افغانستان اپنی سیکیورٹی ذمہ داریاں خود بھی ادا کرے

افغانستان اپنی سیکیورٹی ذمہ داریاں خود بھی ادا کرے
طاہر یاسین طاہر
ہر ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی داخلی سیکیورٹی کی ذمہ داریاں خود ادا کرے۔افغانستان چونکہ کئی دھائیوں سے بیرونی حملہ آوروں سے جنگ اور پھر قبائلی و باہمی خانہ جنگیوں کا شکار ہے اس لیے خطے کے اہم ممالک سمیت امریکہ و یورپ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔یہ امر بڑا حیرت افروز ہے کہ پاکستان جس قدر افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں معاونت کی یقین دھانیاں کراتا ہے کابل اسی قدر پاکستان پر در اندازی اور دہشت گرد قوتوں کی مدد کا الزام عائد کرتا ہے۔تاریخی اعتبار سے یہی بات درست ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے ساتھ پاکستان کو خاص دلچسپی رہی ہے۔ کیونکہ افغانستان میں امن پاکستان کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔لیکن نائن الیون کے بعد بالخصوص جب سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بنا ہے،کابل پاکستان کو اپنا دشمن تصور کرنے لگا ہے۔
حامد کرزئی اور اس کے بعد بننے والی حکومتوں کے منہ میں بھارتی زبان ہے۔افغانستان کا معاملہ گھمبیر اور پیچیدہ ہے۔ یہاں بیک وقت کئی انتہا پسندانہ قوتیں مصروف کار ہیں۔امریکی افواج نہ صرف ابھی تک افغانستان میں موجود ہیں بلکہ حالات کا بہائوبتا رہا ہے کہ امریکہ اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر مزید دستے بھی افغانستان بھجوائے گا۔نئی دہلی اپنی سفارتی اور معاشی سرگرمیوں سے کابل کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ پاکستان ہے۔
یہی وہ خرابی ہے جس کا ادراک نہ تو افغان حکومت کر رہی ہے ارو نہ ہی افغان عوام۔یہ پاکستان ہی ہے جس نے افغانوں کی خاطر روس کے خلاف تکنیکی جنگ لڑی اور افغانوں کو فاتح ماسکو بنایا۔اس کا صلہ مگر پاکستان کو یہ ملا کہ ہمیشہ پاکستان کے مطلوب دہشت گردوں اور وطن دشمن عناصر کو افغانستان نے پناہ دی اور پاکستان کو داخلی طور کمزور کرنے کی ہر بھارتی سازش میں افغانستان نہ صرف شریک کار ہے بلکہ اس حوالے سے سہولت کار بھی ہے۔
کابل میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان کے ملک کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ‘مسلط کر رہا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو اس بات پر کس طرح قائل کیا جاسکتا ہے کہ ایک مستحکم افغانستان ان کو اور خطے کو مدد فراہم کرے گا۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ اعلان انھوں نے کابل میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والی بین الاقوامی امن کانفرنس کے دوران کیا اور اس موقع پر گذشتہ دنوں کابل میں ہونے والے ٹرک بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 150 تک تجاوز کرنے کے حوالے سے بھی اجلاس کو آگاہ کیا۔
یاد رہے کہ اس کانفرنس میں دنیا کے دو درجن سے زائد ممالک، نیٹو اور اقوام متحدہ کے نمائندے موجود ہیں۔دریں اثنا افغانستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کے تناظر میں علاقائی سیکیورٹی کا جائزہ لینے کے لیے جی ایچ کیو میں خصوصی کور کمانڈرز کانفرنس منعقد ہوئی۔کانفرنس میں افغانستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا اور افغان عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔کور کمانڈرز کانفرنس میں کابل حملے کے بعد افغانستان کی جانب سے پاکستان پر عائد کیے جانے والے الزامات کو بلاجواز قرار دیا گیا اور افغانستان پر زور دیا گیا کہ وہ پاکستان پر الزامات عائد کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکے اور حقیقی مسائل کا ادراک کرے۔
قبل ازیں مشیر خارجہ سر تاج بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان الزام تراشیوں کے بجائے ثبوت دے۔ مگر افغانستان کی روش بھی وہی ہے جو بھارت کی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان خود بھی قیام امن کی کوششوں میں سنجیدگی دکھائے ،مگر اس مقصد کے لیے افغانوں کو جدید سماجی رویوں کو بھی اپنانا ہو گا۔ جب تک افغان قبائلی رویوں کے ساتھ امن کی کوششوں کی کہانی کہتے رہیں گے افغانستان میں امن ممکن نہیں۔افغانستان کیوں چار دھائیوں سے خانہ جنگی،اور بیرونی حملہ آوروں کی زد میں ہے؟ اس کی تاریخی وجوھات موجود ہیں۔افغانستان کو اگر پاکستان سے کوئی شکوہ ہے تو اسے سفارتی طریقے سےحل کیا جا سکتا ہے ۔پاکستان جیسے محسن ملک پر الزام تراشیاں کر کے افغانستان اپنا کوئی مقصد حاصل نہیں کر پائے گا۔خطے میں آنے والی عسکری،معاشی و سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ افغانستان اپنے آپ کو ہم آہنگ کرے اور بے جا الزام تراشیوں کے بجائے اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے خود بھی ذمہ داریاں ادا کرے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply