ملک میں عام انتخابات کی گہماگہمی روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔ انتخابات کے حوالے سے خدشات بھی پائے جاتے ہیں ،لگتا یہ ہے کہ عوام کے دلوں میں یہ خدشات 24 جولائی کی شب تک رہیں گے ، تمام ہی سیاسی جماعتیں کمر باندھ کر انتخابی میدان میں اتر گئی ہیں ، سیاسی پارٹیوں کے رہنما بھی عوام میں آنا شروع ہوگئے ہیں ، کئی حلقوں کی عوام نے پانچ سال بعد اپنے حلقوں کے نمائندوں کا دیدار کیا ہے ۔ شاید ہی مادر وطن کا کوئی حلقہ ایسا ہو جس کے لوگ اپنے امیدوار سے نوے فیصد مطمئن ہوں کہ ان کے حلقے میں اس نمائندے نے ان کی بہت خدمت کی جسے انہوں نے پانچ سال پہلے منتخب کیا تھا ۔
پریشان حال عوام اب سوال کرتی ہے کہ آخر ہم کیا کیا دیں اور کب تک دیں اگر ہم ووٹ اپنا قومی فریضہ سمجھ کر دیتے ہیں تو امیدوار منتخب ہونے کے بعد اپنا کچھ بھی فریضہ نہیں سمجھتا ۔ عوام نے کئی دہائیوں سے امانت اور قومی فریضہ سمجھتے ہوئے ووٹ دیا لیکن نمائندوں نے عوام کو کیا دیا ؟ آخر عوام کی قسمت میں یہ محرومیاں کب تک لکھی ہیں ، عوام نے ووٹ کی طاقت سے آپ کو پانچ سالوں کے لیے منتخب کیا گزشتہ پانچ سالوں میں آپ نے عوام کو کیا دیا سرکاری ہسپتالوں کی اب بھی بدتر حالت ہے ، سرکاری درسگاہوں کا معیار گرتا جارہا ہے ، پینے کا صاف پانی اب بھی میسر نہیں ، بجلی اب بھی غائب رہتی ہے ، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں مزید ٹوٹ پھوٹ گئیں ، گلی محلے میں کچرے کے ڈھیر لگ گئے ، ٹیکسوں کی بھرمار مزید تیز ہوگئی ، مریض سڑکوں پر دم توڑتے رہے ، مائیں سڑکوں پر بچے جنتی رہیں ۔
عوام ووٹ دینے کے لیے جو قطار میں کھڑے ہوئے تو پانچ سال تک یہ قطاروں کا سلسلہ چلتا ہی رہا ۔ ایک نسل قطاروں میں پیدا ہوئی قطاروں میں ہی مر گئی پیدا ہوئے تو پیدائشی سرٹیفکیٹ کے لیے قطاروں میں لگے، سکول میں داخلہ لینا چاہا تو قطاروں میں کھڑے رہے ،کالج یونیورسٹی تک پہنچنے کے قابل یا تو رہے نہیں اور اگر مہنگائی کے اژدھے کے ڈسنے سے بچ گئے تو پھر قطار ، جوان ہوئے تو شناختی کارڈ کے لیے قطار، ملازمت کے حصول کے لیے قطار ، ڈرائیونگ لائسنس کے لیے قطار، بل جمع کرانے کے لیے قطار، ٹیکس دینے کے لیے قطار ، علاج کے لیے قطار ، ریٹائرمنٹ کے بعد پینشن کے لیے قطار ، ستم ظریفی تو دیکھیں جسے منتخب کیا اس کے سفر کرنے کی وجہ سے گھنٹوں سڑک پہ بھی عوام کھڑی رہی۔
عوام یاد رکھیں ووٹ دینا اگر قومی فریضہ ہے تو صادق و امین امیدوار منتخب کرنا مذہبی فریضہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ سورۃ النساء کی آیت نمبر 85 میں ارشاد فرماتا ہے جو شخص نیک بات کی سفارش کرے گا تو اسے اس کے ثواب میں سے حصہ ملے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے گا اس کو اس کے عذاب میں سے حصہ ملے گا ۔لہٰذا بہت سوچ سمجھ کر ووٹ کا استعمال کرنا چاہیے ۔ انتخاب میں حصہ لینے والی ہر جماعت اپنے انتخابی منشور کا اعلان کرتی ہے یہ اعلان زبانی بھی کیا جاتا ہے اور ووٹر میں شائع شدہ کاپی بھی تقسیم کی جاتی ہے اس منشور کو سنبھال کر رکھیں اور جن کے پاس گزشتہ منشور موجود ہیں وہ ان نمائندوں سے سوال کریں کہ گزشتہ انتخابات میں یہ آپ نے وعدے کیے تھے ہم نے پانچ سال آپ کو دئیے آپ نے پانچ سالوں میں ہمیں کیا دیا ، یہ انتخابی منشور ہی کسی نمائندے کو یا اس کی جماعت کو جانچنے کی کسوٹی ہے کہ وہ صادق و امین ہیں کہ نہیں ۔
یہاں ضرورت اس امر کی بھی ہے نگراں حکومت ایسی قانون سازی کرے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کے انتخابی منشور حاصل کرے اور ان جماعتوں سے تحریری حلف نامہ لیا جائے کہ اگر وہ انتخابات میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انہیں اپنے اس منشور پر من و عن عمل کرنا ہوگا اور اگر پانچ سالوں میں وہ اس منشور پر 80 فیصد بھی عمل نہ کرسکے تو وہ جماعت مستقبل میں منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کی اہل نہیں ہوگی۔ اس طرح کے اقدامات اب بہت ضروری ہوگئے ہیں اگر نگراں حکومت ایسے اقدامات کرنے سے قاصر ہے تو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں اعلیٰ عدلیہ کو اس بارے میں سوچنا ہوگا۔ اس طرح کے اقدامات نہ صرف وطن کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہونگے بلکہ قوم کے دکھوں کا بھی مداوا کرینگے ،اگر کہیں سے بھی شنوائی نہ ہو تو عوام ووٹ کی طاقت سے ایسے لوگوں کو نااہل کردیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں