دنیا کا آخری بھوکا آدمی۔۔۔۔منشا یاد/افسانہ

ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے پاس کوئی ضرورت مند آیا اور آپ نے سوچے سمجھے بغیر اپنے دفاع کے لئے اندر کے خسیس اور کمینہ خصلت منشی کو پکارنا شروع کر دیا اور جب منشی اور مہمان رخصت ہوئے آپ کو یاد آنے لگا کہ ضرورت مند شخص سے آپ کے کتنے دیرینہ یا گہرے تعلقات تھے۔ آپ پر اس کے کتنے احسانات تھے اس کی ضرورت کتنی جائز اور اہم تھی۔ آپ چاہتے ہیں اس کی تلافی ہو جائے مگر نہیں ہو پاتی کہ اس نے کسی اور ذریعے سے اپنی مشکل پر قابو پا لیا ہے اور آپ اب کف افسوس ملنے کے لئے رہ گئے ہیں۔

بس کچھ ایسا ہی ہوا۔

ہم ایک پر تکلف دعوت  سے لوٹ رہے تھے، رات کے نو سوا نو بج رہے تھے۔ بازار میں زیادہ تر دکانیں بند ہو چکی تھیں۔ مگر بکریوں، سگریٹ کے کھوکھوں، کھانے پینے کے اسٹالوں اور اوپن ایئر ریستورانوں پر ابھی تک رونق تھی۔ مجھے جمائیاں آ رہی تھیں مگر وہ ابھی تک تر و تازہ تھی۔ کیونکہ اس نے خوبصورت لباس اور قیمتی زیور پہن رکھا تھا۔

گنجائش تو نہیں تھی لیکن آج کل شہر کے اس فیشن ایبل علاقے میں رات کو کاروں میں بیٹھ کر کھانا پینا کھاتے پیتے لوگوں کا دستور ہے۔ خود کو اس طبقے میں شامل رکھنے کے لئے ہمیں بھی یہ دستور نبھانا پڑتا ہے۔ میں نے اس کے لئے آئس کریم اور اپنے لئے کولڈ ڈرنک منگوایا اب صرف پان کی گنجائش رہ گئی تھی۔ میں منگوا بھی سکتا تھا مگر سوچا اسی بہانے  ٹہل لوں گا۔ بیٹھے بیٹھے پیٹ میں ہوا بھر گئی تھی۔ میں پان لے کر لوٹا تو وہ تنکوں کی تین ٹوکریاں اٹھائے اس کے قریب کھڑا تھا۔ وہ منع کر رہی تھی اور وہ اصرار۔۔۔۔ میں نے کوئی دخل نہ دیا۔ ہوٹل کے لڑکے کو ٹپ دی اور گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔ وہ بولی۔

“وہ رو رہا ہے۔”

“کون کہاں رو رہا ہے؟”

“میں نے ایک نظر اسے دیکھا، وہ ٹوکریاں زمین پر رکھے ننھے بچوں کی طرح روتے ہوئے آنسو پونچھ رہا تھا۔

“بڑے مکار ہوتے ہیں یہ۔۔۔۔۔ فریبی۔”

میں نے یہ الفاظ نسبتاً بلند آواز مگر کھوکھلے لہجے میں کہے کیونکہ میں خود کو ڈھارس دینا چاہتا تھا۔ ورنہ سچی بات یہ ہے کہ پچپن ساٹھ برس کے ایک بزرگ صورت شخص کو اس طرح بلکتے دیکھ کر میرے اندر بہت کچھ آپ ہی آپ ٹوٹ گیا تھا۔ میں اسے کچھ دے سکتا تھا۔ دینا چاہتا تھا لیکن اب گاڑی سڑک پر آ چکی تھی، آگے پیچھے بھاری ٹریفک تھا۔ پھر وہ کیا سوچتی میں اندر سے اتنا کمزور اور زود پشیمان ہوں؟ لیکن گھر پہنچتے پہنچتے لگا زار و قطار روتا وہ بوڑھا ذہن سے چپک کر میرے ساتھ ہی چلا آیا ہے۔

میں نے کپڑے تبدیل کئے اور ٹیلی ویژن کھولا مگر بند کر دیا، کتاب لے کر لیٹا مگر پڑھنے میں جی نہ لگا۔ بار بار بوڑھے کا آنسوؤں سے تر چہرہ نگاہوں میں گھوم جاتا۔ کاش میں نے اسے روپیہ دو روپیہ دے دیا ہوتا۔ یہ الجھن تو نہ ہوتی۔

روپیہ۔۔۔۔ جس کا میں نے پان چبا کر تھوک دیا تھا جسے میں سگریٹ کی صورت میں پھونک رہا تھا۔ جس کی قیمت کا سوڈا واٹر میں بوتل میں چھوڑ آیا تھا اور روپیہ۔۔۔۔جو میں نے ہوٹل کے لڑکے کو ٹپ میں دے دیا تھا۔

کبھی خود پر غصہ آتا کبھی بوڑھے۔۔۔۔ طرح طرح سے جی بہلانے کی کوشش کی کہ ضرور اس کا تعلق پیشہ ور بھکاریوں کے کسی گروہ سے ہو گا اور اب تک اس کی اپنی گاڑی اسے لینے آگئی ہو گی، بلکہ اب وہ اپنے ڈیرے پر پہنچ کر دن بھر کی کمائی کا حساب لے رہا ہو گا۔ کیا پتہ وہ اس وقت کسی ریستوران میں بیٹھ کر چکن تکہ یا کڑاہی گوشت کھا رہا ہو یا چرس بھرے سگریٹوں کے کش لگا رہا ہو، لیکن دوسرے ہی لمحے آنسوؤں سے دھلا ہوا اس کا معصوم اور نڈھال چہرہ نگاہوں میں گھوم جاتا اور میں پریشان ہو جاتا۔

پریشانی سے بچنے کی صرف ایک صورت تھی کہ میں واپس جاؤں اور مطمئن ہو کر سو جاؤں۔ لیکن میں اپنی کمزوری اس سے چھپاتا رہا، اس لئے میں نے کسی ضروری کام کا بہانہ کیا اور گیراج سے گاڑی نکال کر بازار کی طرف روانہ ہو گیا۔

جونہی میں گلی کا موڑ مڑ کر سڑک پر آیا مجھے دو پہاڑوں پر واقع اس کا چھوٹا سا گھر دکھائی دینے لگا۔ جہاں اس کی بیمار بیوی کھاٹ پر لیٹی کھانس رہی تھی اور زرد رو بیٹی بیٹھی تنکوں کی ٹوکریاں بنا رہی تھی، اس کی بیٹی کو اپنے کام میں بڑی مہارت ہے اور اسے اپنی بنائی ہوئی ٹوکریوں پر بڑا ناز ہے مگر اسے شکایت ہے کہ قصبے کا دوکاندار اچھے دام نہیں دیتا وہ ہر بار باپ سے کہتی کہ وہ ٹوکریاں شہر لے جا کر بیچے اور دیکھے کہ بیگمات ان کی کتنی قدر کرتی ہیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ بل کھاتی پہاڑی سڑک پر وہ شہر کو جاتی بسوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتا ٹوکریاں اٹھائے پیدل چل رہا ہے اس کا خیال ہے کہ شہر میں داخل ہوتے ہی جگہ جگہ بیگمات کاریں روک کر ٹوکریاں دیکھنے کے لئے رک جائیں گی اور ہاتھوں ہاتھ خرید لیں گی، پھر وہ بیوی کی دوائی، بیٹی کے کپڑے اور بکری کی گانی خرید کر بس پر سوار ہو گا اور اپنے گھر واپس چلا جائے گا۔ مگر آج تیسرا روز ہے اس کی ایک ٹوکری فروخت نہیں ہوئی شاید ان کا فیشن ختم ہو گیا ہے یا ڈیزائن پرانے ہو گئے ہیں وہ سڑکوں اور بازاروں میں ٹوکریاں اٹھائے بھوکا پیاسا مارا مارا پھرتا ہے۔

میں نے بازار کے اس حصے میں جہاں تھوڑی دیر پہلے اسے روتا چھوڑ گیا تھا پہنچ کر گاڑی روکی۔ ادھر ادھر نگاہ دوڑائی، میرا خیال تھا وہ یہیں کہیں آتی جاتی کاروں کے گرد منڈلاتا ہو گا۔ لیکن وہ کہیں دکھائی نہ دیا۔ میرے دل کو دھچکا سا لگا۔ میری پشیمانی کیسے دور ہو گی۔

میں نے بازار میں گھوم پھر کر اسے تلاش کرنا شروع کر دیا، لیکن وہ کہیں نظر نہ آیا، پھر مجھے خیال آیا کہ ضرور وہ کہیں کسی ریستوران میں کھا پی رہا ہو گا۔ اگر میں اسے کھاتا پیتا دیکھ لوں مجھے کس قدر سکون ملے گا۔ دل میں چبھی ہوئی پھانس نکل جائے گی۔

ہوٹلوں اور ریستورانوں میں طرح طرح کے لوگ بیٹھے کھا پی رہی تھے۔ گپ شپ کر رہے تھے۔ میرے ذہن میں اس کی شکل نہیں تھی لیکن اتنا یاد تھا کہ اس کے چہرے پر چھوٹی چھوٹی سفید داڑھی تھی اور وہ پچپن ساٹھ برس کا ایک دیہاتی بوڑھا تھا، جس کے پاس تین ٹوکریاں تھیں۔ میں نے ایک ہوٹل میں جا کر اسے تلاش کیا۔ لیکن وہ کہیں نہ ملا، کئی بار ارادہ کیا کہ لوٹ جاؤں مگر مجھے اپنی طبیعت کا حال معلوم تھا، ذرا سی الجھن بھی ہو تو جب تک قابو نہ پا لوں اس کا حل نہ سوچ لوں چین نہیں آتا۔ میں نے اسے فٹ پاتھوں اور ملحقہ پارکوں میں سوئے یا سوتے جاگتے لوگوں میں بھی تلاش کیا۔ پھر قریبی مسجدوں میں جا کر دیکھا۔ رات کے بارہ بج گئے مگر اس کا کہیں دور دور تک پتہ نہ تھا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ ناکام واپس لوٹ آؤں اور رات بھر بے چینی سے کروٹیں بدلتا رہوں۔

تو کیا وہ سچ مچ بھوکا تھا۔ بغیر کچھ کھائے پئے سو گیا سویا کہاں ہو گا۔ خالی پیٹ نیند کہاں آتی ہے۔ بھرے پڑے شہر میں بھوکا رہ کر کیا سوچتا ہو گا، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ لذیذ کیک پیسٹریوں سے بھری بیکریوں، خوش ذائقہ مٹھائیوں سے اٹی مٹھائی کی دکانوں، اناج سے بھرے گوداموں اور خوش رنگ پھولوں سے آراستہ فروٹ شاپس کے سامنے یا کہیں آس پاس آدمی بھوکا پڑا ہو۔

رات بھر عجیب واہیات اور مکروہ خواب دکھائی دیتے رہے، لیکن کبھی میں دیکھتا، میں جس شخص کی برائیاں بیان کر رہا ہوں وہ عین میرے پیچھے کھڑا سن رہا ہے۔

کبھی دیکھتا کہ میں نے ایک بچے سے ٹافی چھین کر ہڑپ لی ہے اور وہ میرے سامنے زار و قطار رو رہا تھا۔ بار بار آنکھ کھلتی رہی، عجیب ندامت بھری رات تھی۔

صبح دفتر جاتے ہوئے میں نے بازار کا ایک لمبا چکر لگایا۔ فٹ پاتھوں، دکانوں کے تھڑوں اور ملحقہ پارکوں پر نظر دوڑائی، دفتر میں بھی بار بار مجھے اس کا خیال آتا رہا۔ دفتر سے واپسی پر بھی میں نے بازار کا اس خیال سے چکر لگایا کہ شاید وہ کہیں دکھائی دے جائے اور میں اسے روپیہ دو روپیہ دے کر اس خلش سے نجات حاصل کر سکوں جو مجھے گذشتہ شب سے اندر ہی اندر بے چین کر رہی تھی، لیکن وہ کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ تاہم مجھے توقع تھی کہ شام کے بعد وہ ضرور اسی جگہ پر مل جائے گا جہاں اس سے ملاقات ہوئی تھی۔

میں نے شام ہونے کا بیتابی سے انتظار کیا اور کھانا کھائے بغیر ٹہلنے کے بہانے بازار کی طرف چل دیا میں بڑی دیر تک اِدھر اُدھر گھومتا رہا۔ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد گذشتہ رات والی جگہ کا چکر لگاتا مگر وہ نہ ملا، مجھے اس پر غصہ آنے لگا۔

بدبخت تیری اتنی عمر گزر گئی لیکن تجھے خبر نہ ہوئی کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، آخر تو اتنا عرصہ کرتا کیا رہا ہے؟ کہ اس زمانے میں بھی بھوکا سوتا ہے۔ جب اس موضوع پر شاعر نظمیں کہنا اور افسانہ نگار کہانیاں لکھنا ترک کر چکے ہیں، تیری زندگی میں کتنے ملک آزاد ہوئے کتنی نئی قومیں اور ملک معرض وجود میں آئے۔ کیا کیا ایجادات ہوئیں۔ کتنے علمی اور سائنسی انکشافات ہوئے۔ ٹیکنالوجی نے انقلاب برپا کیا۔ کلرک وزیر سفیر اور سپاہی جرنیل کرنیل بن گئے۔ دینو میراثی کا لڑکا پٹواری بن گیا۔۔۔۔رحموں نائی کا بیٹا کلاس ون افسر لگ گیا۔ وسیم خان راج گیری کرتا تھا اب اے کیٹیگری گورنمنٹ کنٹریکٹر ہے جمیل صاحب پروف ریڈنگ کرتے تھے اب پرنٹنگ پریس کے مالک ہیں۔۔۔ بشیر ریڑھی لگاتا تھا اب ہول سیل فروٹ مرچنٹ ہے۔

بدبخت بوڑھے صرف تو رہ گیا، اتنی تبدیلیاں آئیں اور تجھے خبر ہی نہ ہوئی۔ ٹھیکے، پرمٹ، لائسنس، نیلام، الاٹمنٹیں، وظیفے۔۔۔ پتہ نہیں تو کس کھوہ میں چھپا رہ گیا۔ تو نے اپنے پہاڑوں سے اتر کر کبھی دیکھا ہی نہیں۔

تو نے دھوپ میں بال سفید کئے۔ ساری دنیا آگے نکل گئی صرف تم پیچھے رہ گئے۔ میرا سکون غارت کرنے کے لئے۔۔۔ لیکن تم اگر بھوک سے مرتے ہو تو مرو۔ میری بلا سے، میری کیا ذمہ داری ہے اور کیا مجھ ا کیلے کی ذمہ داری ہے۔

میں نے اسے اگلے روز اس سے اگلے روز بھی تلاش کیا۔ یقیناً وہ اپنے گھر واپس چلا گیا ہو گا۔ یہ سوچ کر میں دل کو تسلی دینا چاہتا تھا لیکن ایک بوجھ سا دل میں ہر وقت دل پر لئے پھرتا تھا۔ ایک بے چینی سی تھی۔ ایک خلش تھی جو مجھے بے چین کرتی رہتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر ایک روز میں نے اخبار میں ایک خبر پڑھی۔ ایک نامعلوم بوڑھا بس کے نیچے آ کر کچلا گیا تھا اور حالانکہ خبر میں ٹوکریوں کا ذکر نہیں تھا۔ لیکن میں نے یقین کر لینے میں عافیت سمجھی کہ وہ وہی بوڑھا تھا۔ مجھے دکھ ضرور ہوا۔ لیکن اس رات میں چین اور سکون کی نیند سویا جیسے آخری بھوکا آدمی دنیا سے اٹھ گیا ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply