یابڑ گلی آج بہت عجیب پریشانی کا شکار تھا۔ کبھی سر پٹختا کبھی کان کھجاتا کبھی بنچ پر بیٹھتا تو کبھی گھاس پہ جا لیٹتا۔ پریشانی تھی کہ بڑھتی ہی چلی جارہی تھی۔ دراصل ہوا یوں تھا کہ آج اخبار پڑھتے جب اس نے روز کی طرح باقی سب برجوں کا حال پڑھ کر اپنے سٹار کا حال پڑھا تو وہاں لکھا تھا “تم جو کچھ چاہتے ہو تم نے جو بھی کرنا ہے جلدی جلدی کرلو تمہارے پاس بہت کم وقت رہ گیا ہے۔”
یابڑ گلی ایک بہت بہادر انسان تھا موت سے اسے ذرا بھی ڈر نہیں لگتا تھا بلکہ اپنی اس تیس پینتیس سالہ زندگی میں کم ازکم چھ بار وہ موت کو ہاتھ لگا کر واپس آیا تھا۔
اس کا یہ قسمت کا حال، برجوں ستاروں اور نجومیوں وغیرہ پر بھی بالکل یقین نہیں تھا۔ مگر آج جانے اسے کیوں محسوس ہورہا تھا کہ سٹار ٹھیک کہہ رہا ہے میرے پاس بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ اب مجھے جو بھی کرنا ہے جلد از جلد کرنا ہے۔ پر اسے یہ پریشانی کھاۓ جا رہی تھی کہ آخر اور کتنا وقت رہ گیا ہے اور ابھی اسے کیا کیا کرنا چاہیے ۔
اس کے کئی فن پارے، تحریریں اور تصویریں ادھوری پڑی تھیں۔ اور کافی کام ایسا پڑا تھا جو اس نے کسی فورم پر شئیر نہیں کیا تھا۔ پہلے اس نے سوچا کہ سب چیزیں ایک ساتھ فیس بک پہ شیئر کر دے۔ تاکہ کم ازکم جو کام کر چکا ہے وہ تو ضائع نہ ہو۔ پھر اسے خیال آیا یہ نامناسب ہوگا بھلا گہرے مضمون، انتہائی گہری شاعری، چٹکلے، تصویریں ایک ساتھ کیسے شئیر کی جاسکتی ہیں۔ لوگوں نے کہنا ہے کہ اسے بھی فومو کا مرض لاحق ہوگیا ہے یا پھر کہنا ہے کہ یابڑ گلی بالکل ہی پاگل ہوچکا ہے۔ اسے خیال آیا کیوں نہ یہ سب چیزیں کسی دوست کے حوالے کردے تاکہ اگر اس کی موت واقع ہو بھی جائے تو کم از کم اس کا انتہائی محنت سے کیا ہوا کام محفوظ رہے۔ مگر پھر اسے خیال آیا ایسا مخلص اور ذہین دوست کون ہوسکتا ہے جو اسکی چیزیں ویسے ہی دنیا کے سامنے لاۓ جیسے وہ چاہتا ہے۔
یہ سب سوچتے سوچتے وہ بےدھیانی میں گھر سے باہر نکل آیا اور چلتے چلتے جنگل میں جا پہنچا۔ اس نے جیب سے شراب کی شیشی نکالی اور ساتھ ہی سگریٹ سلگا لیا۔
اس کا دماغ بہت تیزی سے حرکت کر رہا تھا ایک ایک کرکے اسے زندگی کے تمام اہم اور فضول واقعات یاد آرہے تھے۔
اس نے اپنا بیگ کھولا اور لیپ ٹاپ نکال کر اپنی تمام فنکارانہ محنت کا بغور جائزہ لینا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہونا شروع ہوگیا یہ سب کچھ کتنا فضول ہے ۔ اس نے غصے سے لیپ ٹاپ بند کیے بغیر ہی واپس بیگ میں ڈال دیا۔ اس کا جی چاہا کہ اس بستے کو سامنے بڑے پتھر سے اتنے زور سے مارے کہ لیپ ٹاپ کے ساتھ ساتھ پتھر بھی ٹوٹ جائے۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو یہ کرنے سے روکا اور لیٹ کر شراب پینا شروع ہوگیا۔۔۔
اب اسے احساس ہورہا تھا یہ سارا جیون بکواس ہے۔ یہ ساری دنیا بکواس ہے۔ سب بے معنی ہے۔ اس سے پہلے والے آرٹسٹ جو اتنا کچھ کر کے گۓ ہیں اس کا کیا فائدہ ہوا ہے۔ دنیا اب بھی بکواس ہے۔ کیا ہوگا زیادہ سے زیادہ اس کے کام کو بے انتہا شہرت مل جائے گی۔ اس کی زندگی پہ کوئی دو تین گھنٹے کی فلم بنا دے گا۔ کوئی اس پہ تحریر لکھ دے گا بڑی حد لوگ یہی کہیں گے یابڑ گلی سا نہ کوئی تھا اور نہ ہوگا۔ مگر کیا یہ سب کچھ کافی ہے کیا یہ سب کچھ جائز ہے۔ کوئی یہ کیسے جان سکتا ہے اس نے کتنے عذابوں سے گزر کر یہ سب فن پارے تکمیل کیے۔۔ اگر جان بھی لیں تو پھر بھی کیا- ہے تو سب بکواس ہی۔۔۔
شراب ختم ہوئی تو اس نے حشیش کا ایک سگریٹ سلگایا اور وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اسے احساس تھا کہ وہ جانا گھر چاہ رہا ہے پر اس کے قدم اسے کہیں اور لیے جا رہے ہیں۔
کچھ دیر بعد اس نے اپنے آپ کو حورم کے بستر پہ پایا۔ حورم اسکی ایسی دوست تھی جو اکثر اس کے اس وقت کام آتی جب باقی کام نہ آتیں۔۔۔۔
حورم نے اسکی ننگی چھاتی پر اپنی انگلیاں پھیرتے ہوۓ کہا ۔۔کیا بات ہے آج بہت پریشان نظر آرہے ہو۔ اس سے پہلے یابڑ گلی منہ کھولتا حورم بولنا شروع ہوگئی ۔ پریشان تو میں بھی بہت ہوں۔ اس نئی نوکری میں مزہ نہیں آرہا تنخواہ بھی بہت کم ہے اوپر سے آفس ٹھرکیوں سے بھرا پڑا ہے۔۔۔
یابڑ گلی تیزی سے اٹھا اور کہا پھر ملیں گے ایک ضروری کام یاد آگیا ہے۔
وہاں سے وہ نکلا بازار پہنچ کر اس نے زرعی ادویات بیچنے والی دکان سے زہر لیا اور نزدیکی قبرستان کی طرف چل پڑا۔
شام ہوچکی تھی بارش بھی شروع ہو چکی تھی مگر یابڑ گلی بے نیازی سے قبروں کے درمیان ہی پڑا رہا۔
اس نے کئی بار سوچا کہ زہر پیے نہ پیے ۔۔۔۔ ویسے بھی جلد مرجانا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ بجائے کسی خدا یا موت کے فرشتے کو زحمت دینے کے وہ یہ فریضہ اپنے ہاتھوں ہی سر انجام دے دے۔
اچانک اسے دور سے کچھ شور کی آواز سنائی دی۔ تھوڑی دیر بعد اسے احساس ہوا کہ لوگ کسی مردے کو دفن کرنے آرہے ہیں۔ اس پہ ایک نئی کیفیت طاری ہوگئی اس نے زہر ادھر پھینکا اور وہاں سے بھی چل پڑا۔۔۔
اب وہ راستے میں سوچتا آرہا تھا کہ ویسے بھی سب نے ہی مرنا ہوتا ہے تو کیوں نہ پھر اپنے وقت پہ ہی مرا جاۓ۔
اسے اچانک سے زندگی خوبصورت نظر آنا شروع ہوگئی ۔۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ابھی وہ جانے اور کیا کیا کرسکتا ہے۔ اب وہ اپنے لئے نہیں اوروں کیلئے جیے گا اور دنیا بدل کے رکھ دے گا۔۔۔
وہ تھوڑا سا آگے گیا تو ایک بزرگ اسے اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ پہلے اسے لگا کہ یہ شاید اس کا وہم ہے مگر جب بزرگ نے قریب پہنچ کر اس کا نام پکارا تو اسے جھٹکا سا لگا۔
یابڑ گلی نے حیرانی سے کہا آپ مجھے کیسے جانتے ہیں ہم تو پہلے کبھی نہیں ملے۔ بزرگ مسکرائے اور کہا تم وہ مشہور زمانہ آرٹسٹ ہو نہ جس کے فن کی تعریف آج تک دنیا کرتی ہے۔ یابڑ گلی نے کہا نہیں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں تو دنیا کے سامنے اپنے اصل نام سے آیا ہی نہیں۔
بزرگ نے قہقہہ لگایا اور کہا اچھا تمہارا اصل نام کیا ہے۔ یابڑگلی نے کہا وہ میں آپ کو کیوں بتاؤں یہ ایک ایسا راز ہے جو صرف مجھے ہی پتہ ہے۔ بزرگ نے کہا اچھا مت بتاؤ پر تمہارا تو مرنے کا ارادہ تھا اب کہاں جا رہے ہو۔
یابڑ گلی کو پھر دھچکا لگا اور وہ چلایا مگر آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں۔ آپ ہیں کون آخر؟

بزرگ مسکرائے اور جواب دیا “میرا نام یابڑ گلی ہے صدیوں پہلے میں بھی تمہاری طرح ایک بڑا آرٹسٹ تھا۔ مگر آج کل مجھے کوئی نہیں جانتا”۔۔۔!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں