کام نہیں چہرہ: دہلی کے ووٹروں کا نظر انتخاب (عبدالعزیز)

اس بار جس طرح دہلی کے بلدیاتی انتخاب کو اہمیت دی گئی کبھی بھی کسی بھی بلدیاتی انتخاب کو اس قدر اہمیت یا شہرت نہیں دی گئی۔ اس کا ایگزٹ پول بھی اخباروں میں شائع ہوا اور ٹی وی چینلوں پر دکھایا گیا۔ ٹی وی چینلوں پر رزلٹ کے دن جس طرح جنرل الیکشن کے نتائج پیش کئے جاتے ہیں اسی طرح دہلی کے بلدیاتی الیکشن کے نتائج بھی صبح 7بجے سے پیش کئے جانے لگے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ بی جے پی یا نریندر مودی کی لگاتار جیت اور خاص طورسے اتر پردیش کے اسمبلی انتخاب میں زبردست کامیابی کے پس منظر میں عام آدمی پارٹی اپنی جیت برقرار سکے گی یا نہیں ؟ کانگریس پارٹی اپنی پرانی پوزیشن میں کچھ بہتری لاسکے گی یا نہیں ؟بی جے پی اپنی لگاتار جیت کو درج کرنے میں کامیاب ہوگی یا نہیں ؟

اس طرح کے سوالات اس قدر ابھارے گئے کہ لوگوں میں دلچسپی ضرورت سے زیادہ پیدا ہوگئی، حالانکہ دہلی کے 46فیصد لوگوں نے ووٹ نہیں ڈالے، محض 54فیصد ووٹروں نے دلچسپی دکھائی، مگر اخبارات اور ٹی وی چینلوں نے جس طرح مقامی الیکشن کا رات دن چرچا کیا اس سے لوگوں میں نتائج جاننے کا شوق اور جذبہ بہت زیادہ پیدا ہوگیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے دس سال لگاتار دہلی کے بلدیاتی ادارے میں حکمرانی کی۔ کرپشن، گندگی اور بیماری کی وبا اس قدر تھی کہ جس کو میڈیا والے زیرو پرسینٹ سروس یعنی کام بی جے پی کے کونسلروں میں دس سال مسلسل رہ کر کچھ بھی نہیں کیا۔ اس کا اقرار اور اعتراف خود بی جے پی پارٹی نے کیا کہ تمام پرانے کونسلروں کو ٹکٹ نہیں دیا۔ 154نئے امیدواروں کو میدان میں اتارا، مگر اس جرأت مندانہ فیصلہ کے خلاف پارٹی میں کسی قسم کا بھونچال نہیں آیا۔ چند لوگوں کو چھوڑ کر کسی نے بغاوت کا علم بلند نہیں کیا۔ بی جے پی کو نہیں لوگوں نے نریندر مودی کے چہرہ کو دیکھ کر ووٹ دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ سمجھ کر یہ اب بی جے پی نہیں ، نئی بی جے پی یا مودی پارٹی ہے۔ اب مودی سب کچھ ٹھیک کردیں گے۔ ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ دو سال میں عام آدمی پارٹی کی کارکردگی کچھ ایسی ہوئی کہ لوگوں نے پسند نہیں کیا۔ جس قدر جلدی سے اسے اوپر اٹھایا تھا اسی طرح اس کے رویہ اور کارکردگی کو دیکھ کر دو سال کے اندر نیچے گرا دیا۔ جہاں تک کانگریس کا معاملہ ہے تو کانگریس اوپر سے نیچے تک شکست خوردگی کے احساس سے اوپر نہیں اٹھ سکی۔ اگر چہ 2015ء کے مقابلے میں اسے دو گنا ووٹ ملے ہیں ۔ 2015ء میں 10 فیصد ووٹ ملے تھے اور اس بار اسے 21 فیصد یعنی دو گنا سے بھی 1 فیصد زیادہ ووٹ ملے مگر اسے سیٹیں صرف 30ملی ہیں جس سے اس کی پوزیشن پہلے ہی جیسی رہی، یعنی وہ تیسری پوزیشن میں ہی رہی۔ ضمنی انتخاب یعنی راجوری گارڈن اسمبلی حلقہ میں یقینا اسے دوسری پوزیشن حاصل ہوئی جبکہ عام آدمی پارٹی کو تیسری پوزیشن پر اکتفا کرنا پڑا۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply