سجدہ یا بوسہ؟۔۔۔محمود اصغر چوہدری

یہودیوں کی دیوار گریہ کے سامنے ایک چھبیس سالہ بلجئین ماڈل نے اپنی الف ننگی  فوٹو کھنچوائی ہے ۔ ماڈل مریزاپاپن کی فوٹو کی باقاعدہ نمائش بھی ہوئی ہے اور گزشتہ ہفتے کے روز اس ماڈل نے اسے اپنی ویب سائیٹ پر لگا بھی دیا ہے 

اس فوٹو پر یہودی برادری کی جانب سے اعتراض آگیا ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے مذہبی مقام کی توہین ہے اور اس سے ہزاروں  عبادتگزاروں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں جبکہ موصوفہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے البم “روڈ ٹو لبریشن “ کے لئے ایسی تصاویر بنوا رہی ہیں اور پچھلے سال مصر میں ایک پرانے مندر کے باہر نیوڈ فوٹو کھنچوانے کی پاداش میں سزا بھی پا چکی ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس دنیا میں فرد کی آزادی بہت قیمتی ہے 

یہودیوں کے نمائندوں نے ایک تیلی یہ بھی لگائی ہے کہ جس فوٹو گرافر نے یہ فوٹو بنائی ہے اس نے فوٹو ایڈیٹ کی ہے کیونکہ اس میں مسجد اقصی کا حصہ کیوں نظر نہیں آرہا؟ یعنی اگر مسجد نظر آجاتی تو پھر جذبات مجروح نہیں ہونے تھے ؟ 

پاکستان میں بھی ایک گروہ کے عقیدتوں کے مرکز پر ایک ایسا عمل ہوا ہے جس کی بازگشت بڑے زور و شور سے سوشل میڈیا پر سنائی دے رہی ہے اس حرکت کا تعلق پاکستان کے مستقبل کے ممکنہ وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کے  عمل سے ہے ۔

بعض مذہبی مفکرین کے مطابق بابا فرید کے مزار پر عمران خان اور ان کی اہلیہ سربسجود ہوئے ہیں  جبکہ عمران خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ سجدہ نہیں تھا بلکہ انہوں نے صوفی کی دہلیز پر بوسہ دیا ہے  ۔

البتہ میں عمران خان کے اس عمل کو وہاں پر موجود اہل علم کی سستی قرار دوں گا جو ایسے مواقع پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔۔۔

دربار عموماً بریلوی مکتب فکر کے زیر انتظام ہوتے ہیں بریلوی علما ء سے اگر قبروں پر سجدے یا انہیں چومنے کے بارے میں  سوال کریں تو وہ نہ صرف بڑے طمطراق سے جواب دیتے ہیں بلکہ  انہوں نے مزارات اولیا  پر ایسی عبارات  بھی لکھوائی  ہوتی ہیں کہ قبروں کو سجدہ کرنا حرام ہے اور اگر عبادت کی نیت سے کیا جائے تو شرک ہے لیکن یہ ہدایات بھی سگریٹ کی ڈبی پر لکھی تمباکونوشی کے خلاف   ہدایات کی طرح ہی ہیں ۔

بعد میں جب انہی علما کی اپنی ویڈیوز بھی سامنے آجاتی ہیں جب لوگ ان کے قدموں میں جھکتے نظر آتے ہیں تو اس وقت وہ  بھی یہی تاویل تلاش کر کے لے آتے ہیں کہ اصل میں وہ سجدہ نہیں بلکہ قدموں کو بوسہ دلوا رہے۔

آج کے دور میں کسی شخص کا اپنے ہی ہم جنس کے قدموں کو بوسہ دینا یا دلوانا از خود ایک قابل وضاحت عمل ہے ۔

حیرت ہے وہ علما ء ایسے لوگوں کو منع کیوں نہیں کرتے جن کی ایسی حرکات کی وجہ سے بعد  میں انہیں تاویلیں دینی پڑتی ہیں ۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو عمران خان کے اس عمل کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے  کیونکہ مسلم لیگ ن ہو ، پیپلز پارٹی ہو یا کوئی دیگر سیاسی جماعت کسی بھی جماعت کی قیادت کا دامن ایسی توہمات سے بری کم   ہی نظر آئے گا ۔

حتی کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی اپنی سیاسی جدوجہد کے لئے بشارتیں  سنانے میں تامل نہیں کرتے ۔

ایم ایم اے کے قائد مولانا فضل الرحمن کی حضرت آدم سے فون پر بات کرنے کا دعوی بھی ایک سوشل میڈیا ویڈیو کی صورت میں موجود ہے  ۔

میرے خیال میں مزارت پر ہونے والی بدعات کو روکنے کی ذمہ داری بھی اسی طبقے کی ہے جن کے زیر انتظام یہ چل رہے ہیں ورنہ کل کو عمران خان یا دوسرے لیڈر بھی وہاں آزادی سے ایسے عوامل کرنے کے بعد بلجئین ماڈل کی طرح یہ نہ کہنا شروع کردے 

Advertisements
julia rana solicitors london

 First of all, ‘don’t judge a book by its title’… This purely implies the shame you, dear reader, (perhaps) will project on me because I have done something so disrespectful, I should burn in hell ۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply