خلائی مخلوق زندہ باد ۔۔۔ عارف خٹک

آج آپ کو ایک قریبی دوست کی کہانی سُناتا ہوں۔ یہ بالکل سچی کہانی ہے جس میں جہاں سسکیاں ہیں وہیں قہقہے بھی ہیں۔ جہاں مستی ہے وہیں بےبسی اور بےچارگی بھی ہے۔ آصف خٹک میرا قریبی دوست ہے۔ اس کے ساتھ فوجیوں نے جو بہیمانہ سلوک کیا آئیے اُسی کی زبانی سُنتے ہیں۔

میرا نام آصف خٹک ہے۔ کرک سے میرا تعلق ہے اورمیں پی ایچ ڈی سٹوڈنٹ ہوں۔ گاؤں میں  ہزار قسم کی دُشمنیاں ہیں اس لئے اسلحہ ساتھ رکھنا مجبوری ہوتی ہے۔ دورانِ تعلیم یورنیورسٹی میں بھی اسلحہ ساتھ رکھناپڑتا۔ اکثر اوقات شُغل میلے کے طور پر یونیورسٹی میں دوستوں کے بیچ اپنی نائن ایم ایم لائسنس یافتہ پستول نکال کر رکھ دیتا اور پُراسرار غرور بھرے لہجے میں ہر ایک کو بتاتا رہتا کہ اُدھر اپنے وطن میں بوجۂ خاندانی دُشمنیوں کے مخالف فریق کے بیس بندے لِٹا چُکا ہوں۔ میرے اردگرد رہنے والے پنجابی دوست ان شیخیوں کے سبب مُجھ سے مُتاثر بھی ہوتے اور ان پر میری بہادری کی دھاک بھی بیٹھ جاتی۔ اس وجہ سے یہ دوست یونیورسٹی کے ہر پھڈے میں مُجھے آگے کردیتے کہ چلو آصف بھائی، آپ کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہونے والا۔ میں کپکپاتے ہاتھوں سے مُونچھوں کو تاؤ دینے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بادل نخواستہ اُٹھتا اور دل میں خود کو سخت بُرابھلا کہتا کہ مُجھے کیا ضرورت تھی دوستوں پر رُعب داب بٹھانے کیلئے جُھوٹ پر جُھوٹ بولنے کی۔ حالانکہ سچ یہی تھا کہ آج تک گاؤں میں کسی مرغی کو نقصان نہیں پہنچایا، کُجا بیس بندے لِٹانا!

یونیورسٹی میں میری شیخیوں کا سلسلہ یونہی چلتا رہا۔ پنڈی بوائز بھی مجھے دیکھ کر ذرا دُبک سے جاتے۔ میں بھی چوڑا ہوگیا اور لوگوں سے اُونچے اور بد تمیز لہجے میں بات کرنے لگا۔ بات بات پر گالی دینا عادت سی بن گئی۔ اسی رُعب و دبدبے کی مدد سے طلباء کے مُفت کے ایڈمشن کرنے لگا اور بدلے میں اُن سے موٹی موٹی رقوم ہتھیانےلگا۔ میرے نام کی ایک دہشت تھی جو وفاقی یونیورسٹی میں پھیلنے لگی۔

کُچھ عرصے بعد میں نے اپنا مائیگریشن بنوں یونیورسٹی کروا لیا تاکہ گھر کے قریب رہوں۔ یہ الگ بات کہ یونیورسٹی سے جاتے جاتے بھی سب کو اپنا نمبر دے دیا کہ دیکھو جو بھی کام ہو صحیح یا غلط، بھائی کو یاد رکھنا۔ کسی کو ٹپکاناہو، اُٹھوانا ہو مُجھے بھولنا مت۔میرے اور تم لوگوں کے درمیان بس ایک فون کال کی دُوری ہوگی۔

اسی یونیورسٹی میں لکی مروت کا ایک دوست بھی پڑھ رہا تھا۔ چھ ماہ بعد اُس کا فون آیا کہ دادا ایک پنجابی بچی کو بھگا چکا ہوں آپ کے ہاں لے کر آنا ہے پلیز اگر کُچھ مدد کر سکو تو۔ میں نے مونچھوں کو تاؤ دیا کہ کوئی مسئلہ نہیں، کرک میں فلاں گاؤں آجانا کوئی مائی کا لعل آپ کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکتا۔ میں سوچ رہا تھا کہ بیچاری پنجابی لڑکی کے پیچھے اب اُس کے کون سے رشتہ دار کرک آئیں گے۔ خیر وہ دوست آیا اور پندرہ دن میرے پاس رہ کر چلا گیا۔ 

پھر یوں ہوا کہ ایک دن میرے نمبر پر کسی کی کال آئی کہ جس لڑکی کو آپ نے ُچھپایا ہے وہ اب کہاں ہے؟ میں نےغصے میں حسب معمول گالیاں دیں اور فون بند کردیا۔

دو دن کے بعد اُس لڑکی کی والدہ کا فون آیا۔ میں نے ترنگ میں آکر پھر اُسی انداز میں گالیاں دیں کہ تم لوگ جو کرسکتے ہو کرلو لیکن اب فون کر کے میرا دماغ خراب مت کرنا۔ تین دن کے بعد رات گیارہ بجے پھر کال آئی۔ اب کی بار دھمکی کہ پانچ منٹ ہیں تمہارے پاس۔بتا دو وہ لڑکی کہاں ہے؟ میں نے جواب میں وہ گالیاں دیں جن کو سوچ کر بعد  میں خود بھی شرمندہ ہوا۔ خیر میں نے پھر سے وہی کہا کہ جو کرسکتے ہو کرلو۔ یہ کہہ کر میں نے رضائی اوڑھ لی۔ اب میں کروٹ بدل کر سونے ہی لگاتھا کہ اچانک دھڑام سے دروازہ کُھلنے کی آواز آئی۔ سر اُٹھا کر دیکھا تو کسی ہیولے کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھی۔ میری سانسیں بند ہونے لگیں۔ یکے بعد دیگرے بیس پچیس پولیس والے کمرے کے اندر گُھس آئے۔ میں حیران و پریشان کہ یار یہ ہو کیا ہورہا ہے؟ اُسامہ بن لادن تو کب کا مر چکا ہے اب کس نے دوبارہ ڈائری دی ہے کہ اُسامہ آج بھی کرک میں مزے سے رہ رہا ہے۔

خیر مُجھے بولنے اور پوچھنے کا موقع دئیے بغیر ہی میرے منہ پر جراب ڈال کر کرک کے ایس پی کے پاس لےجایا گیا۔ کوئی بھی بندہ میرے سوالوں کا جواب نہیں دے رہا کہ آخر میرا قصور کیا ہے۔ سب خاموش اور میری حالت خراب کہ ایم ایس سی فائنل ایئر کے اسٹوڈنٹ کو اچانک کیوں اُٹھایا گیا ہے۔

پانچ منٹ بعد کیا دیکھتا ہوں کہ دس کے قریب فوجی ایس پی کے دفتر میں آدھمکے اور مُجھے  تقریباً گھسیٹتے ہوئے لےجانے لگے۔ میں رونے لگا کہ میرا قصور تو بتاؤ مگر سب نے مُنہ پر تالے لگائے ہوئے تھے۔ اچانک کسی نے میرے بازو میں انجکشن کی سُوئی چھبو دی اور اُس کے ساتھ ہی میرا ذہن تاریکیوں میں ڈوبنے لگا۔ بےہوش ہونے سے پہلے مُجھے صرف اتنا یاد تھا۔کہ فوجیوں نے مُجھے ایک ڈبل کیبن گاڑی میں پھینک دیا تھا۔

میری آنکھ گُھپ اندھیرے میں کھلی۔ پیر پھیلانے کی کوشش کی تو دیوار سے ٹکرا گئے۔ دونوں بازو پھیلانے چاہے۔تو دونوں طرف دیوار محسوس ہوئی۔ سر اُٹھانے کی کوشش میں سر چھت سے ٹکرا گیا۔ میں یہ سوچتے دہل کر رہ گیا کہ فوجیوں نے مجھے زمین میں زندہ گاڑ دیا ہے۔ یہ خیال آتے ہی میں نے دلدوز چیخ ماری مگر میری اپنی ہی چیخ اس قبر میں گُونج کر رہ گئی۔ اب میں شدِت خوف سے میں دوبارہ بےہوش ہوگیا۔ نہ جانے کتنی دیر بعد آنکھ کُھلی۔کسی نے میرے ساتھ والی دیوار میں ایک روشن دان کھول دیا اور پانی کا گلاس رکھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ اب مُنکر نکیر آئیں گے مُجھ سے سوالات کریں گے مگر میں ان سے پہلے اپنا سوال کروں گا کہ مجھ بےگُناہ کو کس جرم میں مارا گیا ہے؟ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک دیوار پھر سے کُھل گئی۔ اس بار مُجھے اس دروازے سے کھینچ کر باہر نکالا گیا۔ روشنی سے میری آنکھیں چُندھیا رہی تھیں۔ کیا دیکھتا ہوں، کہ دونوں فرشتوں نے پاک فوج کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں۔ میں فرطِ جذبات میں لڑکھڑا کر اُٹھا اور اُن کو سلیوٹ ماری کہ میری شرافت اور پاک دامنی کےلئے اتنا  ہی کافی ہے کہ مجھ سے ملنے والے فرشتوں نے بھی خاکی وردیاں زیب تن کر رکھی تھیں۔ عقیدت اور سرشاری کے ملے جُلے جذبات سمیت ابھی میں سلیوٹ انجوائے کر ہی رہا تھا کہ دونوں فرشتے اچانک گُھومے اور مجھے فلائنگ کک دے ماری۔ میں اللہ سے شکایت کرنے لگا کہ یا اللہ سوال جواب تو ہوئے ہی نہیں ہیں۔ جو بچپن سے قاری ہیبت اللہ صاحب سکھاتے آئے تھے کہ سب سے پہلے پوچھا جائےگا کہ “مَا رَبُکَّ” اس کا کیا ہوا؟ یہ تو روایتی پاکستانیوں کی طرح بنا سوال وجواب کے ٹوٹ پڑے۔ دونوں فرشتے جب دل کھول کر ٹارچر کر چکے تو دھکے مارتے ہوئے ایک کمرے میں لےکر  چلے گئے جو شاہانہ  طور پر آراستہ و پیراستہ تھا۔ کمرے کے دروازے پر فوجی وردی میں ملبوس  دو چاک و چوبند فرشتے کھڑے تھے۔ تب مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ جناب میں مرا نہیں ہوں بلکہ کسی کینٹ میں قیدی تھا۔

دونوں جوان مُجھے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر کسی صاحب کے پاس لے گئے۔ علم کہتا تھا کہ کرسی پر براجمان افسر بلا مُبالغہ کوئی لیفٹیننٹ جنرل ہی تھا کہ پنڈی میں دوران علم ہم صرف فوجیوں کو ہی جان پائے تھے۔ افسر نے کرختگی سے پوچھا وہ لڑکی کہاں ہے؟ میں نے پوچھا کون سی لڑکی سر؟ جنرل صاحب کے جواب نے گویا میرے سر پر بم گرادیا۔

“میری بھتیجی! وہی جسے آپ کا مروت دوست اغوا کرکے آپ کے گھر لایا تھا۔”

اس نے سپاہیوں کی طرف دیکھا کہ اس کو لے جاؤ اور جب تک اسے کچھ یاد نہ آجائے واپس میرے پاس مت لانا۔

دونوں سپاہی مجھے پھر سےگھسیٹتے ہوئے کمرے سے باہر لے کر آگئے۔ اب کہانی ساری کی ساری میری سمجھ میں آچکی تھی۔ یہ سب اس منحوس دوست کی وجہ سے ہو رہا تھا۔ وہ ناہنجار اگر مجھے بتا دیتا کہ لڑکی کسی جنرل صاحب کی بھتیجی ہے تو قسم پاک پروردگار کی میں دونوں کو رسیوں سے باندھ کر جنرل صاحب کے قدموں میں ڈال آتا اور انعام و اکرام کی بارش میں بھیگنے کا موقع الگ سے مُیسر آجاتا۔ 

میں سوچنے لگا کہ میں اپنے ڈائیلاگز کی وجہ سے کتنا ذلیل ہورہا ہوں۔ وہ فون دراصل جنرل صاحب کی طرف سے آرہے تھے جنھیں میں گالیاں دے دے کر کاٹ رہا تھا۔ ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ فوجی مُجھے ایک جیل نما بیرک میں لے آئے۔ بیرک کے مناظر دیکھ کر میں دہل گیا۔

ایک بندے کو دیوار کےساتھ سیدھا کھڑا کر کے س کی ہتھیلیوں میں کیلیں ٹھونک دی گئی تھیں۔ اس کی اذیت ناک چیخیں سُن کر میں بدحواس ہورہا تھا۔ ایک بندے پر نظر پڑی۔ اور میں ساکت رہ گیا۔ یہ میرے گاوں کا فوجی کنٹریکٹر تھا جو لکی مروت خودکش حملے میں مہینوں سے غائب تھا۔ ہم دونوں نے ایک دوسروں دیکھ کر منہ پھیر لئے وہ بیچارا اس خوف سے انجان اجنبی بن گیا کہ شاید میں دہشت گردی کے الزام میں لایا گیا ہوں اور اس کے لئے مزید مسائل پیدا نہ کرلوں۔ اور بھی اسی خدشے کیوجہ سے خاموش ہوگیا کہ کہیں مفت میں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ وہ بیچارا ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔ میں تھوڑا سا آگے بڑھا تو دیکھ کہ قیدی کے دونوں ٹانگوں کے بیچ بانس کا ڈنڈا دے کر اسے الف ننگا ایک کرسی پر بٹھایا ہوا تھا۔ کرسی کے بیچ سے اس کے آلات صنعت و حرفت و پیداوار نیچے رکھے پانی کے بالٹی میں غوطے لگا رہے تھے۔ میں ابھی اس منظر کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اچانک اس قیدی کی غراہٹ کسی ذبح ہوتے بکرے کی آوازوں لل میں تبدیل ہوگئی۔اب جو سمجھ آئی تو برداشت جواب دے گئی۔ بیچارے کے نازک آلات کو بجلی کے جھٹکے دیے جارہے تھے۔ اب میری پوری شلوار بھی گیلی ہوگئی۔ ساتھ آئے فوجی جو مجھے ذہنی اذیت دینے کیلئے اس ٹارچر سیل میں لائے تھے ان کا مقصد پورا ہوچکا تھا۔ اب وہ مجھے ایک الگ کمرے میں لے آئے اور ننگا کرکے وہ چھترول شروع کی کہ جس کے بعد چھ ماہ تک میرا جسم کسی بھی تکلیف کو محسوس کرنے کا قابل نہیں تھا۔  پندرہ منٹ کے بعد میں ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگیا۔ 

اگلے دن جیسے پورا جسم سُن تھا۔ مُجھے تیار کرکے جنرل صاحب کے حضور پیش کردیا گیا۔ اب جو جنرل صاحب نے مُجھ سے پوچھا تو میں نے فر فر زبان کھول دی۔ جنرل صاحب نے شکوہ کیا کہ پہلے بتا دیا ہوتا سٹوڈنٹ ہو اتنی اذیت سے نہ گزرنا پڑتا۔ بہرحال آخر میں بولے جاؤ بیٹا مگر ایک درخواست ہے کہ اس لڑکی اور لڑکے کو ڈھونڈنے میں ہماری مدد کرنا۔ میں اُن کے پیروں سے لپٹ گیا اور بھاں بھاں رونا شروع کردیا کہ سر مُجھے ایک بار جانے دیں۔قسم اللہ پاک کی دونوں کو آپ کے حضور پیش کردوں گا۔ دونوں فوجیوں نے مُجھے جنرل صاحب کے قدموں سے زبردستی الگ کرنا چاہا مگر میں کسی طور جنرل صاب کے پیر چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوا۔ بالآخر جنرل صاب نے تنگ آکر مُجھےایک لات دے ماری اور  یوں  کہیں جاکر میں اُن کے پیروں سے الگ ہوا۔

انکشاف ہوا کہ میں پنڈی میں تھا۔ یہ بھی اس وقت معلوم ہوا جب فوجیوں نے مجھے پیرودھائی اڈے پر لاپھینکا۔ 

گاؤں واپس پہنچا۔ گھر والوں سے جہاں ہمدردیاں سمیٹیں وہیں تھپڑ بھی پڑے کہ پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ بننے کی ضرورت کیا تھی آخر؟خاندان والوں نے لکی مروت اس لڑکے کے گھر جرگہ بھجوا دیا کہ آپ کے بدکردار بیٹے کی وجہ سے ہم اپنے بچے کو کھوتے کھوتے رہ گئے ہیں۔ اسی رات اس مروت دوست کا فون آیا۔ میں نے بڑی گالیاں دیں اور کہا کہ مجھے اپنا ایڈریس بتادو۔ جوان نے آگے نے لائن کاٹ دی۔

رات دو بجے پھر فوجی آئے اور مجھے اُٹھا لے گئے۔ اب کی بار مجھے لڑکے کو پہچاننا تھا۔ اگلی صُبح ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر سیالکوٹ لےجایا گیا۔ قسم سے مزہ آگیا۔ جو پروٹوکول مل رہا تھا۔ سیالکوٹ میں وہ لڑکا کسی فیکٹری میں کام کرتا تھا اور ایک رات قبل وہاں سے غائب تھا۔ کچھ ریت بعد سول کپڑوں میں ملبوس بندوں نے مجھے پھر سے مارنا شروع کردیا اور تھوڑی دیر بعد ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر فیصل آباد کے مضافات شاہ کوٹ کے علاقے میں لے گئے۔ میرا خبیث دوست پھر کہیں بھاگ چکا تھا۔یہ جان کر  فوجیوں نے پھر سے میری لاتوں اور گھونسوں سے تواضع کی۔ اب کی بار مجھے زیادہ اس لئے محسوس نہیں ہوا کہ ہیلی کاپٹر کی سواری سب پر بھاری تھی۔ میرے مزے لگ گئے تھے۔

اگلے دن مجھے راولپنڈی لایا گیا۔ کینٹ کےاندر مجھے سامنے والی سڑک پر وہ کمینہ دوست بمع اُس لڑکی کے نظر آگیا۔ میں ہذیانی انداز میں چیخنے لگا کہ یہی ہے وہ بیغیرت،گرفتار کرلو۔ یہی وہ خبیث ہے۔ میرے ساتھ سول کپڑوں میں ملبوس انٹیلیجنس اہلکار چوکنے تو ہوگئے مگر اُنہوں نے ایک قدم آگے نہیں بڑھایا۔ میں نے بے بسی اور حیرانگی سے دوڑ کر سڑک کراس کی اور دوست کو گریبان سے پکڑ کر پیٹنے لگا۔ وہ ہنس رہا تھا اور میں تیز آواز میں روئے چلے جارہا تھا، چیخے چلے جارہا تھا۔ اتنے میں پیچھے سے جنرل صاب اپنی اسٹک گُھماتے ہوئے آئے اور مجھے کہنے لگے آصف بی ہیو یور سیلف۔ یہ داماد ہے میرا۔ پہلے مُجھے غلط فہمی ہوئی تھی کہ اس نے میری بھتیجی کو اغوا کیا ہوا ہے مگر کل رات معلوم ہوا کہ دونوں کی لؤ میرج تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply