میرا بھارت مہان؟۔۔۔۔سید فرہاد حسین شاہ

احباب ایک سوال بڑی شد ومد سے پوچھتے ہیں کہ باوجود دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولرازم کے، بھارت میں مسلسل پروان چڑھتی انتہاپسندی کی وجہ کیا ہے؟

میرا جواب ہر دفعہ یہی ہوتا ہے، کہ بھارت میں انتہاپسندی کم ہی بھلا کب تھی، جو پروان چڑھتی، یہ تو سوشل میڈیا کا کمال ہے جو بھارت کے مکروہ چہرے سے پردہ ہٹا رہا ہے، ورنہ بھارتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تو اس قدر بندشوں کا شکار ہے کہ جیسے اسرائیل تلے فلسطین۔

کتنے لوگ نندی چرن کو جانتے ہیں کہ جسے صرف کلبھوشن  کو بھارتی جاسوس ماننے کے جرم میں ماں باپ بیوی اور بچوں سمیت غائب کر دیا گیا؟

ایک ایسا انتہا پسند معاشرہ کہ جہاں امریش پوری کو صرف پاکستان کی تعریف کرنے کے جرم میں بیدردی سے مار ڈالا جائے، اخلاق، جاوید اور منور کو گوشت کھانے کے جرم میں پتھر مار مار کے شہید کر دیا جائے، جہاں عشرت جہاں کو بھائیوں سمیت صرف مسلمان نام کے بدلے گولیوں سے بھون دیا جائے، جہاں قاسم جعفر اور فرید کو گائے کا گوبر صرف اس وجہ سے کھانے  پہ  مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے ہندو مالک کے حکم پر  گائے ہانک کے منڈی لے جا رہے تھے، وہاں اگر ان سب واقعات کی کوئی  خبر تک نہ دے تو اس معاشرے سے آپ یہ توقع کیسے اور کیونکر کرتے ہیں کہ وہ اپنی سماجی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی پستیاں اور خامیاں دنیا کے  سامنے آنے دے  گا؟

ایک انتہا پسند معاشرے کی معراج اور کیا ہو گی کہ جہاں یوسف خان کو دلیپ کمار، ممتاز جہاں کو مدھو بالا، حامد علی خان کو اجیت، بدردین قاضی کو جونی واکر، ماہ جبین بانو کو مینا کماری، اشتیاق احمد کو جگدیپ اور نواب بانو کو نمی بنے  بنا کامیابی نصیب نہ ہو، جہاں شاہ رخ خان کو ہندو عورت سے شادی کر  کے اور گھر میں مندر سجا کر  بھی طعنے سننا پڑیں، جہاں سلمان خان کو گنیش اور گنپتی کی پوجا، عامر خان کو رینا رائے سے شادی ،فردین خان کو بنا نکاح محض شادی کی رجسٹریشن اور سیف علی خان کو ہندوانہ رسم ورواج صرف اس لئے اختیار کرنا پڑیں تاکہ وہ انڈسٹری میں سروایئو کر سکیں۔ جہاں مسلمانوں کو ان کے نام پر  ممبئ جیسے شہر میں ایک فلیٹ محض ایک فلیٹ تک کرائے پر  نہ ملے، وہاں انتہا پسندی بام عروج پہ  نہ ہو گی تو پھر اور کیا ہو سکتی ہے؟

بھارت صرف ہندو کا تھا، ہے اور رہے گا، جبھی تو امیتابھ بچن نے اپنے بیٹے کی شادی کٹر ہندوانہ طریقے سے کی اور ماسوائے راحت فتح کے کسی مسلمان کو پاس پھٹکنے تک نہ دیا۔وہ دھرتی کا بیٹا تھا اور اس عمل سے یہ ثابت بھی ہوا۔

بھارت ہم سے آبادی، تعلیمی اداروں اور میڈیا میں کم از کم چھ گنا زیادہ  ہے  مگر افسوس ادھر کوئی  ایک بھی ایسا ‘دانشور’ نہ پنپ سکا جو اپنی عوام کی توجہ اس بات  کی طرف دلا سکے کہ دنیا میں  سب  سے بڑی کچی آبادی،سب سے زیادہ عصمت دری،سب سے زیادہ کسانوں کی خودکشیاں ،سب سے زیادہ پینے کے صاف پانی کی کمی،فٹ ہاتھ پے پیدا، جوان ہو نے اور مرنے والے،سب سے زیادہ آزادی کی تحریکیں،تین لاکھ اکثریت کے مقابل دس لاکھ اقلیت کا ایک حلقہ،خوراک کی  سب سے زیادہ کمیابی،خوشی کے انڈیکس میں علاقائی ممالک میں سب سے کمی،قتل، رشوت ستانی اور سماجی خرابی اور بےراہ روی،کشمیر خالصتان جواں گڑھ مناوادر تری پورہ اور اسام میں بھارتی فوج کی نسل کشی،پاکستان بنگلہ دیش یا افغانستان میں نہیں بلکہ صرف اور صرف بھارت میں ہے، اور اس کی وجہ ان کا اپنے ملک سے محبت نہیں بلکہ معاشرتی تنگ نظری، عدم برداشت اور انتہا پسندی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کالم کے اختتام میں یہی کہوں گا  کہ بھارت ایک سازشی  اور  مکار  ملک ہونے کے باوجود بے پناہ خوش قسمت بھی ہے کہ اسے، اس کا دل و جان سے دفاع کرنے والے بھارت تو کیا پاکستان سے بھی میسر ہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply