عوام اور فروٹ بائیکاٹ

بہت دنوں سے فروٹ اور اسکی قیمت کی وجہ سے بہت سے افراد کے گلے شکوے اور پھر انکا بائیکاٹ دیکھنے کےباوجود ،میں آج تک بھی یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ ہمیں غریب ریڑھی بان کو جھٹکا دینے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ روز بھانت بھانت کی بولی بولتے دانشوروں کو فیس بک پر لڑتے اور ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے بیچ ہم اس نے رمضان میں کبھی ایک دوسرے پر طنز کی بارش کی تو کبھی طعنوں کے تیر چلائے۔ لیکن نہیں کیا تو ایک دوسرے کی رائے کا احترام نہیں کیا، جس کی تبلیغ ہماری ہر ہر تحریر میں نظر آتی ہے۔
خیر یوں تو اس معاملے میں میرا جھکاؤ فی الحال نیوٹرل ہی ہے لیکن اسکے باوجود میں فروٹ فروشوں کو اتنا نیک، پارسا اور ایماندار نا سمجھتا ہوں، نا انکو پایا جتنا ہماری فکشن کہانیاں انکو پیش کر رہی ہیں۔اس سارے معاملے کو میں جس تناظر میں دیکھ کر وسیع مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے حق میں ہوں اسکی طرف آنے سے پہلے اپنے بچپن کا ایک واقعہ گوش گزار کرتا چلوں۔ میرے والد صاحب ، اللہ انکو ہمارے سر پر بخیر و عافیت سلامت رکھے، بہت کھلے ہاتھ اور کھلے دل کے مالک ہیں۔ انکی عادت تھی کہ ریڑھی والے سے زیادہ بحث کی بجائے ریٹ سے بھی تھوڑا اوپر دیکر اپنی مرضی کا فروٹ اپنے ہاتھ سے ڈال کر تُلوا لیتے تھے۔
ایک دفعہ بچپن میں انکے ساتھ سیب لینے گیا تو علاقے میں سیب کی ریڑھی والا کوئی نیا تھا۔ شاپر ہاتھ میں لیکر اچھا مال ڈالنے کی قسمیں کھاتا سیب ڈالنے لگا۔ سیبوں کا شاپر تول کر والد صاحب کو ٹوٹل قیمت بتائی تو والد صاحب، جو کہ پھلوں کی پہچان رکھتے تھے، انہوں نے شاپر لیکر ایک ایک سیب نکالنا شروع کیا، اسکا سٹیکر اتارتے جاتے اور اسکے نیچے کیڑا لگا سیب سائیڈ پر رکھتے جاتے۔ پھل فروش کھسیانی سی ہنسی ہنستے ہوئے بولا لائیں میں اور ڈال دوں۔ لیکن والد صاحب نے کہا، نہیں یہ جو صرف چار دانے صاف نکلے ہیں، انکو تول کر بتاؤ کتنے پیسے دوں۔
اب آتے ہیں اس بائیکاٹ مہم کی طرف۔ بے شک کچھ جھٹکا لگے گا ان غریب پھل فروشوں کو جو واقعی غریب اور ایماندار ہیں۔ لیکن اجتماعی فائدہ کو دیکھتے ہوئے یہ زیادہ قیمت نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا نقصان ہو یا پوری قوم کا نقصان۔ فیصلہ آپ کریں؟دوسرا یہ مہم اگر آدھی بھی کامیاب ہو جاتی ہے تو ہمیں ایک طریقہ مل جائے گا مافیا کے خلاف لڑنے کا۔ یقین کیجیے سوشل میڈیا وہ طاقت بن کر ابھر رہی ہے کہ جس نے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو بھی اپنی خبریں بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اور حکومتیں سوشل میڈیا ٹرینڈز تک سے ڈر کر اس پر نظر رکھتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوشل میڈیا پر بیٹھا ہر وہ شخص جو چار جملے لکھ سکتا ہے، وہ اپنی بات لاکھوں لوگوں تک پہنچا سکتا ہے۔ آپ میں سے ہر ایک جن کو کچھ سو لوگ فالو کرتے ہیں وہ نیوز کاسٹر، اور تھنک ٹینک کی سی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اپنی طاقت پہچانئے، اس مہم کے بعد اگلا پڑاؤ کسی اور زیادتی کے خلاف ہو گا۔ پھر وہ چاہے Qadir Ghori صاحب کی بتائی گی چور موبائیل کمپنیاں ہوں یا عورتوں کو لوٹتے کپڑوں کے آؤٹ لیٹ۔ جعلی دودھ ہو یا کوئی بھی انٹرنیشنل برانڈ۔
آپ میں سے جو احباب اس مہم کے خلاف ہیں، میں ان کے خیالات کی قدر کرتا ہوں۔ لیکن میں اگلی دفعہ آپکے قلم سے لکھا یہ نہیں پڑھنا چاہتا کہ ہماری قوم کسی بھی مسئلے پر متحد نہیں ہوتی۔ جب متحد ہو کر کچھ کرنے کا وقت آتا ہے تو آپ اندیشوں کے کوہ ہمالیہ سامنے لا رکھتے ہیں ہمت توڑنے کو۔
انشااللہ اس مہم کے بعد اگلی مہم اس سے بڑی ہو گی۔ قوم کا شعور ایک دن ضرور جاگے گا۔ پھر چاہے وہ دیکھنے کو ہم زندہ نا ہوں، چاہے ہماری اگلی نسل ہی کیوں نا ہو۔

Facebook Comments

عثمان گل
پیشے کے لحاظ سے اِنجینیئر۔ معاشرے میں رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے لحاظ سے مثبت تبدیلی کا خواہاں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply