• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایک امیدوار کئی حلقے ۔۔یہ تماشا کب تک؟۔۔۔آصف محمود

ایک امیدوار کئی حلقے ۔۔یہ تماشا کب تک؟۔۔۔آصف محمود

الیکشن ایک سنجیدہ عمل ہے، اسے محض الیکشن کمیشن پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ چند سوالات ایسے ہیں جن پر ہمیں خود بطور قوم غور کرنا ہو گا ۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ایک امیدوار کو بیک وقت ایک سے زیادہ حلقوں سے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے؟ ہمارے ہاں ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینا ایک فیشن بن گیا ہے۔کوئی صاحب چار نشستوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں تو کوئی پانچ سے۔ کسی کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ ایک نشست سے کھڑا ہو کر کہیں ہار نہ جائوں اور کوئی صرف یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ دیکھا میں کتنا مقبول رہنما ہوں ہر صوبے سے جیت سکتا ہوں۔اب ہوتا یہ ہے کہ ایک سے زیادہ نشستوں سے کامیاب ہونے کے بعد یہ حضرات تیس دنوں کے اندر ایک سیٹ اپنے پاس رکھ کر باقی سیٹیں چھوڑ دیتے ہیں۔جو سیٹیں یہ چھوڑ دیتے ہیں ، ان انوکھے لاڈلوں کی خاطر وہاں ایک بار پھر انتخابی عمل شروع ہو جاتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ انتخابی عمل آسان اور سستا کام ہوتا ہے؟ہر گز نہیں۔ یہ ایک مہنگی اور اذیت ناک مشق ہے جس سے نہ صرف یہ حلقہ بلکہ پوری قوم گزرتی ہے۔اس وقت ملک میں10 کروڑ 59 لاکھ 60 ہزار ووٹرز ہیں اور قومی اسمبلی کے 272 حلقے ہیں جہاں براہ راست انتخاب ہوتا ہے ۔اس کا مطلب ہے اور فی حلقہ اوسطا 3 لاکھ 90 ہزار ووٹر ہے۔اگر بلوچستان اور فاٹا کے حلقے کے ووٹرز کا تناسب نکالیں تو وہ بہت کم ہے یوں گویا بڑے شہروں میں ایک حلقے میں اوسطا ووٹرز قریبا 7 لاکھ تک جا سکتے ہیں۔ضمنی الیکشن اب نظر آ رہا ہے کہ بڑے شہر ہی سے ہو گا ۔گویا کوئی بھی رہنما صرف ایک نشست جیت کر چھوڑ دیتا ہے تو گویا یہ سات لاکھ ووٹرز کو نئے سرے سے ایک مشقت میں ڈالنے والا کام ہے کہ عزیز ہم وطنو ! آپ کا محبوب قائد آپ کے دی ہوئی سیٹ آپ کے منہ پر مار کر چلا گیا ہے اس لیے آپ دوبارہ سے اپنے نمائندے کا انتخاب کر لیجیے۔ اس ضمنی الیکشن پر اخراجات بھی ہوں گے ۔ اس وقت بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے ڈیڑھ ارب روپیہ مختص کیا گیا ہے۔ ضمنی الیکشن ہو گا تو نئے بیلٹ پیپرز چھپیں گے۔انتخابی عملے کی ڈیوٹی لگے گی۔ فوج تعینات ہو گی۔ جج عدالتوں کو چھوڑ کر ریٹر ننگ افسر کے طور پر فرائض انجام دینے آئیں گے۔ پولیس تعینات ہو گی۔ اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازمین پریزائڈنگ افسر کے طور پر فرض ادا کرنے کے لیے طلب کیے جائیں گے۔ ٹرانسپورٹیشن چارجز ہوں گے۔سیکورٹی کے لیے بھاری اخراجات کرنا پڑیں گے ۔ہو سکتا ہے مقامی تعطیل ہو اور اجتماعی زندگی کا ایک دن ضائع ہو جائے۔سوال یہ ہے کہ یہ سب کس لیے؟محض اس لیے قومی خزانہ اور قوم کا وقت برباد کیا جائے کہ چند انوکھے لاڈلوںکی ضد تھی کہ وہ ایک سے زیادہ حلقے سے الیکشن لڑیں گے؟ دنیا کے مہذب ممالک کو تو چھوڑ ہی دیجیے ، بھارت جیسے ملک میں بھی الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا اور اس نے عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ33 کی ذیلی دفعہ 7 میں چودہ سال تک ایک طویل جدوجہد کے بعد 2014ء میں یہ تبدیلی کروا لی کہ ایک امیدوار زیادہ سے زیادہ دو حلقوں سے الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے۔بھارتی الیکشن کمیشن یہیں نہیں رکا۔ اس وقت وہ بھارت کی سپریم کورٹ سے رجوع کر چکا ہے کہ دفعہ 33 میں ایک بار پھر ترمیم کرتے ہوئے اب یہ طے کر دیا جائے کہ ایک امیدوار صرف ایک حلقے سے انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے۔ساتھ ہی بھارتی الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے یہ درخواست بھی کی ہے کہ اگر کسی وجہ سے یہ ترمیم نہیں کی جاتی تو پھر ہم ضمنی انتخابات کا بوجھ قومی خزانے پر نہیں ڈالیں گے۔الیکشن کمشن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت اپنے خوف سے ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑتی ہے تو اس الیکشن کے اخراجات غریب بھارتی قوم کیوں برداشت کرے۔اس صورت میں جس شخص کے حلقہ چھوڑنے کی وجہ سے ضمنی الیکشن ہو گا اس ضمنی الیکشن کے اخراجات کی مد میں ایک مخصوص رقم اس امیدوار سے حاصل کی جائے گی۔اب دیکھتے ہیں بھارتی سپریم کورٹ اس پر کیا فیصلہ دیتی ہے ۔سوال البتہ یہ ہے کہ بھارت کا الیکشن کمیشن یہ سب کر سکتا ہے تو ہمارا الیکشن کمیشن کیوں نہیں کر سکتا؟کیا ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ ہم نے ہر گز کوئی اصلاحات نہیں کرنی اور ہم نے قوانین کو طاقتور طبقات کا راجواڑہ بنا کر رکھنا ہے؟ دستور پاکستان کے آرٹیکل 25 کے مطابق قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں۔لیکن انتخابی قوانین اس آرٹیکل سے متصادم ہیں۔ یہاں ایک عام ووٹر تو پابند ہے کہ صرف اس حلقے میں ووٹ ڈال سکتا ہے جہاں اس کا ووٹ رجسٹرڈ ہے لیکن امیدواران کو آزادی ہے پاکستان کے جس حلقے سے چاہیں کھڑے ہو جائیں اور چاہیں تو تین ، چار پانچ چھ یا اس سے بھی زیادہ حلقوں سے بیک وقت کھڑے ہو جائیں ۔ اس سلسلے میں سرے سے کوئی قانون موجود ہی نہیں۔ کھلی اجازت ہے۔ انوکھے لاڈلے جتنے حلقوں سے چاہیں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہمارا پارلیمانی نظام برطانوی پارلیمانی نظام کی روایات پر کھڑا ہے۔اب برطانیہ میں تو ایک امیدوار صرف ایک حلقے سے الیکشن لڑ سکتا ہے۔ سکاٹش پارلیمنٹ کے لیے تو یہ بھی لازم ہے کہ امیدوار صرف اس علاقے سے کھڑا ہو سکتا ہے جہاں سے اس کا تعلق ہے۔پاکستان میں چلیں آپ یہ پابندی تو نہ لگائیں کہ امیدوار صرف اپنے حلقے سے الیکشن میں حصہ لے گا لیکن یہ پابندی تو کم از کم لگائی جائے کہ ملک بھر میں جہاں سے چاہو الیکشن لڑ لو مگر صرف ایک حلقے سے۔ملک کو ان کی چراگاہ تو نہ بنائیں۔ ایک سے زیادہ حلقوں سے کھڑا ہونے والا شخص عوام کے شعور اجتماعی کی توہین بھی کر رہا ہوتا ہے۔ ایسا شخص نہ صرف قومی خزانے پر بوجھ ہوتا ہے بلکہ وہ عوام کو بھی دھوکہ دے رہا ہوتا ہے اور ان کا تمسخر اڑا رہا ہوتا ہے۔ عوام ایک ایسے شخص کو ووٹ دے رہے ہوتے ہیںجس کے بارے میں انہیں یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ جیت کر اس حلقے کو پاس رکھے گا یا ان کے منہ پر دے مارے گا کہ یہ لو اپنا حلقہ اور اب اپنے نمائندے کا نئے سرے سے انتخاب کر لو۔کتنی مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ چند انوکھے لاڈلوں کے لیے ریاست اور عوام دونوں کے ساتھ مذاق کا یہ عمل جاری ہے اور کوئی سوال تک نہیں اٹھا رہا۔ یہ سوال پارلیمنٹ نے اٹھانا ہے نہ الیکشن کمیشن نے۔ یہ سوال عوام کو اٹھانا ہو گا جس کی رگوں سے لہو نچوڑ کر بالادست طبقے کے گھروں میں چراغ جلائے جاتے ہیں۔آنکھیں کھولیے ، یہ آپ کے ٹیکس کا پیسہ ہے ، صرف پٹرول کی مد میں آپ سے سالانہ ہزار ارب روپے چھین لیے جاتے ہیں۔ کیا ان پیسوں کو اس بے رحمی سے استعمال کیا جاتا رہے گا؟ راتوں رات انقلاب نہیں آیا کرتے۔یہ صرف ایک دھوکہ ہے۔تبدیلی ارتقاء سے آتی ہے اور ارتقاء کے لیے لازم ہے کہ سوال اٹھائے جاتے رہیں۔تو کیا ہم یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ ان انوکھے لاڈلوں کی ناتراشیدہ خواہشات پر قومی خزانے کو برباد کیوں کیا جاتا ہے؟کیا ہم یہ طے نہیں کر سکتے کہ ایک امیدوار ایک حلقے سے الیکشن لڑے گا؟اور اگر یہ نہیں ہو سکتا تو پھر وہ ایک سے زیادہ نشستیں جیت کر جو جو نشست چھوڑے گا وہاں سے دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کو کامیاب قرار دے دیا جائے؟اگر یہ بھی قبول نہیں نہیں تو پھر نشست چھوڑنے والا امیدوار اور اس کی پارٹی ضمنی الیکشن کے تمام اخراجات برداشت کرے۔بیلٹ پیپرز کی چھپائی سے لے کر ریٹرننگ افسران، پریزائڈنگ آفیسر ، وہاں تعینات پولیس ، فوج اور رینجرز کی تین دن کی تنخواہ اور جملہ ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات سب ان انوکھے لاڈلوںسے کیوں نہ وصول کیے جائیں؟ قوم اور قومی خزانے کے ساتھ یہ تماشا آخر کب تک؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply