدا یار چنڑ کی سیاسی خدمات کی تذلیل سمجھا جائے یا پھر سائیڈ لائین کر دینا ایک ایسے ورکر کو جو کہ بانی ارکان میں سے ایک ہے ۔ جس کا پارٹی پہ جائز حق ہے ، اسے پارٹی اعتماد میں کیوں نہیں لے رہی ؟۔ کیا خدا یار چنڑ کا موٹی فنڈنگ اور اعلی درجے کی سہولیات فراہم نہ کر پانا بھی اس کی وجہ ہو سکتا ہے؟ ۔۔۔کہیں ایسا تو نہیں کہ چنڑ کے پاس اضافی دولت نہیں اور پھر آپ ایک چھوٹے سے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔کیا نظریات شخصیت پسندی کے محتاج ہیں یا پھر اصولوں کے۔۔۔ خدا یار نے کچھ ایسے ہی سوالات اپنے لیڈر کے سامنے رکھے ہیں کہ خدارا کوئی حل کرو اور پارٹی کو بچاؤ ۔
(خصوصی نوٹ)
یہ تحریر نا تو کسی کے حق میں ہے اور نہ ہی مخالفت میں ۔ اسے صرف میرا سیاسی تجزیہ سمجھا جائے ۔۔ یہ تجزیہ محض خدا یار خان چنڑ کی کتاب تک محدود نہیں بلکہ ڈھیر سارے عملی مشاہدوں پر مبنی ہے ۔۔ جن میں بہت سے صحافیوں کے کالمز ، ادباء کے مضامین ،مبصرین کے تبصرے ۔۔۔۔ اور اسی حقیقی دنیا میں وہ نظریاتی کارکن جن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں ۔باقی رہا خان صاحب سے میرا تعلق تو خان صاحب سے شناسائی پرانی ہے مگر خان صاحب کا میں کبھی بھی نزدیکی نہیں رہا ۔۔۔ میرا یہ مضمون مکمل دیانتداری اور ایمانداری پر مبنی ہے ۔

Facebook Comments

محمدمیاں زبیر
ادیب مؤرخ فکشن رائیٹر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply