پیغام

اَماں کی نہ جانے کب سے یہ عادت تھی ,افطار دسترخوان مکمل لگ جاتا، کوئی بھی چیز تھوڑی سی اُٹھاتیں اور محلے میں نکل جاتیں۔
واپس آتیں تو اُن کے ہاتھ خالی ہوتے ۔۔۔میں جھنجھلا کے کہتا،بعد میں دے آیا کریں ۔۔
عین افطار کا وقت ہوتا ہے تو آپ محلے میں چیزیں بانٹنا شروع کر دیتی ہیں۔
اُن کا جواب آج بھی میرے ذہن میں من و عن ایک پیغام کی صورت محفوظ ہے ،
کہنے لگیں ،بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا دسترخوان اتنا بھرا ہوتا ہے کہ تھوڑی سی مقدار اُٹھانے سے کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔
مگر ایسے بھی ہیں جن کا دستر خوان اتنا خالی ہوتا ہے کہ اِس تھوڑی سی مقدار سے بھرا ہوا لگتا ہے۔۔ ۔!

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply