مسلم ممالک کے درمیان تنازعہ

جنگل کا راجا ،شیر ایک دن گہری سوچ میں تھا کہ ایک نیا حربہ کون سا استعمال کروں جس سے شکار بھی آسان ہو جائے اور کوئی مزاحمت بھی نہ کرنی پڑے۔ کچھ دیر سوچ بچار کے بعد راجا جنگل کی سیر پر نکل پڑا کہ اس نے چند گائیں دیکھیں،،،،کیا دیکھتا کہ ان میں آپسی تال میل اور یکجہتی ہے۔۔۔۔ شیر ان کی یہ خصوصیات دیکھ کر سوچ میں پڑا، دور ایک دوسری جگہ بیٹھ کر کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک اس کے خوفناک چہرے پر ہنسی نمودار ہوئی ۔۔۔ شیر کھڑا ہوا اور ایک آواز نکالی جس سے پورا جنگلی علاقہ لرز اٹھا ۔۔۔۔۔
چند روز بعد شیر کا پھر اسی جانب سفر ہوا، لیکن اس بار شیر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے دھاڑتا ہوا آیا۔۔۔۔ پورا جنگل کانپنے لگا۔۔۔ جب شیر اس جگہ پہنچا جہاں اس نے یہ رنگ برنگی گائیں دیکھی تھیں تو کیا دیکھتا ہے کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ایک دیوار کی مانند بیٹھی ہیں۔۔۔ شیر کو دیکھ کر اگرچہ کسی حد تک خوف ہوا لیکن شیر نے اپنا دوسرا چہرہ ان کے سامنے اختیار کر کے ان سے بولا۔۔۔۔ کیا ہو رہا ہے؟ ایک ایک کر کر سبھی گائیں کھسکتی جا رہی تھیں ۔۔
شیر نے جب یہ دیکھا تو آخری اکیلی گائے سے بولا گھبراو مت میں تمہیں کچھ نہیں کروں گا۔.۔۔ مجھے تم سے بے حد ہمدردی ہے، تمہاری نسل مجھے اچھی لگتی ہے۔۔۔ البتہ یہ جو کالے رنگ کی گائے ہے مجھے اس نسل سے ہی نفرت ہے، اور جس سے مجھے نفرت ہو اسے میں زندہ نہیں چھوڑتا۔۔۔۔۔ تم مزے کرو، تمہارے ساتھ کوئی نہیں چھیڑ کرسکتا۔۔۔۔ مگر خبردار یہ میری باتیں کسی کو کہنا نہیں بصورت دیگر میں دوست اور دشمن میں فرق نہیں کرتا۔۔۔۔ گائے نے اپنی خیریت سمجھ کر ہاں بھر لی اور وہاں سے کھسک گئی، ۔۔۔۔ شیر یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا۔۔۔۔۔۔
شیر آگے بڑھ کر جب خوف کی ماری دوسرے نسل اور رنگ کی گائے کے درمیان آدھمکا تو وہ ڈر کے مارے ہانپنے لگی۔۔۔ شیر نے اسے بھی اسی طرح تسلی دی اور اسے اس بات کا اطمینان دلایا۔یہی طریقہ اختیار کر کے جب شیر باتیں سمجھا سمجھا کر تھک گیا تو ، ہنستے ہنستے شیر اپنی کھچار میں پہنچ گیا۔۔۔ تھکاوٹ کی وجہ سے جلد سو گیا۔۔۔۔ صبح جب نیند سے بیدار ہوا تو اس کے چہرے پر ایک بار مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔۔۔ اپنے آپ سے مخاطب ہو کر بولا کہ اگر ان گائیوں کے درمیان کا یہ رشتہ محبت و یکجہتی نہ ٹوٹتا تو ان پر کنٹرول حاصل کرنا ناممکن تھا۔۔۔۔۔ اب ایک ایک کر کے سب شکار ہو جائیں گی اور کوئی مزاحمت بھی نہیں کرنی پڑے گی۔۔۔۔ واہ واہ واہ۔۔۔۔۔ شیر نے دھڑام سے آواز نکالی۔۔۔
پہلے ایک گاے کو پھر دوسری، تیسری اور اس طرح سبھی گائیں شکار ہو گئیں۔۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر پہلی والی گائےکو اپنی یکجہتی یاد آگئی ۔ اسے اب یہ محسوس ہو گیا کہ شیر نے کیسی چال چلی ۔۔۔۔۔ نہ ہی ہماری یکجہتی رہی اور نہ ہی ہمارا نام ونشان۔۔۔۔۔۔ شیر اس کی آنکھوں سے آنسو دیکھ رہا تھا اور بولا ۔۔۔۔ میں شیر ہوں۔۔ جنگل کا راجا ہوں۔۔۔ اور راجا دوراندیشی اور چاپلوسی اختیار نہ کرے تو کیسا راجا۔۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔
پھر آخر میں پڑی اس غمگین گائے پر جھپٹا اور مزے سے کھا گیا۔۔۔۔۔۔۔
برابر یہی صورت حال آج مسلم ممالک کی ہے۔۔۔۔ عالمی پولیس مین کا کردار ادا کرنے والے امریکہ نے ایک ایک کر کے سب ملکوں کے سربراہان کو چاکلیٹ تھما دی۔۔۔ جو میٹھا چاکلیٹ نہیں اصل میں زہر ہے۔۔۔۔ بجائے اس کے کہ ہم سمجھ جاتے ہم پے درپے اسی کی طرف لپک رہے ہیں۔۔۔۔ ایران، عراق، افغانستان، شام، سوڈان، یمن، پاکستان، اور اب سعودیہ وقطر کا تنازعہ کھڑا کراکے خود دور تماشائی بنا بیٹھا ہے۔۔۔۔ وائے افسوس صد افسوس ہمارے مسلم حکمرانوں کی سوچ پر۔

Facebook Comments

ابراہیم جمال بٹ
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک درد بھری پکار۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply